مسلم لیگ نون کی قیادت لندن طلب

اگلے روزمسلم لیگ نون کی پاکستان میں موجودقیادت(وزیر اعظم شہباز شریف اور کابینہ کے متعدد اراکین) کوتاحیات قائد نواز شریف نے اچانک مشاورت کے لئے لندن طلب کر لیاہے،جبکہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار اورسابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پہلے ہی لندن میں موجود تھے۔ایک ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ بجٹ کی تیاری کے حوالے سے مشاورت درکار ہو،اس لئے کہ پاکستان کی معاشی صورت حال ان دیکھی مشکلات کا شکار ہے،سعودی عرب اور یو اے ای سے جو امیدیں وابستہ تھیں وہ بھی بوجوہ پوری نہیں ہو سکیں،علاوہ ازیں یہ اطلاعات بھی میڈیا کے ذریعے عام آدمی تک پہنچ رہی ہیں کہ سعودی عرب نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع کرائے گئے وہ 3ارب ڈالر بھی واپس مانگ لئے ہیں جو پاکستان خرچ کرنے کا مجاز نہیں تھا،یہ رقم زرمبادلہ ذخائر مناسب سطح تک ظاہر کرنے کے لئے سود پرسابق حکومت نے حاصل کی تھی۔ادھر آئی ایم ایف کی ٹیم نے پاکستان کامجوزہ 10مئی والا دورہ کوئی وجہ بتائے بغیر منسوخ کردیا ہے اور آئندہ میٹنگ دوحہ میں منعقد ہونے کی اطلاع بھی دے دی ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف بجٹ سازی سے پہلے پیٹرول اورڈیزل پر دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے پر بضد ہے جسے شہباز شریف کی حکومت مصلحتاً دو بار ملتوی کر چکی ہے۔ان حالات میں ملک میں مختلف قیاس آرائیوں کا آغاز فطری امر ہے۔ سر فہرست قیاس آرائی یہ ہے کہ حکومت قبل از وقت انتخابات کے بارے مشاورت کررہی ہے۔مگر حکومت کی جانب سے کچھ نہیں کہا جا رہا، مکمل خاموشی ہے،حتیٰ کہ افواہوں کی تردید یا تصدیق بھی نہیں کی جارہی۔جبکہ لندن میں منعقدہ اہم اجلاس کی تفصیلات میڈیا سے شیئر نہ کرنا بھی معنی خیز ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف سمیت کابینہ کے اہم اراکین کی لندن طلبی بے سبب نہیں۔دوسری جانب پاکستان میں پی ٹی آئی کی احتجاجی مہم حسب اعلان جاری ہے۔پنجاب میں حکومت سازی کا معاملہ دن بدن پیچیدہ تر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجربینچ نے منحرف اراکین کے حوالے سے بھیجے گئے صدارتی ریفرنس پرسماعت روزانہ کی بنیادوں پرجاری رکھی ہوئی ہے۔معزز بینچ کی جانب سے ازخود نوٹس لینے کا پس منظر یہ بتایاگیا ہے کہ سپریم کورٹ کے 12ججزپر مشتمل ایک بینچ نے ملکی سیاسی اور معاشی صورت حال پر غور کرنے کے بعد ازخود نوٹس کی متفقہ تجویز یا سفارش کی تھی اور کہا تھا منحرف اراکین کے حوالے سے آئینی تشریح از حدضروری ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک انتہائی پیچیدہ مسائل میں الجھ گیا ہے۔سیاستدان منحرف اراکین کے بارے آئین کی متفقہ اور قابل عمل تشریح کرنے میں ناکام ہیں،اگر سپریم کورٹ نے آئینی تشریح دینے میں تاخیر کی تو معاملات کے بگڑنے اوربے قابو ہونے کا اندیشہ ہے۔سری لنکا میں ہنگامہ آرائی کی مثال سب کے سامنے ہے۔اس کے ساتھ ہی واشنگٹن سے ارسال کردہ سفارتی مراسلے کو وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی دھمکی آمیزاور غیر ملکی مداخلت کے مترادف ہونا قومی اسمبلی کے فلور پر تسلیم کر لیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے کئے گئے اعتراف نے بادیئ النظر میں پی ٹی آئی کی احتجاجی مہم کو تقویت فراہم کی ہے۔سیاسی مبصرین بھی ایک ماہ کی حکومتی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کررہے ہیں۔بعض مبصرین کاخیال ہے کہ 14جماعتی اتحاد میں شامل ہر جماعت معقول حصہ طلب کر رہی ہے۔ صدارت کے معاملے پر جے یو آئی اور پی پی پی کے درمیان رسہ کشی جاری ہے۔جبکہ موجودہ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی مستعفی ہونے کو تیار نہیں۔ انہیں فوری طور پر ہٹانے کے لئے قومی اسمبلی کے دو تہائی اراکین کا متفق ہونا ضروری ہے۔موجودہ ایوان میں متحدہ حکومت کے پاس فی الحال دو تہائی اکثریت نہیں۔منحرف اراکین کے بارے میں سپریم کورٹ کا 5رکنی لارجر بینچ ایک دیرپا تشریح تک پہنچنے کا عندیہ دے رہاہے۔یہ تشریح حکومتی اتحاد اور عدم اعتماد کے نتائج کو بلڈوز کرسکتی ہے۔پورا سیاسی منظر یکسر تبدیل ہونے کے امکانات موجود ہیں، ان سے چشم پوشی ممکن نہیں۔مدسلم لیگ نون کی قیادت نے ماضی میں ایسی پیچیدہ صورت حال کا سامناکبھی نہیں کیا۔اراکین کی اتنی قلیل تعداد کے ساتھ چلنے کا اسے کوئی تجربہ نہیں۔نہ ہی اسے دوست ممالک(بالخصو ص سعودی عرب اور یو اے ای) کی جانب سے ایسے روکھے جواب کی توقع تھی۔روس اور یوکرین کی جنگ نے جو معاشی اور سیاسی مسائل پیدا کئے ہیں،یوں محسوس ہوتا ہے مسلم لیگ نون کی قیادت نے انہیں سرے سے کوئی اہمیت نہیں دی۔ 1990کی دہائی جیسے سہل حالات سمجھ کر ڈیڑھ سال کی مختصر مدت کے لئے بھی اقتدار سنبھال لیا۔ لیگی قیادت کے لئے سب سے بڑی مشکل عوام کے حیران کن رویئے سے پیدا ہوئی، 10اور11 اپریل کی درمیانی شب ملک بھر میں جو مناظر دیکھے گئے حد درجہ غیر متوقع تھے۔ واشنگٹن سے بھیجے گئے سفارتی مراسلے کو جس طرح اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے ملک کا بنیادی مسئلہ بناکر پیش کیا اسے عوام میں زبردست پذیرائی ملی۔ لوگوں کوپی پی پی کے بانی چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک اور عبرت کا نمونہ بنائے جانے کی امریکی دھمکی میں مماثلت اور یکسانیت محسوس ہوئی،اور وہ دوسرے پاکستانی وزیر اعظم کو امریکی تکبر اور رعونت سے بچانے کے لئے رمضان اور گرمی کے باوجود گھروں سے نکل آئے۔پاکستانی اورامریکی پالیسی سازوں کو ایسے عوامی رد عمل کی قطعاً کوئی توقع نہیں تھی۔دونوں ملکوں کی مقتدرہ2022کو بھی 1977جیساپچاس برس قبل والازمانہ سمجھ بیٹھی تھی۔دونوں کو اگست2021والا کابل سے امریکی انخلاء یاد نہیں رہا۔دونوں ملکوں کے پالیسی سازوں میں قدرِ مشترک عمران خان کی فروری 2022 کے تیسرے ہفتے میں ماسکو روانگی اور روسی صدر ولادی میر پوٹن کے ساتھ ہونے والی 3گھنٹے دورانیہ کی ون آن ون ملاقات پر شدید ناراضگی تھی۔واضح رہے غصہ غالب آجائے تو انسان عواقب سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ایسی ہی ہیجانی کیفیت میں نتائج کی پرواہ کئے بغیرامریکی مقتدرہ نے اپنے انڈر سیکرٹری ڈونلڈ لو کے ذریعے پاکستان سفیراسد مجید کو نازیبا اور توہین آمیزڈکٹیشن دی۔اور جیسا کہ دنیا دیکھ رہی ہے یہ ڈکٹیشن امریکی مقتدرہ اور مسلم لیگ نون کی قیادت میں بننے والی14جماعتی متحدہ حکومت کے گلے میں چھچھوندر کی طرح اٹکی ہوئی ہے، جسے نگلا اور اُگلانہیں جا سکتا ہے۔دونوں مشکل میں ہیں،دونوں کوشش کر رہے ہیں کہ اس مشکل سے نجات کی کوئی ایسی راہ نکالیں جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔لندن اجلاس اسی سمت بڑھایا جانے والا قدم دکھائی دیتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں