پی اے سی، سینیٹ ہال سے بر آمد خفیہ کیمروں کے معاملے کی تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے تاحال فائنڈنگزنہ دینے کا انکشاف

اسلام آباد(انتخاب نیوز) پارلیمنٹ کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی میں انکشاف ہوا ہے کہ سینیٹ ہال سے بر آمد ہونے والے خفیہ کیمروں کے معاملے کی تحقیقات کے لئے بنائی گئی کمیٹی نے تاحال کوئی فائنڈنگزنہیں دیں، کمیٹی نے آڈٹ حکام کو سینیٹ اور قومی اسمبلی کا ایک سال کا فرانزک آڈٹ کرانے کی ہدایت کردی جبکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سیکرٹریٹس کے ناموں سے منسوب ایمپلائز کوآپرٹیو ہاﺅسنگ سوسائٹیز سے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے نام ہٹانے کی ہدایت کردی، کمیٹی نے پارلیمنٹ ہاﺅس میں چیئرمین سینیٹ کے چیمبر کے سامنے لگائی گئی شیشے کی دیواریں بھی ہٹانے کے احکامات جاری کردیئے۔بدھ کو پارلیمنٹ کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی نور عالم خان کی صدارت میں ہوا ، اجلاس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے متعلق گرانٹس کا جائزہ لیا گیا ، نور عالم خان نے چیئرمین سینیٹ کے چیمبر کے سامنے کوریڈور میں شیشے کی دیواریں لگانے کے معاملے پر بات کرتے ہوئے سیکرٹری سینیٹ سے کہا کہ اگر کوئی غلط کام ہو رہا ہوتا ہے تو اس سے متعلق ہم پوچھ سکتے ہیں، آپ نے جس طریقے سے جواب دیا ہے آپ نے پی اے سی کی بے عزتی کی ہے، پی اے سی کے سابقہ چیئرمین نے ہدایت دی تھی کہ کوریڈور کو بلاک نہ کیاجائے، کوریڈور کے دروازے تو کھول دیئے لیکن رائٹ سائیڈ بند ہے، سی ڈی اے کو روکا گیاہے، پی اے سی کی ہدایت کو آپ نہیں روک سکتے، وہ سینیٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں ہے ، کمیٹی کی جانب سے ہدایت دی گئی تھی کہ کوریڈور کھولا جائے آپ نے کیوں روکا ؟، کون سے قانون کے تحت کوریڈور بند کیا۔ رکن کمیٹی سینیٹرسلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اس پر ہم سینیٹرز کو بھی اعتراض ہے، ہم نے یہ اعتراض اٹھایا ہے، یہ طاقت کے ذریعے کیا گیا ہے، یہ ہٹانا چاہئے۔نور عالم خان نے کہا کہ کوریڈورز کو آپ نہیں بند کر سکتے،آپ کے دفاتر میں ہم نے مداخلت نہیں کرنی، اگر ہم قانون پر نہیں چلیں گے تو دنیا مذاق اڑائے گی، کوریڈور میں شیشہ نہیں ہونا چاہیے، جو پلان بلڈنگ کا ہے وہ بحال ہونا چاہئے، کوئی قانون ہے کوریڈور بند کرنے کا؟۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ یہ چیئرمین کی ہدایت پر ہوا ہے، میں اس وقت ڈپٹی چیئرمین تھا، ہم نے کہا تھا یہ غلط ہے، سیکرٹری کا اس میں کوئی کردار نہیں۔نور عالم خان نے کہا کہ جو خط مجھے ملا اس پر مجھے بہت زیادہ افسوس ہوا۔ یہ خط لکھا کس نے ہے ، ہم چیئرمین سینیٹ کو بلائیں؟ اسپیکر یا چیئرمین غلط کام کر رہا ہو تو ہم اس کو روک سکتے ہیں،کوریڈور کھولے جائیں،جس کسی نے روکنے کی کوشش کی تو اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے۔رکن کمیٹی شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کا الیکشن ہوا تھا جس میں کیمرے لگائے گئے تھے، ان لوگوں نے کمیٹی بنائی تھی، ان کیمروں کا آج تک پتہ نہیںچلاجس پرسیکرٹری سینیٹ نے کہا کہ کمیٹی نے ابھی تک کوئی فائنڈنگز نہیں دیں۔نورعالم خان نے کہا کہ بغیر کسی منظوری اور نقشے کے کوریڈور میں تبدیلیاں لائی گئیں ہیں، یہ قانون کی خلاف ورزی ہے، آڈیٹر جنرل اس معاملے کو چیک کریں اس پر آڈٹ پیرا تو بنتا ہے، کمیٹی نے پارلیمنٹ ہاﺅس کی بلڈنگ کو اصل حالت میں بحال کرنے کی سفارش کردی جبکہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کا ایک سال کا فارنزک آڈٹ کرنے کی بھی ہدایت کردی ، کمیٹی نے سرکاری ملازمین کو ایک سے زیادہ اعزازیئے نہ دینے کی بھی سفارش کی ، نورعالم خان نے سیکرٹری قومی اسمبلی سے کہا کہ گزشتہ حکومت کے آخری دنوں میں ہونے والی بھرتیوں اور پروموشن کا آپ نے نہیں بتایا ،آپ سے جب تفصیلات مانگیں تو آپ کو چاہئے تھا کہ بھجوا دیتے، رکن کمیٹی نزہت پٹھان نے کہا کہ ابھی تو جس بندے کو ہاتھ لگاتے ہیں وہ صوابی نکلتا ہے۔ اجلاس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ سیکرٹریٹس کے ناموں سے منسوب ایمپلائز کوآپرٹیو ہاﺅسنگ سوسائٹیز کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا قومی اسمبلی اور سینیٹ کا نام کوئی ملازم استعمال نہیں کرسکتا، ان سوسائٹیز سے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے نام واپس لئے جائیں، قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، کمیٹی نے جعلی کاغذات پر نوکریاں بیچنے والوں کے خلاف کاروائی کرنے کی بھی ہدایت کر دی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں