حکومت کے دو ہدف

راحت ملک
موجودہ حکومت کو یہ اعزاز تو حاصل ہے کہ اس نے اپنے دو نکات پر کامیابی سے عملدرآمد کیا ہے۔
پہلے 20 ماہ میں اس نے ملکی معیشت کا ستیاناس کیا۔ اور اب کورونا جیسی بھیانک وبا ء کے دنوں میں انسانیت پر معیشت کو فوقیت دینے کے متعلق اپنے بیانیے کو تقویت پہنچانے میں کامیاب رہی ہے۔ چنانچہ کراچی لاہور کوئٹہ کے تجارت صنعتی حلقوں سمیت حکومتی اتحادی و مشاورتی گروہ سمیت ہر طرف سے لاک ڈاؤن ختم کرنے کی صدائیں سنائی دے رہی ہیں۔وہ بھی تجارت بے روزگاری غربت اور غریبوں کو درپیش مشکلات کے نام پر…………
ملک میں غربت کیوں ہے؟ اور اس میں روز بروز کیوں اور کیسے اضافہ ہوتا گیا ہے؟ہر سال خطِ افلاس سے نیچے زندگی گذارنے والوں کی تعداد کس طرح بڑھ رہی ہے؟ ان امور پر متوجہ ہونے کی بجائے اور دولت کے چند ہاتھیوں تک مرتکز یا جمع ہونے کی انسانیت سوز پالیسی ختم کرنے کی بجائے کورونا کی بھیانک وباء کے دوران بھی انسانیت کو موت کے منہ میں جانے سے بچانے کے برعکس اسے موت کے منہ میں دھکیلنے کی کوشش جارہی ہے۔ جزوی لاک ڈاؤن کے کیا معنی مفہوم و مقاصد ہیں؟ یہ ناقابل فہم ہے 15 آ پریل کو مبہم اور جزوی لاک ڈاؤن کے کیا نتائج برآمد ہونگے۔ فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ البتہ ایک پریشان کن اطلاع ہمارے رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے بہت مواد کی حامل ہے کہ آج ہی کوئٹہ میں 34 نئے کیس سامنے آگئے ہیں۔ یہ کہنا مناسب نہیں کہ ایسا آج لاک ڈاؤن میں نرمی سے اچانک رونما ہوا ہے یقینا مرض اور مریض پہلے سے سماج میں موجود رہے ہونگے۔ ممکن ہے ٹیسٹنگ کی وجہ سے مریض معلوم ہوئے ہوں۔ بہر طورستم ظریفی یہ کہ غریبوں کے نام پر لاک ڈاؤن میں نرمی لانے کا کام بھی فلاکت زدہ افراد کی نام نہادخیر خواہی کے نام پہ کیا جارہا ہے۔حالانکہ اس آفت و مصیبت کے دنوں میں ریاست کا فطری فرض تھا کہ وہ اپنے تمام خزانے عوام کی زندگی صحت اور جان بچانے کے لیے کھول دیتی۔ کسے مالی امداد ملنی چاہیے اور کون غیر مستحق بھی مستفید ہو گیا یہ سوال عمومی صورتحال میں اٹھایا جاتا ہے ہنگامی نوعیت میں نہیں۔ فراخدلانہ امداد کی تقسیم کے بعد اور آفت سے بچ نکلنے کے بعد دیکھا جاتا کہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ پیسہ بچایا…… یا انسانی جانیں!!!
بلاشبہ میزانیہ بتاتا کہ وباء کے ہاتھوں انسانوں کو بچا لیا گیا۔ رقومات کو نہیں۔
معیشت بہت اہم سہی لیکن جب انسان اور زر میں انتخاب کا امتحان درپیش ہو تو ہم نے انسانیت کو ترجیح دی ہے…… دینی ہوگی۔
حکومت گومگو کی کیفیت کا شکار ہونے کی بجائے. روز اول سے ہی کورونا کے واحد موثر مقابلے کی حکمت عملی کی جانب اپنا رجحان ظاہر کرتی تولوگوں کی کفالت طبی عملے کی حفاظت اور علاج معالجے کی سہولت کا بندوبست کرتی. پھر ایک ماہ کا بھرپور لاک ڈاؤن کرفیو نمانافذ کرکے وباء پر قابو پا لیتی۔ مگر یوں ہوا تو کیا ہو گا.؟ یوں ہوا تو کیا ہوگا؟؟ والی مبہم سوچ کا نتیجہ ہے کہ نیم دلانہ نیم لاک ڈاؤن لمبے عرصے چلنے کا خدشہ بڑھ رہا ہے اور وباء سے متاثر ہونے کا بھی۔اور زیادہ مالی اصراف کا بوجھ الگ بھی اٹھانے کا۔
حکومت غرباء کو بھوک سے بچانے میں مخلص نہیں۔ بلکہ وہ روایتی پالیسی جاری رکھے ہوئے ان حالات میں بھی سرمایے کی بڑھوتری اور قدر زائد کے حصول کو مسلسل رکھنے کے وباء کے دنوں میں بھی محنت کی قوت سرمایے کی منڈی کو مہیا کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں