امریکہ کو ایئر بیس دینے معاملہ
ہر چند کہ وزارت خارجہ بتکرار وضاحت پیش کر رہی ہے کہ پاکستان میں امریکہ کا کوئی فوجی اڈہ نہیں اور نہ ہی اس بارے میں کوئی منصوبہ زیر غور ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان فوجی اڈوں کے قیام کے حوالے سے کوئی نیا معاہدہ نہیں ہواترجمان وزارت خارجہ زاہد حفیظ نے ہفتہ وار بریفنگ دیتے ہوئے ایک بار پھر اعادہ کیا ہے۔ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان اورامریکہ 2001کے معاہدے کے تحت کام کررہے ہیں۔ترجمان نے اسرائیلی وزیر کے بیان کو ناقابل قبول قرار دیا۔ویسے بھی نئے عالمی تناظر میں یہ دعویٰ کرناکہ پاکستان نے امریکہ کو کوئی ایئر بیس یا فوجی اڈہ اس مقصد کے لئے فراہم کر دیا ہے یامستقبل قریب میں ایسا کرنے جارہا ہے زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔سیاست کاادنیٰ تعلیم بھی سمجھتاہے کہ پاکستان ذہنی اورعملی طور پر چینی کیمپ میں نہ صرف جا چکا ہے بلکہ اس نے اپنا مستقبل اپنے ہمسایوں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کی دیرپا حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔دوسری طرف وہ امریکہ دنیاکے نقشے سے بتدریج پسپائی اختیار کررہاہے جو جاپان کے دو شہروں ہیروشیمااور ناگا ساکی پرایٹم بم برسا کر ساری دنیا کو فتح کرنے کے عزائم رکھتا تھا۔ویسے بھی اب اس کے پاس دنیا فتح کرنے کے کچھ نہیں بچا۔خلیجی ریاستوں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ ہنستا بستاعراق اجاڑ دیا،لیبیاء ویران کر دیا۔افغانستان سے شرمناک شرائط پر واپسی اختیار کرنے پر مجبور ہے۔اپنی ہمدرداشرف غنی حکومت کے لئے افغان طالبان سے تحفظ کی کوئی یقین دہانی حاصل نہیں کر سکا۔طالبان نے معاہدے میں طے کردہ واپسی کی ڈیڈ لائن میں توسیع نہیں کراسکا۔نیٹو کی مسلح افواج کا غرور بھی بہادر اور غیور افغانیوں نے 20سال میں خاک میں ملادیاہے۔امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ عرب حکمرانوں کو ڈرادھمکا کر جتنا اسلحہ بیچ سکتا تھا،بیچ چکا۔ایران سے نکلے ہوئے امریکہ کو چار دہائیاں بیت چکیں۔اپنے لاڈلے اسرائیل کے ذریعے جتنی دہشت گردی کر سکتا تھا،کر لی۔اپنی فوجی برتری کی ساکھ مٹی میں ملا کر تیزی سے اپنے گھر کی طرف بھاگتے ہوئے امریکہ کو ایئر بیس یا فوجی اڈہ کون فراہم کرے گا؟افواہیں پھیلانے والے ذراعالمی منظر پر ایک نظر تو ڈالیں۔ اور ان افواہوں کے تعاقب میں دور تک جانے والے مانیں یا نہ مانیں شمالی کوریا سے امریکہ اپنی مرضی نہیں منوا سکا۔ تیسرے ملک میں شمالی کوریا کے مرد آہن سے ملاقات کے بعد امریکی صدر کی زبان پر صرف توصیفی کلمات تھے۔گرتی ہوئی دیوار کے سائے میں کوئی ذی ہوش کبھی نہیں بیٹھتا۔ امریکی معیشت کا حال ڈونلڈ ٹرمپ کے آخری بجٹ میں دیکھا جا سکتا ہے۔بجٹ خسارا 3ٹریلین ڈالر(تین ہزار ارب ڈالر)سے زیادہ تھا۔قرضہ جی ڈی پی کا 97فیصد تھا، جبکہ عالمی مالیاتی ا دارے تقاضا کرتے ہیں کہ یہ تناسب60فیصد سے کم ہو۔اقتصادی بد حالی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔معاشی طور پر لاغر، فوجی لحاظ سے شکست خوردہ امریکہ سے دوستی کے خواب دیکھنے والے پاکستان میں اب بھی موجود ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ پاکستان اس دوستی کی قیمت مع سودادا کر چکا ہے۔انہیں یاد ہوناچاہیئے کہ پاکستان اگر چاہے بھی تو ایسا ممکن نہیں۔پاکستان نے انتہائی خاموشی سے اپنا معاشی مستقبل اپنے ہمسایہ چین سے وابستہ کر لیاہے۔چین نے ایشیاء اور یورپی ممالک سے تجارتی روابط مضبوط کرنے کے لئے سڑکوں اور ریلویز کا جال پھیلادیا ہے۔سی پیک اسی منصوبے کا حصہ ہے جوچین سے شروع ہوکر پاکستان کی بحری بندگاہ گوادر تک طویل ہے۔چین سمجھتا ہے کہ سی پیک کی تعمیر اور اس کے فعال ہونے کے نتیجے میں اس کی آدھی آبادی عالمی منڈی میں اپنی مصنوعات با آسانی پہنچاسکے گی۔دنیا جانتی ہے کہ چینی مصنوعات سستی ہونے کے باعث صارفین کے ہاتھوں میں نظر آتی ہیں۔لیکن سی پیک کے نام پرابھی صرف سڑکیں اور پل بنے ہیں،صنعتیں نہیں لگیں۔اور سڑکیں بھی اصل نقشے سے انحراف کرتے ہوئے پنجاب میں تعمیر ہوتی رہی ہیں۔کرپشن کی داستانوں سے قطع نظر موٹر وے بھی بوجوہ پنجاب میں نظر آئے۔اب صنعتی زون تعمیر ہونے لگے ہیں۔یہ زون جیسے ہی فنکشنل ہوں گے،ان کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنے کا آغاز ہو جائے گا۔لیکن معاہدے خفیہ ہونے کی وجہ سے کوئی یہ نہیں جانتا کہ اس کھیل میں عام آدمی کو کیا ملے گا؟واضح رہے چین سی پیک میں صرف سرمایہ کاری نہیں کر رہا، اس نے اپنے سرمایہ کی سیکیورٹی کا بھی معقول بندوبست کیا ہوا ہے۔ پاکستانی عوام کی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے معاہدوں پردستخط کرتے وقت آج تک عوامی مفادات کو نظرانداز کیا ہے۔ اس حوالے سے سیندک اور ریکوڈک کاپر اینڈ گولڈپراجیکٹ بلوچستان میں اور کاراکے رینٹل پاور پروجیکٹ سندھ میں شرمناک مثالیں ہیں۔ان معاہدوں میں کی جانے والی بددیانتی باضابطہ طور پرعالمی عدالتوں نے بھی تسلیم کی ہے اور اسی بنیاد پر پاکستان 7.1 ارب ڈالر کے خطیر جرمانے سے بچ سکا۔سوچنے کا مرحلہ عرصہ ہوا گزر چکا،عوام کے پاس ایک ہی آپشن ہے کہ آسمان کی دیکھیں اور دعا کریں کہ ان پر اور ان کی آئندہ نسلوں پر رحم کیاجائے۔اس لئے کہ جو عوامی مفادات کے دعوے کیا کرتے تھے،سہل پسند اور آرام طلب ہو گئے ہیں۔ایوانوں میں پہنچ کر گلی کوچوں میں رہنے والے ان کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔عوام ابھی بے بس ہیں، انہیں مخلص قیادت نظر نہیں آتی۔گزشتہ دہائیوں میں بڑے پیمانے پر لوٹ مار کی سرپرستی کی گئی۔عوام کے وسائل کوڑیوں کے دام غیروں کو دیئے گئے۔ بلوچستان کے سمندر میں غیر ملکی ٹرالرز کی موجودگی اس کا کھلا ثبوت ہے۔ نہ صرف وائر نیٹ کے ذریعے قیمتی مچھلی شکار کرتے ہیں بلکہ غیر مطلوب مردہ مچھلیوں کو کچرا کہہ کرسمندر میں پھینک دیتے ہیں،اور سمندر کو آلودہ بھی کرتے ہیں۔گوادر پورٹ کی تعمیر سے مقامی ماہی گیر اپنی آبائی جائیداد سے محروم ہوئے، ماہی گیری ہاتھ سے جاتی رہی۔نان شبینہ کوترس رہے ہیں۔گزشتہ دنوں کہا گیاہے کہ گوادر میں مستقبل قریب میں تعمیر ہونے والے صنعتی زون کے لئے ہنرمند افرادی قوت تیار کی جائے گی اور بڑی تعداد میں بلوچ نوجوانوں کو خصوصی تربیت دی جائے گی۔ہماری سیاسی قیادت کو تبدیلی کے اس عمل میں چوکنا رہنا ہوگا تاکہ بلوچ جوان اپنے حق سے محروم نہ رکھے جائیں۔دوسری طرف نوجوانوں کو بھی بڑھ چڑھ کر تربیت لینا چاہیے۔ یاد رہے آنے والا دور ہنرمندوں کا دور ہے۔ ڈرائیور کے لئے بھی کمپیوٹر کی زبان سے آشنا ہونا ضروری ہوگا۔میکینک ابھی سے انگریزی سیکھنے کی کوشش کریں۔بلوچ قائدین نوجوانوں کی رہنمائی کریں۔


