باکمال لوگ لاجواب سروس

تحریر: انور ساجدی
جمعہ 3 دسمبر کو پی آئی اے کی لاہور سے کوئٹہ آنے والی پرواز8گھنٹہ تاخیر سے پہنچی اگر مسافر بذریعہ سڑک روانہ ہوتے تو 10گھنٹے میں پہنچ سکتے تھے صرف کوئٹہ ہی کیا تمام شہروں کیلئے پی آئی اے کی اکثر پروازیں تاخیر کا شکار ہیں موجودہ حکومت نے ابتداء میں پی آئی اے کو ٹھیک کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن تباہی اور خرابیاں اتنی نکل آئیں کہ جس طرح حکومت دوسرے کاموں سے بھاگ گئی پی آئی اے کو ٹھیک کرنے سے بھی توبہ کیا۔
انڈیا میں حکومت نے 70 سال کی کوششوں کے بعد جب ناکامی کا منہ دیکھا تو ایئر انڈیا کو دوبارہ ٹاٹا گروپ کے حوالے کر دیا یہ کارپوریٹ سیکٹر کی سب سے بڑی پرائیویٹائزیشن تھی توقع پیدا ہو چلی ہے کہ مسٹر رتن ٹاٹا اس ایئر لائن کو اپنی گاڑیوں رینج اور جگوار کی طرح کامیابی کے ساتھ چلائیں گے جہاں تک پی آئی اے کا تعلق ہے تو کوئی بھی حکومت اسے چلانے کی پوزیشن میں نہیں حکومت کا خزانہ خالی ہے صرف میاں منشاء اور ملک ریاض بحریہ ہی اسے لے سکتے ہیں لیکن وہ گھاٹے کا سودا نہیں کرتے کیونکہ دونوں نودولتیئے سیٹھ سرمایہ خرچ کرنے سے ڈرتے ہیں اگر وہ پی آئی اے کو لے بھی لیتے تو چلا نہ سکتے کیونکہ ملکی معیشت ڈوبی ہوئی ہے غیر ملکی سرمایہ نہیں آ رہا ہے سیاح تو پاکستان کا رخ نہیں کرتے ناکافی سیفٹی اقدامات کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک نے پی آئی اے کی سروس پر پابندی عائد کر رکھی ہے لہذا پی آئی اے اسی طرح بدحالی میں چلتی رہے گی جبکہ تین پرائیویٹ ایئر لائنوں کا بھی برا حال ہے سب کے پاس 25 سال پرانے ناکارہ جہاز ہیں حالانکہ 25سال پرانی لاریاں بھی نہیں چلتیں لیکن ان کا کرایہ اتنا ہے کہ عام آدمی ٹکٹ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا کوئی دو سال قبل شہری ہوا بازی کے وزیر غلام سرور خان نے یہ انکشاف کر کے پی آئی اے کا بیڑہ غرق کیا تھا کہ اس کے آدھے پائلٹ جعلی ہیں یعنی ان کے پاس جعلی ڈگریاں ہیں اس انکشاف پر ساری دنیا میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی کیونکہ یورپ میں تو گاڑی چلانے کا لائسنس مشکل سے ملتا ہے جبکہ پاکستان میں درجنوں لوگ جعلی ڈگریوں پر ہوائی جہاز اڑا رہے تھے غلام سرور خان کے تہلکہ انگیز بیان کا کپتان نے برا نہیں منایا بلکہ ان کی وزارت بھی برقرار رکھی اسی طرح مخالفانہ بیانات کے باوجود پنجاب کے گورنر چوہدری سرور کا لاڈ پیار برداشت کیا جا رہا ہے کوئی دو روز قبل انہوں نے لندن میں کمال کا بیان جاری کیا جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ 6 ارب ڈالر قرضہ کی خاطرپاکستان کا سب کچھ آئی ایم ایف کے حوالے کیا جا چکا ہے حکومت نے آج تک آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی تفصیلات عوام کو دینا تو اپنی جگہ پارلیمنٹ کو بھی آگاہ نہیں کیا لیکن گمان یہی ہے کہ حکومت نے اہم ترین ملکی اثاثے گارنٹی کے طور پر آئی ایم ایف کو لکھ کر دیئے ہیں حالانکہ کوئی ایک اثاثہ کی مالیت بھی 6 ارب ڈالر سے زیادہ ہے لیکن شدید بدانتظامی خسارہ کو کنٹرول کرنے میں ناکامی اشرافیہ کی پرتعیش طرز زندگی جاری رکھنے کی وجہ سے ملک عملی طور پر دیوالیہ ہو گیا ہے اگر مزید قرضے ملنا بند ہو جائیں تو پاکستان ڈیفالٹ کر جائیگا جس ذلت کا اس وقت سامنا ہے اس سے ڈیفالٹ کرنا بہتر ہے لاطینی امریکہ کے کئی ممالک جن میں برازیل، ارجنٹائن اور میکسیکو شامل ہیں ڈیفالٹ کر چکے ہیں جس کے بعد ان کی معاشی صورتحال بہتر ہوئی۔
یہ کہنا جائز نہیں کہ معاشی زبوں حالی کی تمام تر ذمہ داری تحریک انصاف کی حکومت پر عائد ہوتی ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ تمام تر دعوؤں کے باوجود یہ معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑی نہ کر سکی اس حکومت نے تین بار اپنی معاشی ٹیم تبدیل کی لیکن کسی میں یہ صلاحیت نہیں تھی کہ وہ حالات کو سنبھال پاتی خود وزیراعظم کو اکانومی کا زیادہ علم نہیں تھا اس لئے یہ مار کھا گئے اور ن لیگ کی خوش قسمتی ہے کہ اس کی ساری ناکامیوں کو تحریک انصاف نے اپنی جھولی میں ڈال لیا اگر ن لیگ کی حکومت اب تک برقرار ہوتی تو معیشت کا یہی حال ہونا تھا۔
ن لیگ نے انتہائی مہنگے پراجیکٹ بھاری شرح سود پر شروع کئے جن میں کوئلہ سے چلنے والے بجلی کے پلانٹ لاہور اورینج ٹرین اور میٹرو بس کے منصوبے شامل ہیں اسی طرح ہزارہ سے لے کر سکھر تک جو مہنگا ترین موٹروے بنایا گیا وہ بھی واپڈا کی طرح سفید ہاتھی ہے کیونکہ معاشی اعتبار سے یہ کوئی منافع بخش شاہراہ نہیں ہے ن لیگ کے وزیر سی پیک احسن اقبال نے جو منصوبے بنائے وہ اکثر پنجاب میں ہیں حالانکہ جب چین اپنے قرضے کی اقساط واپس لینا شروع کرے گا تو یہ قرضے سارے ملک کو ادا کرنا پڑیں گے احسن اقبال نے سی پیک منصوبے کی شرائط کو بھی خفیہ رکھا ہے لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ آئندہ سال سے چینی قرضے کی اقساط واجب الادا ہو جائیں گی ان کی ادائیگی کیلئے پاکستان کو کئی ارب ڈالر درکار ہوگا اسی طرح آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر اداروں کی اقساط بھی سر پر ہیں جبکہ سعودی عرب نے لکھوا لیا ہے کہ وہ 24گھنٹے کے نوٹس پر اپنی رقم طلب کر سکتا ہے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت آئندہ ہفتہ ایک منی یا مڈٹرم بجٹ آ رہا ہے اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ 360 ارب کے نئے ٹیکس تو لگیں گے لیکن حکومت نے ریئل اسٹیٹ پر بھاری ٹیکس عائد کر کے اس کا بیڑہ غرق کرنے کا پورا بندوبست کیا ہے یہی سیکٹر تھا جس کے ذریعے لاکھوں ڈیلی ویجز مزدوروں کو دیہاڑی مل جاتی تھی اس کے بند ہونے کے بعد یہ لوگ کہاں جائیں گے یقینا ملک میں غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے خود کشیوں میں اضافہ ہو جائیگا۔
ادھر اپوزیشن کا یہ حال ہے کہ وہ ابھی تک شیر آیا شیر آیا کے نعرے لگا رہی ہے لیکن شیر کوسوں دور ہے اس کے بار بار کے اعلانات اور تحریک چلانے سے گریز کے عمل نے سیاسی مبصرین کو مجبور کیا ہے کہ وہ اسے فرینڈلی اپوزیشن کا نام دیں پی ڈی ایم اندر سے شدید اختلافات کا شکار ہے کیونکہ ن لیگ کا سارا زور آڈیو اور ویڈیو لیک کرنے پر ہے اس کا خیال ہے کہ اس کے ذریعہ وہ اپنے خلاف ہونے والی ناانصافیوں کو اجاگر کرکے رائے عامہ اپنے حق میں کرنے میں کامیاب ہو جائے گی لیگی زعما کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر وہ تبدیلی لانے کی کوشش کریں تو یہ بات آ بیل مجھے مار کے مترادف ہوگی کیونکہ موجودہ ابتر معاشی حالات کو کوئی بھی جماعت اور کوئی بھی حکومت ٹھیک کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ن لیگ چاہتی ہے کہ آئندہ ڈیڑھ سال تک یہ حکومت اپنی ناکامیوں کا اعتراف کر کے آئندہ انتخابات میں عوام کے پاس جائے تاکہ وہ عوامی پذیرائی سے محروم ہو جائے۔
پایہ تخت میں عجیب و غریب دیو مالائی صورتحال ہے سب کی نظریں راولپنڈی پر مرکوز ہیں لیکن پتہ نہیں چل رہا ہے کہ ہوا کس طرف سے چلے گی میاں نواز شریف لندن میں براہ راست رابطے میں ہیں نیچے شہباز شریف ہاتھ پیر مار رہے ہیں جبکہ مریم نواز ”ڈراؤ منواؤ،، والی پالیسی پر عمل پیرا ہیں سیاست کا ایسا گنجلک کھیل اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا اس کے نتیجے میں وزیراعظم عمران خان تقریباً محصور ہیں ان کے وزراء من مانی کر رہے ہیں وہ وزیراعظم کوایک تھری ڈی تصویر پیش کر کے اپنا کھیل کھیل رہے ہیں وزیراعظم کوئی بھی کارروائی کرنے سے معذور ہیں جبکہ سرکاری جماعت کے بعض اراکین درپردہ ن لیگ سے مذاکرات میں مصروف ہیں تاکہ آئندہ انتخابات میں انہیں جائے پناہ مل سکے پنجاب کے سیاسی مبصرین نے تحریک انصاف کے چند ایک لوگوں کے پیپلز پارٹی میں جانے کا عندیہ بھی دیا ہے اس ہلچل کی وجہ سے اسلام آباد انتظامی افراتفری کا شکار ہے جبکہ بلوچستان کا اس سے بھی برا حال ہے جام صاحب کو استعفیٰ دیئے زیادہ دیر نہیں گزری ہے کہ یار لوگ قدوس بزنجو کے جانے کی باتیں بھی کرنے لگے ہیں آج تک کسی صوبے میں پولیس افسروں کی اتنی تیزی سے تبدیلی نہیں ہوئی جو بلوچستان میں وزرائے اعلیٰ کی ہو رہی ہے 8 سال کے اندر پانچ مرتبہ وزیراعلیٰ تبدیل ہوئے ہیں یہ آفت زدہ صوبہ بے شمار مسائل کا شکار ہے اوپر سے سیاسی عدم استحکام نے اس کا مزید بیڑہ غرق کر دیا ہے۔
ساحلی علاقوں میں بنیادی حقوق او رشہری آزادیوں کی ایک تحریک جاری ہے لیکن حکومت مسائل حل کرنے کی بجائے طاقت کے استعمال پر غور کرر ہی ہے حالانکہ تحریک کے تمام مطالبات آئینی حدود کے اندر ہیں اس کے باوجود طاقت کا استعمال ہوا تو اس کے نتائج قطعی اچھے نہ نکلیں گے بلکہ شہری آزادیوں کی یہ تحریک بلوچستان کے طول و عرض میں پھیل جائے گی اور حکومت کو لینے کے دینے پڑیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں