سیاست میں شائستگی کا خیال رکھا جائے

سیاست دراصل اپنا مطمع نظر دوسروں تک پہنچانے اور اپنا ہم نوا بنانے کا نام ہے۔جسے یہ ہنر آتا ہے، وہ کامیاب سیاست بن جاتا ہے اور اس کے گرد نعرے لگانے اور تالیاں بجانے والوں کا ہجوم اکٹھا ہو جاتا۔سرمایہ ثانوی حیثیت رکھتاہے۔مجمع کو اپنی جانب متوجہ رکھنے اور ہمہ تن گوش والی کیفیت طاری کرنے کے لئے اپنی گفتگو کے دوران ہلکی پھلکی طنز و مزاح کا استعمال بھی مقرر کی ضرورت بن جاتا ہے۔اگر احتیاط نہ برتی جائے تو یہی طنز و مزاح بتدریج برہنہ دشنام طرازی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔معاشرے میں مرزا غالب جیسانستعلیق مزاج شخص اس زبان درازی سے لطف اندوز ہونے کی بجائے تلما کر پوچھتا ہے:
مجھ سے کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے؟
تم ہی کہو یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟
آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات کے دوران حکومتی اور اپوزیشن کے سیاست دانوں نے ایک دوسرے کو جن القاب سے نوازا اسے دیکھ اور سن کر گالیوں پر زیرِ لب مسکرانے والوں کے بھی ہوش اڑا دیئے۔سینیئر پاکستانی جانتے ہیں کہ ماضی میں گالم گلوچ کو برا سمجھا جاتاتھا،دریوں پر بیٹھے کارکن کسی بات پر مشتعل ہو کر ایک دوسرے کا گریبان پکڑ لیتے،دو چار مکے جڑ دیتے، تو اسٹیج سے اتر کر ان کے بڑے بیچ بچاؤ کرادیتے، منٹوں میں ماحول پر سکون ہو جاتا تھا۔مگر گزشتہ چند برسوں سے مقررین کا لہجہ ماضی کے مقابلے میں تلخ ہوگیا ہے۔آج کی اپوزیشن کو شکایت ہے کہ گالم گلوچ اورایوان سے واک آؤٹ صرف اپوزیشن کا استحقاق ہے، مگر اس پر آج کل حکومت کی اجارہ داری ہے۔بجٹ اجلاس کے مناظر اس طرز سیاست کا عروج سمجھے جاتے تھے مگرآزاد کشمیر کی انتحابی مہم میں شرفاء گالم گلوچ کے چلن کو دیکھ کر کسی قدر مایوس ہوگئے کہ یہ برائی سیاست میں دور تک اپنی جڑیں پھیلا چکی ہے۔پی ٹی آئی کے علی امین گنڈاپور حکومتی ٹیم کے سرخیل نکلے جبکہ اپوزیشن کی جانب سے نون لیگ کی نائب صدر نے مورچہ سنبھالا۔بات نکلی توزمینی اور مذہبی دونوں سرحدیں عبور کر کے لندن تک جا پہنچی۔گھر کی بہو بیٹیاں بھی اس کارِ بد کی روک تھام میں ایک دوسرے کو سمجھانے لگیں۔ایک نے کہا:”میں نے برسوں پہلے تمہارا ملک چھوڑ دیا تھا، اب تو میراپیچھا چھوڑو“۔جوب ملا:”مجھے تم سے کچھ لینا دینا نہیں، اپنے سابق شوہر کو سمجھاؤ، گالی دے گا تو گالی دینا ہمیں بھی آتا ہے“۔اخلاقی سرحدیں تو بہت پہلے مسمار ہو چکیں!مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کے ستائے عوام تھوڑی دیر سستانے انتخابی جلسوں کا رخ کرتے تھے، گالم گلوچ جاری رہی تو شرفاء یہاں جانا بھی چھوڑ دیں گے۔ سیاست دانوں کو سوچنا چاہیئے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔مانا کہ اب صدر مملکت کے پاس اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اختیارات نہیں رہے، لیکن معاشرے میں شدت پسندی کا رجحان بڑھنے لگا ہے۔اسلام آباد میں متشددانہ جرائم کی شرح قصور کی طرح بڑھ رہی ہے۔ ایک جوڑے پر تشدد، زیادتی اور ساڑھے گیارہ لاکھ روپے ہتھیانے کی واردات کی تفتیش ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ایک سابق سفیر کی صاحبزادی کو بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا گیا۔کوئی مانے یا نہ مانے لوگ سیاست دانوں کی روش اپنا لیتے ہیں۔سیاست دانوں کو احساس نہیں، جس فصل کی آبیاری کر رہے ہیں، کل اسے کاٹنا ممکن نہیں رہے گا۔جیسے کرپشن پہلے چھپ کر کی جاتی تھی پھر کھلے عام ہونے لگی۔بعض خوش شکل خواتین بھی کرپشن کی کمائی بیرون ملک لے جانے کے عمل میں ہاتھ بٹانے لگیں۔اب اربوں روپے کی ٹی ٹیز (TTs)پاپڑ والے، فالودے والے اور چپڑاسی بیرون ملک سے ملک کے نامور سیاست دانوں کے اکاؤنٹس میں بھیجتے پائے جاتے ہیں۔کوئی جرم پہلے دن بڑا نہیں ہوتا۔بھینس چوری سے شروع ہوکر اس بلندی تک کا سفر کرتا ہے۔ سیاست دان خود پریشان ہیں کہ نہ جانے اتنی بڑی رقوم ان کے بینک اکاؤنٹس میں کیسے جمع ہو گئیں، اور انہوں نے بے خبری میں اس سے جائیدادیں بھی خرید لیں۔وہ اس ناقابل بیان حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے ان بیٹوں کا نام دہراتے ہیں جو لندن میں  مقیم ہیں۔یہ سادا کھیل ہے، جس دن عدالت کی سمجھ میں آگیا ذمہ دار کون ہے۔یہ بحث اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گی۔سیاست میں شائستگی آجائے گی۔اس لئے کہ جب عادتیں بگڑ جائیں، مزاج میں رچ بچ جائیں، اقتدار کی باریاں وہ سب کچ حکمرانوں سے کراتی ہیں جو آج عوام اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔لیکن 10لاکھ کے سامنے 700زائد امیدوار کہیں:”ان میں سے 45امیدوار چن لو“!اورانتخابات میں حصہ لینے والی پارٹیوں کی تعداد26ہو۔۔۔۔۔آزاد امیدوار اس کے علاوہ ہوں۔ایسے حالات میں حکومت کا ستایا نون لیگی امیدوار بھارت سرکار کو بلانے اور اس کی تعریفیں نہ کرے تو کیا کرے؟ سیاست دان سوچیں حالات میں پیدا کردہ بگاڑ کیسے دور کیا جا سکتا ہے؟یاد رہے جب بھی سوچا جائے گا حل نکل آئے گا۔ لیکن یہ حل سیاست دانوں نے خود تلاش کرنا ہے۔حالات کا تقاضہ ہے کہ حل تلاش کیا جائے۔عام آدمی جب اس قسم کی بچگانہ بیان بازی دیکھتا ہے، اسے دکھ ہوتا ہے۔کیا گوجرانوالہ کی کشمیری نشست ایک نون لیگی گوجر کو دلوانے کے لئے بھارت سرکار اپنا ایک جہاز بھیج سکے گی؟ایک بچہ بھی یہی کہے گا: ”ہر گز نہیں“۔جبکہ گوجر لیگی امیدواراپنا کیمپ دو چار پولیس اہلکاروں گرانے سے نہیں روک سکا۔کمزوروں کو بچانے بیرون ملک سے کبھی کوئی نہیں آتا۔اس نے بھارت سرکار کو مدد کے لئے بلانے میں جلدی کر دی۔اس قسم کی بھڑکیں سن کر عوام کے لبوں پر ہنسی آجاتی ہے۔تحمل، برد باری مزاج کا حصہ نہ رہے تو ایسے ہی لطائف سامنے آتے ہیں۔ وقت کی نزاکتوں کو سمجھنے کی صلاحیت نہ رہے تو کلفٹن کے ساحل پر ریت میں دھنسے مال، بردار بحری جہاز ہوتی ہے، مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ابھی جہاز کو نکالنے ٹگ کلفٹن نہیں پہنچا۔یاد رہے خرچہ جہاز کے مالک کو برداشت کرنا ہے۔جسے یہ رموز نہ آتے ہوں وہ کوچہئ سیاست میں نہ آئے۔ اسمٰعیل گجر جیسے سینئر کار کن کو عمر کے اس حصے میں یہ کام اپنے جوان بیٹے کو منتقل کر دینا چاہیئے۔کسی مسجد میں جا کر اپنی عاقبت سنوارنے کی کوشش کرے، اس قسم کے احمقانہ بیان کی داد لندن سے بھی نہیں ملے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں