طالبان اور اپڈیٹ سافٹ ویئر
تحریر: انورساجدی
طالبان کی فتح سے پوری دنیا میں مچی ہلچل روز بروز بڑھ رہی ہے امریکہ اور انکے نیٹو اتحادی تو اپنے زخم چاٹ رہے ہیں لیکن طالبان کی وجہ سے وسطی اور جنوبی ایشیاء میں ایک اضطراب کی کیفیت ہے حالانکہ طالبان نے ابھی تک اپنے پچھلے دور کے واقعات کا اعادہ نہیں کیا ہے امکان یہی ہے کہ حکومت سازی مکمل ہونے کے بعد جب تعزیری سزاؤں کاسلسلہ شروع ہوجائے گا تو ساری دنیا چیخے گی کیونکہ طالبان جس طرح کا تعزیری نظام قائم کرنے جارہے ہیں ایسا نظام پوری دنیا میں نہیں ہے اس نظام میں خواتین کے باہر نکلنے اور کام کرنے کی گنجائش کم ہے کابل میں 20برس کا جو واقفہ آیا تھا اس میں خواتین کو بڑی آزادی ملی تھی بلکہ ظاہر شاہ کے دور کی یاد تازہ ہوگئی تھی لیکن جیسے کہ واضح ہے کہ طالبان سازوآواز کی اجازت نہیں دیں گے جس کی وجہ سے ہزاروں خواتین فنکار اور سازندے اتھاہ مایوسیوں میں گھرجائیں گے اس دوران لوگ بڑے پیمانے پر انخلا یعنی بھاگنے کی کوشش کریں گے امریکہ اور نیتو والے تو ایک لاکھ لوگ لے گئے ہیں لیکن افغانستان کی تو 10فیصد آبادی نامساعد حالات کی وجہ سے ملک چھوڑنا چاہتی ہے اقواممتحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین کا تخمینہ ہے کہ8لاکھ لوگ پاکستان میں پناہ لیں گے لیکن یہ تخمینہ غلط ہے کیونکہ بلوچستان حکومت کے ایک اہلکار نے بتایا ہے کہ8لاکھ پناہ گزینوں کے بلوچستان میں آنے کا امکان ہے۔اگرواقعی اتنی تعداد میں پناہ گزین آگئے تو بلوچستان پر اس کے تباہ کن اثرات برآمد ہونگے یہ صوبہ گزشتہ پناہ گزینوں کے اثرات سے باہر نہیں نکلا ہے کہ اس پر مصیبتوں کا ایک پہاڑ ٹوٹنے والا ہے چند روز قبل محمود خان اچکزئی نے زور دیا تھا کہ نئے پناہ گزینوں کو آنے کی اجازت دی جائے ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کاچارٹر بھی یہی کہتا ہے لیکن اقوام متحدہ کا چارٹر یہ نہیں کہتا کہ پناہ گزین مقامی آبادی کو پیچھے دھکیل کراس کے سیاسی ومعاشی نظام پر قابض ہوجائیں لہٰذا خطہ کے ممالک کے ساتھ جو ہوسوہو لیکن اصل قیامت تو بلوچستان پر ٹوٹے گی آثار بتارہے ہیں کہ طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد ایک خانہ جنگی ضرور ہوگی بے شک یہ1990ء کی دہائی کی طرح طویل اور خطرناک نہیں ہوگی لیکن اس کے نتیجے میں جہاں افغانستان کے اندر ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے گا تو وہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد پناہ گزین بن کر ہمسایہ ممالک کا رخ کرے گی اگرچہ پاکستانی حکام نے بارہا کہا ہے کہ انہوں نے افغان بارڈر پر باڑھ لگاکر اسے بند کردیا ہے لیکن چاغی میں مہاجرین کی یلغار سے ثابت ہوتا ہے کہ یا تو باڑھ مکمل نہیں ہے یا ایسے مقامات ہیں جہاں باڑھ نہیں لگائی گئی نئے مہاجرین کیلئے ابھی تک کیمپ بھی قائم نہیں کئے گئے ہیں۔اس لئے یہ لوگ آبادیوں کے اندر مکس ہورہے ہیں کسی قاعدے کے بغیر مہاجرین کے آنے سے امن وامان کا مسئلہ پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔
طالبان کو لیکر انڈیا کا میڈیا بہت خوف ہراس پھیلا رہا ہے بیشتر انڈین چینل اور یوٹیوب نیٹ ورک یہ پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ طالبان کے آنے سے انڈیا کے مسلمان بہت خوش ہیں ان کے مطابق ہندوستان کے18کروڑ مسلمانوں میں سے7کروڑ ذہنی اعتبار سے جہادی تحریک سے وابستہ ہیں یہ الزام بھی عائد کیا جارہا ہے کہ دارالعلوم دیوبند اور تبلیغی جماعت مسلمانوں کی نئی نسل کو جہاد کی ضرورت کیلئے تیار کررہے ہیں حالانکہ کئی سال سے دارالعلوم دیوبند سے وابستہ اکابرین پاکستان کی مخالفت کررہے ہیں اور وہ بھارت کا یوم آزادی باقاعدگی سے منارہے ہیں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ جمعیت علمائے ہند نے انگریزی عہد میں ہمیشہ پرامن جدوجہد کی ان کی تمام تحاریک سیاسی تھیں اور ان کا مقصد ہندوستان کو انگریزوں سے آزادی دلانا تھا البتہ پاکستان کی طرف دیوبند تحریک میں جہادی عنصر نمایاں رہا جبکہ افغانستان پہنچ کر اس نے مسلح مزاحمت کی نئی تاریخ رقم کردی۔
1997ء میں افغانستان پر قبضہ اور وہاں پر شرعی حکومت کا قیام دیوبندی تحریک کی نمایاں کامیابی تھی۔جبکہ طالبان کی حالیہ فتح اس سے بھی بڑی کامیابی ہے دیوبند کے اکابرین اس فتح کو آخری صلیبی جنگ سے تعبیر کررہے ہیں جس میں کرد کمانڈر سلطان صلاح الدین نے تمام عیسائی ممالک کی مشترکہ افواج کو شکست دے کر یروشلم پرقبضہ کرلیا تھا لیکن یہ12ویں صدی نہیں ہے دنیا کے حالات بہت بدل چکے ہیں اگرچہ امریکہ اور پورے نیٹو کو شکست ہوئی ہے لیکن وہ اب بھی دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہیں وہ روپ بدل آئیں گے اور ایک اور انداز میں حملہ آور ہونگے طالبان ساری دنیا سے تنہا ہوکر اکیلے کامیابی حاصل نہیں کرسکتے انہیں اپنا ملک چلانے کیلئے وسائل کی ضرورت ہے اور یہ وسائل وہ اپنے ذرائع سے حاصل نہیں کرسکتے انہیں دنیا کی مدد کی ضرورت پڑے گی ایک بڑی حقیقت جس کا طالبان ادراک نہیں کررہے کہ افغانستان ایک کثیر القومی ریاست ہے صرف ایک گروہ کی آمریت یابالادستی کامیابی کی ضمانت نہیں ہے انہیں تمام لسانی گروپوں کوساتھ ملا کر چلنا ہوگا اور انہیں اپنی حکومت میں نمائندگی بھی دیناہوگی۔لیکن طالبان کے اصولوں میں اتنی کشادگی نہیں جس کی وجہ سے خطرہ ہے کہ افغانستان کے اندر طویل عرصہ تک امن قائم کرنا ممکن نہ ہوگا۔
بھارت جس نے افغانستان کے اندر3ارب ڈالر کی لاگت سے کئی میگاپیروجیکٹ بنائے شدید مایوسی کا شکار ہے یہ نریندر مودی کی بے بصیرتی ہے کہ وہ حالات کا اندازہ نہ لگاسکے بائیڈن اور اشرف غنی کے جھوٹے دعوؤں پریقین کیا اگرچہ طالبان نے بھارت کو دعوت دی ہے کہ وہ واپس آکر اپنے نامکمل منصوبے مکمل کرے لیکن بھارت واپس آنے سے خوفزدہ ہے بلکہ اسے خدشہ ہے کہ طالبان کے آنے کے بعد مسلح گروہ مقبوضہ کشمیر میں دراندازی کرکے مسئلہ پیدا کریں گے حالیہ چند دنوں سے حالات سے فائدہ اٹھاکر چند نوجوانوں نے طالبان کے نام پر اپنے وڈیوز جاری کئے ہیں جن میں مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرنے اور دہلی کے لال قلعہ پر جھنڈا لہرانے کی دھمکی دی ہے ایسے گروہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ اور جنگی حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔معروف اداکار نصیرالدین شاہ نے اپنے ایک بیان میں ہندوستانی مسلمانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ طالبان کی فتح پر خوشی نہ منائیں کیونکہ یہ وحشی لوگ ہیں معلوم نہیں کہ نصیر الدین شاہ کو یہ بیان دینے کی کیاضرورت پڑی۔
ادھر پاکستان بھی بہت تشویش میں مبتلا ہے طالبان کی جانب سے یقین دہانی کے باوجود کہ ٹی ٹی پی کوافغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی پاکستانی حکام کو یقین نہیں آرہا ہے کیونکہ ٹی ٹی پی جو بھی کارروائی کرے کہے گی کہ اس نے پاکستان کے اندر سے یہ کارروائی کی ہے اسی طرح طالبان نے کہا ہے کہ بلوچوں کا کوئی نیٹ ورک نہیں ہے اور وہ پرامن طور پرپناہ گزین ہیں یعنی انہیں بھی نہیں نکالا جائے گا اس طرح کے کئی معاملات ہیں جو آئندہ چل کر طالبان اور پاکستانی حکام کے درمیان وجہ تنازعہ بنیں گے ایک بڑا مسئلہ ٹرانزٹ ٹریڈ اور دوطرفہ تجارت ہے اگر پاکستان نے آزادانہ راہداری کی سہولت نہیں دی تو طالبان ہرات ٹوچاہ بہار راہداری استعمال کریں گے لیکن آگے جاکر یہ ممکن نہ ہوگا طالبان نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان سرحد کو بند نہ کرے کیونکہ اس سے کئی مسائل جنم لیں گے آگے چل کر اس مسئلہ پر بھی تناؤ پیدا ہونے کا امکان ہے لیکن سب سے برا تنازعہ ٹی ٹی پی کی وجہ سے ہوگا جب مولوی ہیبت اللہ امیرالمومنین کا عہدہ سنبھالیں گے تو ٹی ٹی پی کے ذمہ دار بھی ان کی وفاداری کا حلف اٹھائیں گے جیسے مل ملاعمر کے دور میں ہواتھا۔
ایک بڑا مسئلہ داعش کا ہے فی الحال امریکہ اور طالبان کے درمیان خفیہ معاہدہ ہے کہ داعش کی بیخ کنی کی جائے گی یہ جو لفظ خراسان ہے یہ حالیہ دور میں داعش نے رائج کی ہے جس سے مرادافغانستان پاکستان اور ایرانی علاقہ خراسان شامل ہے قدیم دور سے خراسان کی اصطلاع احیائے اسلام کی تحریک کیلئے استعمال کی جارہی ہے یعنی اس سارے علاقہ پر مشتمل ایک اسلامی ریاست قائم کی جائے گی آج کل لال ٹوپی والے زید حامد اور اوریا مقبول جان بار بار خراسان کا لفظ استعمال کررہے ہیں جیسے یہ کوئی خراسان کے سفیرہوں یہ دونوں اصحاب آئے دن غداری کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرتے ہیں لیکن خود واضح نہیں کہ وہ ریاست پاکستان کے وفادار ہیں یا ریاست خراسان کے داعی آئندہ چند دنوں کے اندر طالبان ڈھونڈ ڈھونڈ کر داعش کے لوگوں کو ماریں گے جبکہ جواب میں انکے چند سو افراد خودکش حملے کریں گے جیسے کہ انہوں نے کابل ایئرپورٹ پر کیا تھا اگر طالبان نے واقعی عام معافی کا اعلان کیا ہے تو انہیں ایک چھوٹے سے علاقہ پنج شیر اور داعش کے چند گنے چنے افراد کو بھی معافی دینی چاہئے یا انہیں اپنے اپنے ممالک واپس بھیجاجائے۔
طالبان کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ اکیلے مشکل چیلنجوں کامقابلہ نہیں کرسکتے ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی یک طرفہ اور بے لچک پالیسیوں کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوجائیں۔
ایم این اے محسن دوڑ نے سافٹ ویئراپڈیٹ ہونے کے بعد ایک نئی جماعت کا اعلان کیا ہے اس جماعت کی اہم بات افراسیاب خٹک اور بی بی بشریٰ گوہرکی شمولیت ہے محسن دوڑنے اپنے رہنما منظور پشتین کواکیلے چھوڑدیا ہوسکتا ہے کہ جب منظور پشتین کا سافٹ ویئراپڈیٹ ہوجائے تو وہ بھی اس جماعت کی زینت بن جائیں لوگوں کو یاد ہوگا کہ جب الطاف حسین نے اپنا سافٹ ویئرٹھیک کیا تھا تو انہوں نے اپنی جماعت مہاجرقومی کا نام بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیا تھا محسن دوڑ نے بھی باالکل ویسا یہ کیا ہے۔


