آگ کا دریا

تحریر: انورساجدی
ایک پرانا ڈائیلاگ ہے کہ
بچہ جب تک آگ سے جلتا نہیں
اسے کھلونا سمجھتا ہے
یہی صورتحال ن لیگ اور حکومت میں شامل اس کے اتحادیوں کو درپیش ہے تبدیلی سے وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کو یہ فائدہ ہوا ہے کہ ان کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس ملفوف ہوکر دب گیا ہے باقی تو موجودہ حالات میں حکومت لینا ایک جواء تھا جس میں ہار یقینی ہے یہی وجہ ہے کہ ن لیگ گھبرا گئی ہے اس کے ہاتھ پیر پھولے ہوئے ہیں اس کا اتحادی سربراہان سے مطالبہ ہے کہ تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو یا مہنگائی کے طوفان اس کی ذمہ داری سب کو لینا پڑے گی اگر اتحادی کنی کتراگئے تو اس کااثر آئندہ انتخابات میں اس جماعت کی کارکردگی پر پڑے گی کیونکہ دونوں بری جماعتوں کا ووٹروں سے مطالبہ ہے کہ انہیں دو تہائی اکثریت چاہئے ورنہ سادہ اکثریت بے کار ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے واضع طور پر کہا ہے کہ ہم اکیلے یہ بوجھ نہیں اٹھاسکتے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ حکومت کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے۔
غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر خدشہ ہے کہ روپیہ کے مقابلے میں ڈالر کی قدر 2 سو روپے سے بھی آگے بڑھ جائیگی یعنی معاشی سیاسی اور آئینی بحران بڑھتا جارہا ہے چاروں صوبوں میں گورنر نہیں ہیں پنجاب میں کابینہ نہیں ہے صدر عارف علوی پی ٹی آئی کے کارکن کا کردار ادا کررہے ہیں انہوں نے اپنے آپ کو صحیح ”عمرانڈو“ ثابت کردیا ہے وہ ملک کے بحرانوں کو بڑھاوا دے رہے ہیں گویا انہیں بھی پی ٹی آئی اور ان کے مفادات کی فکر ہے ریاست کی نہیں۔
سنا ہے کہ ن لیگ نے صورتحال کے بارے میں حتمی فیصلہ کرلیا ہے جس کا اعلان جلد متوقع ہے اتحادیوں سے ملاقات کے بعد وزیراعظم قوم سے خطاب میں اس فیصلہ کا اعلان کریں گے فیصلہ کیا ہے یہ ابھی کوئی نہیں جانتا لیکن آثار بتارہے ہیں کہ ن لیگ الیکشن کی طرف جانا چاہتی ہے وہ اتحادیوں کو ان کے حال پر چھوڑنا چاہتی ہے ایسا کرکے ن لیگ زمینی حقائق کو نظرانداز کررہی ہے اگر عمران خان نامی بلا کا بندوبست نہیں کیا گیا تو ن لیگ کو سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا اگر تحریک انصاف پنجاب کی آدھی نشستیں جیت گئی تو وہ ن لیگ سے بڑی جماعت بن جائے گی کیونکہ ن لیگ خیبرپختونخواء، سندھ اور بلوچستان سے جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ان صوبوں میں تحریک انصاف کی پوزیشن بہتر ہے شہباز شریف کو اس بات پر گھبراہٹ ہے کہ سعودی عرب نے ابھی تک کوئی امداد جاری نہیں کی ہے جبکہ متحدہ عرب امارات اپنے صدر کی وفات کی وجہ سے خودمسائل کا شکار ہے اس لئے وہاں سے بھی کوئی خاص امید نہیں ہے جبکہ آئی ایم ایف سے حکومت کی بات چیت مکمل نہیں ہے لہٰذا وہاں سے قرض ملنے میں بھی تاخیر کا امکان ہے زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہونے کے قریب ہیں اگر ملک کو اس صورتحال سے نہیں نکالا گیا تو وہی حالات پیدا ہوجائیں گے جو سری لنکا میں ہیں اس صورتحال کے باوجود نیوٹرل بدستور نیوٹرل ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اطمینان ہے کہ ان کے پاس کوئی مؤثر فارمولہ موجود ہے اس وقت حکومت بھی ادھر ہی رحم طلب نظروں سے دیکھ رہی ہے اور دستگیری کی طلب گار ہے اسی طرح عمران خان چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں کہ مجھے دوبارہ لایا جائے یعنی دونوں فریق ایک ہی جانب دیکھ رہے ہیں اور وہاں سے ہمدردی اور التفات کیلئے پر امید ہیں لائل پور میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے اس خدشہ کو دہرایا کہ اندرونی و بیرونی دشمن مل کر ان کی جانب لینے کی کوشش کررہے ہیں وہ لوگوں کے سامنے فریاد کررہے تھے دہائی دے رہے تھے کہ ان کی جانب کی حفاظت کی جائے۔
اس بیان سے ایک چیز ظاہر ہوتی ہے کہ
یہ ڈکٹیٹروں کی نشانی ہے کہ وہ
مخالفین کے لئے شیر ہیں
اپنے لئے ڈھیر ہیں
عدم اعتماد کی تحریک کے بعد عمران خان نے پارٹی کارکنوں سے کہا تھا کہ وہ لوٹے اراکین کے گھروں کا گھیراؤ کریں ان کا ناطقہ بند کریں اور زندگی اجیرن کردیں اس حکم کے بعد چار روز قبل پشاور میں پی ٹی آئی کے جتھے نے منحرف ایم این اے نور عالم خان کے گھر پر ہلہ بول دیا یعنی آپ ایک طرف دوسروں پر حملوں کا حکم دے رہے ہیں دوسری طرف رونا رو رہے ہیں کہ میری زندگی کو خطرہ لاحق ہے کوئی اسے نہیں سمجھتاتا کہ جان سب کو پیاری ہوتی ہے چاہے آپ کی ہو یا کسی اور کی ہو۔
عمران خان نے لائل پور میں زہر کا ذکر کرکے گویا خدشہ ظاہر کردیا کہ زہر کے ذریعے ان کی جان لی جاسکتی ہے اس خدشہ کا جواب دیتے ہوئے مریم نواز نے کہا ہے اگر زہر والا معاملہ ہوا تو وہ آپ کے گھرسے ہوگا۔
بہرحال اس وقت جو صورتحال ہے اس سے عام آدمی حیران اور پریشان ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے یہ لوگ اپنی ریاست کے ساتھ کیا کرنا چاہ رہے ہیں کیا یہ مشرقی پاکستان کی تاریخ دہرا رہے ہیں خاص طور پر معزولی کے بعد عمران ہر جگہ گھوم پھر کر کہہ رہے ہیں کہ مجھے نکالے جانے سے بہتر تھا کہ پاکستان پر ایٹم بم گرادیا جاتا۔
ایٹم بم سے یاد آیا کہ ایک ریٹائرڈ جنرل جوکہ یوتھیا بن چکے ہیں ان کا خیال ہے کہ پاکستان جب زبردست معاشی بحران میں پھنس جائے گا تو بڑی طاقتیں مطالبہ کریں گی کہ اپنے ایٹمی ہتھیار ہمارے حوالے کردو تب آپ کو امداد ملے گی عمرانڈو یہ ماننے سے انکاری ہے کہ ریاست کو عمران خان نے جان لڑا کر پونے چار سال میں دیوالیہ کردیا تھا لہٰذا یہ الزام لگانا احمقانہ ہے کہ موجودہ حکومت نے چار ہفتوں کے اندر ملک کو دیوالیہ کردیا ہے اگر عمران خان زبردست حکمران تھے تو چار سال کے عرصہ میں معیشت کو ٹھیک کردیتے امریکی بلاک سے نکلنے کے بعد روس سے معاہدہ کرتے اور چین کو ناراض نہ کرتے انہیں فوجی اسلحہ اور سازوسامان بھی روس سے لینا چاہئے تھا تاکہ امریکہ پر انحصار ختم ہوجاتا اگرچہ عمران خان جیسے انا پرست شخص اپنی کسی ناکامی کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں لیکن سب مانتے ہیں کہ انہوں نے ملک کو اس بدترین حال میں پہنچایا ہے اس کے باوجود اوپر کی سطح پر ان کی حمایت موجود ہے اسی لئے شہبا زشریف کو کھائی میں دھکیلنے کے باوجود ان کی تھپکی سے گریز کیا جارہا ہے وجہ یہ ہے کہ عمران خان نے ہر چیز کو ہر ادارے او ہر فورم کو تقسیم کردیا ہے اس تقسیم کا نتیجہ آئندہ ایک دو سال میں نکلے گا۔
ایک طرف تو نام نہاد اشرافیہ کے درمیان اقتدار کی جنگ عروج پر ہے دوسری جانب بلوچستان کے لوگ بھوک اور گندے پانی سے مررہے ہیں اگر اسلام آباد، لاہور اور فیصل آباد کے باسی اس صورتحال سے دوچار ہوتے تو اشرافیہ کا رویہ کیا ہوتا بلوچستان کے بیشتر اضلاع خشک سالی اور بدترین قحط کا شکار ہیں نہ ان کے پاس غذا ہے نہ اسپتال اور ادویات ہیں کسی کو ان لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے ضلع ڈیرہ بگٹی میں ہیضہ کی وبا پھیلتی جارہی ہے جبکہ اس سے متصل ضلع کوہلو میں بھی حالات اچھے نہیں ہیں اس بھوک بیماری اور افلاس کے علاوہ لوگوں کی تذلیل کا سلسلہ جاری ہے یہاں پر زندگی کو جرم بنادیا گیا ہے اور باور کرایا گیا ہے کہ یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ زندہ کیسے رہا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں