حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ
حکومت نے گرفتاریوں کا آغاز کردیا ہے۔عدلیہ نے چھاپوں اور گرفتاریوں کو ماورائے قانون قرار دے کر ایف آئی اے سے وضاحت طلب کر لی ہے۔دوسری جانب حکومت کاکہنا ہے کہ متعلقہ معزز سیشن جج نے انتہائی عجلت میں فیصلہ دے کر اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے،لہٰذا حکومت ان کے خلاف ریفرنس دائر کرے گی تا کہ مجاز اتھارٹی ان کے خلاف کارروائی کرے۔حکومت کا مؤقف ہے کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں، چاہے اس کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو۔اصولی طور پر بات درست ہے،مگر سوال یہ ہے کہ ریفرنس کی سماعت کون کرے؟ جسٹس فائز عیسیٰ قاضی کیس میں 10رکنی بینچ کا تفصیلی فیصلہ اپنی جگہ خود الجھا ہوا ہے اوراسے سمجھنے کے مزید تفصیل درکار ہے۔مسز سرینا قاضی کے مقدمے میں سب سے بڑا ابہام یہ ہے کہ اس کو کس حوالے سے اکثریتی مانا جائے اور کس پہلو سے اقلیتی قرار دیا جائے؟یہ طے کرنا بھی ضروری ہے کہ ریٹائرڈ جج بعد از ریٹائرمنٹ (9ماہ بعد)بطور جج دستخط کرنے کا مجاز ہے؟جبکہ یہی جج اسی مقدمے میں بحیثیت رکن بینچ پہلے ہی ایک فیصلہ دے چکاہو، اور اپنے پہلے فیصلے کو خود ہی مسترد کر دے۔علاوہ ازیں بینچ کا فیصلہ مدعاعلیہ کی درخواست پرجج کی ریٹائرمنٹ سے پہلے سنایا گیا ہو۔واضح رہے کہ متنازعہ فیصلہ موجودہ چیف جسٹس کے تفصیلی فیصلے کے بعد متعدد قانونی اور آئینی وضاحتوں کا متقاضی ہے۔جبکہ ایک سے زائدماہرین قانون اس فیصلے پر پہلے ہی حیرانگی کا اظہار کر چکے ہیں۔توقع ہے کہ جلد ہی عدالت عظمیٰ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے گی تاکہ ابہام دور ہو سکے۔نیز اس کہاوت کا جائزہ لینے بھی ضرورت ہے:
Justice hurried is Justice burried.
Justice delayed is Justice benied.
سوال یہ ہے کہ Justice hurriedسے کیا مراد ہے اورJustice delayed کی مدت کب شروع ہوتی ہے؟اس لئے کہ جو سائل یا وکیل بوجوہ سماعت میں تاخیر چاہتا وہ معزز عدالت کو یاد دلاتا ہے:Justice hurried is Justice burried. ،جبکہ سماعت جاری رکھنے کا متمنی وکیل/سائل اسی عدلت کے روبرومعروف کہاوت کا دوسرا حصہ پیش کرتا ہے۔معزز عدلیہ طے کردے کہ انصاف میں تاخیر کا آغاز کب ہوگا؟حکومت کی جانب سے متعدد قانونی ترامیم پارلیمنٹ میں منظوری کے لئے پیش کر دی ہیں،ان پر ایوان بالا میں متعلقہ کمیٹی جائزہ لے رہی ہے۔ لیکن 700کے لگ بھگ ترامیم کی منظوری میں وقت درکار ہوگا۔موجودہ حکومت کے پاس صرف ڈیڑھ سال بچا ہے، اس میں بھی اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ تحریک عدم اعتماد لا رہی ہے۔حکومت بھی جوڑ توڑ کے فلسفے سے واقف ہے، ایک سے زائد مواقع پر مقابلہ کر چکی ہے۔عام آدمی کی آسانی کے لئے ضروری ہے قانون میں کسی قسم کا ابہام نہ ہو،معزز عدلیہ کی مناسب رہنمائی سے مقننہ کو بھی اپنا کام تیزی سے نمٹانے میں مدد ملے گی۔بکثرت استعمال ہونے والی قانونی اصطلاحوں میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیئے۔ معزز عدلیہ کی رہنمائی کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ فریقین کے وکلاء اس اصطلاحوں کو من مانے معانی نہیں پہناسکیں گے۔عام آدمی گزشتہ 75سال سےJustice delayed کے عذاب میں مبتلا ہے۔سخت اذیت کا شکار ہے۔ اب تو وزیر اعظم بھی کہہ رہے ہیں کہ عمارے عدالتی نظام اور دیگر قانونی پیچیدگیوں کے باعث غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان آتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔صنعت لگانے کے لئے 37اداروں سے این او سی لاناپڑتے ہیں، اور ہر جگہ بقول وزیر اعظم کلرک بادشاہ پہیئے لگانے کا تقاضہ کرتے ہیں۔ تازہ ترین تنازعہ مذکورہ بالا جج کے خلاف ریفرنس دائر کئے جانے کی شکل میں سامنے آیا ہے۔اگر قانونی اصطلاحوں کی مطلوب وضاحت ہو چکی ہوتی تو ہر جج کے علم میں ہوتا کہJustice hurried اورJustice delayedمیں کیا فرق ہے؟اس امر میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ قانونی اصطلاحات میں ابہام دور ہونے کے نتیجے میں عدلیہ پر مقدمات کا بوجھ بھی کم ہوجائے گا۔کسی جائز قانونی جواز کے بغیرہر ایرا غیر عدالت نہیں جا سکے گا۔حکومت کی جانبسے جس ریفرنس کا عندیہ ظاہر کیا جا رہا ہے وہ بھی مذکورہ بالادو قانونی اصطلاحوں میں پائے جانے والے دیرینہ ابہام کی بناء پر دائر کیا جائے گا۔اس ابہام کو دور کر دیا جاتا تو صورت حال یقینا مختلف ہوتی۔ ایک بار پھرمحسوس ہونے لگا ہے کہ اپوزیشن کو نکیل ڈالنے کے لئے حکومت کچھ بھی کرنے پر تل گئی ہے۔حکومت کو بھی قانون کے دائرے میں رہ کا اقدامات کرنے چاہئیں۔حکومت کو معزز جج کے خلاف کوئی شکایت ہے تو اسے دور کرنے کے لئے کوئی ماورائے قانون قدم نہ اٹھایا جائے، اس طرح مسائل کاایک نیا پینڈورہ بکس کھل جائے گا۔ اگر کوسی صحافی نے کسی قانون کی خلاف ورزی کی ہے، تو بغیر وارنٹ،دیواریں پھلانگ کر سادہ لباس والے رات گئے کارروائی کے لئے نہ بھیجے جائیں۔عوام نے جو کچھ میڈیاپر دیکھا،اس سے حکومت کی عزت افزائی نہیں ہوئی۔قانون شکنی کا خاتمہ قانون کی مدد کیا جائے تو قانون کو فتح نصیب ہوتی ہے، مگر ریاست ادارے بھی قانون کو پامال کرتے پائے جائیں تو معاشرے کو یہی پیغام ملتا ہے کہ حکومت نے اچھا کام برے انداز میں کیا ہے۔اب دو برائیوں میں سے کسی کو اچھا نہیں کہا جائے گا۔ دونوں جانب سے قانون کا احترام نہیں کیا گیا۔دونوں جانب سے قوت کا استعمال ہوا۔چونکہ معاملہ وقوع پذیر ہوتے ہی عدالت تک پہنچ گیاہے اس لئے فریقین کو شواہد ختم یا مسخ کرنے کی مہلت نہیں ملی۔سب کچھ آناً فاناً ہوا،۔اگر ادارے بھی کسی مناسب منصوبہ بندی اور قانونی تقاضے پورے کئے بغیر ہی کسی شہری کے گھر پر ہلا بول دیں تو عدالت سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ قانونی تقاضوں کی تکمیل کا سوال نہ اٹھائے۔ مبصرین اس معاشرتی بگاڑ کو دور کرنے کا ایک ہی طریقہ تجویز کرتے ہیں کہ عدلیہ مبہم قانونی اصطلاحوں کو واضح الفاظ اور انداز میں ڈیفائن کرنے کی مقننہ کو ہدایت جاری کرے۔مبہم اور غیر واضح قانونی اصطلاحوں کی مدد سے بری طرح بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح ممکن نہیں۔معاشی خرابی کے پیچھے بھی مبہم قانو نی اصطلاحات کا کردار دکھائی دیتا ہے۔پوری سنجیدگی، اور عزم کے ساتھ یہ کام نہ کیا گیا تو یہی مناظر باربار نظر آئیں گے۔ فریقین سائل کی حیثیت سے عدالت میں کھڑے ہیں،عدالتی فیصلہ ابہام کو دور کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔


