سیلابی صورتحال کا تقاضہ ہے الیکشن کو مزید آگے بڑھا دیا جائے، بلاول بھٹو

کراچی :وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے ایک تہائی پاکستان سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے، اس صورتحال کا تقاضہ ہے کہ الیکشن کو مزید آگے کیا جائے،سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ پاز کا بٹن دبا دیں، ہمیں سیلاب متاثرین کی مدد کرنی ہے،یہ نہیں ہو سکتا کہ 2 پاکستان ہوں، یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک پاکستان میں سیاسی گیم ہوتا رہے، ایک ملک ہے تو مل کر مقابلہ کرنا پڑے گا،امیر ممالک نے امیر بننے کے لیے پاکستان پر بوجھ ڈالا جو موسمیاتی تبدیلیاں لے آئے، دنیا کے سامنے سیلاب متاثرین کا مقدمہ پیش کیا ہے،ہم بھیک نہیں انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں، اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل جنرل اسمبلی سے پہلے ہی پاکستان پہنچے، پیرا میڈک اسٹاف خود بھی متاثر ہے ، کراچی میں تاریخی بارشیں ہوئیں، انفرااسٹرکچر کو نقصان نظر آ رہا ہے، یہاں بارش سے نقصان 30 ارب ڈالرز کے نقصان میں شامل نہیں، خان صاحب کے دور میں دوست ممالک سے تعلقات کو نقصان پہنچا تاہم اب حالات بہتر ہو رہے ہیں اور جوممالک ہاتھ ملانے کو اور فون کالز کرنے کو تیارنہیں تھے اب وہ بھی تیار ہیں۔جمعرات کو پی پی پی چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں وزیراعلی سندھ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم سیلاب کی آفت سے گزر رہے ہیں، سندھ کے علاقوں سے 50 فیصد سیلابی پانی نکالا جاچکا ہے تاہم ابھی تک بلوچستان کے پہاڑوں سے پانی سندھ میں داخل ہو رہا ہے، سڑکوں کے دونوں طرف سمندر کا سا سماں ہے، یہ سیلاب دریا سے نہیں بلکہ آسمان سے نیچے آیا ہے، قیامت سے پہلے قیامت کا منظر ہے، سیاست کیلیے بہت وقت ہے اسوقت قدرتی آفت پر کام کرنے دیں، یہ وقت الیکشن کے بارے میں سوچنے کا نہیں، صورتحال کا تقاضہ ہے کہ الیکشن کو مزید آگے کیا جائے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ کورونا میں معیشت پر جو فرق پڑا اس سے زیادہ سیلاب کی وجہ سے پڑا ہے، ملک میں 33 ملین لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے، 4 ملین ایکڑ زرعی زمین تباہ ہوگئی، اندازے کے مطابق سیلاب کے باعث 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، متاثرین میں بیماریاں پھیل رہی ہیں، اب تک 3.8 ملین شہریوں کو طبی امداد دی ہے مزید ضرورت ہے، متاثرین کی تعداد اور مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ جتنا کریں کم ہے، میں ہر ملک سے رابطہ کر رہا ہوں اور بہت مدد بھی مل رہی ہے۔انہوںنے کہا کہ کراچی کے علاوہ پورا صوبہ سیلاب سے متاثر ہے، دوسرے صوبے میں شاید کم متاثرین ہیں تو وہ سمجھتے ہیں مسئلہ ختم ہوگیا، لیکن سندھ میں ابھی تک 50 فیصد رقبے پر پانی کھڑا ہے، سندھ میں جب تک مکمل پانی نہیں نکل جاتا تب تک اصل تباہی اور نقصانات کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے، ہم اس قدرتی آفت کو اس انداز میں لینا چاہیے کہ جس نوعیت کی یہ تباہی ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ دو پاکستان ہوں، یہ نہیں ہوسکتا کہ جو صوبہ ڈوبا ہوا ہے وہ ڈوبا رہے اور باقی میں جلسے جلوس ہوتے رہیں، ایک تہائی پاکستان ڈوبا ہوا ہے، حیران ہوں اسلام آباد کی طرف جائیں تو وہ الگ ہی ملک لگتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں برطانیہ جتنی زمین کا حصہ زیرِ آب ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ 2 پاکستان ہوں، یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک پاکستان میں سیاسی گیم ہوتا رہے، ایک ملک ہے تو مل کر مقابلہ کرنا پڑے گا، کراچی میں تاریخی بارشیں ہوئیں، انفرااسٹرکچر کو نقصان نظر آ رہا ہے، یہاں بارش سے نقصان 30 ارب ڈالرز کے نقصان میں شامل نہیں۔وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ہم بھیک نہیں انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں، اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل جنرل اسمبلی سے پہلے ہی پاکستان پہنچے، پیرا میڈک اسٹاف خود بھی متاثر ہے، یہ لوگ پھر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں، معاشی اور زرعی مسائل درپیش ہیں، جہاں پانی نکلا ہے وہاں ہوئے نقصانات کی تفصیلات جمع کر رہے ہیں۔انہوںنے کہا کہ خیبر پختون خوا اور پنجاب کا پانی اب بھی گزرنا ہے، ہم نے قومی سانحات کا مل کر مقابلہ کیا ہے، الیکشن ہوتے رہیں گے، سیاست ہوتی رہے گی، نومبر کے آخر تک اس پوزیشن پر ہوں گے کہ فصل لگ سکے، موسمی تبدیلی کے مطابق انفرااسٹرکچر بہتر کرنا ہو گا تاکہ ایسی صورتِ حال سے نمٹ سکیں۔بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم وزیراعظم کے شکر گزار ہیں اور ان کے اقدامات سے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ پورے ملک کے وزیراعظم ہیں، شہباز شریف پورے پاکستان کو اون کر رہے ہیں لیکن کچھ لوگ ان حالات میں بھی سازشیں کر رہے ہیں، وہ سیلاب میں بھی سازش کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت کس طرح آئے، اس وقت سیاست اور الیکشن نہیں سوچنا چاہیے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ امیر ممالک نے خود کو امیر بناتے ہوئے دنیا کو نقصان پہنچایا ہے اور اس کا خمیازہ ہمارے پاکستانی عوام بھگت رہے ہیں، ہم دنیا سے بھیک نہیں بلکہ انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں، ہم یو این کے سیکریٹر جنرل انتونیو گوتریس کے مشکور ہیں کہ وہ اپنی مصروفیت کے باوجود پاکستان آئے، انتونیو گوتریس اور صدر بائیڈن نے تقریرمیں دنیا سے کہا کہ پاکستان کی مدد کرنی ہے، جس پر مختلف ممالک نے مدد کی اور آگے بھی تعاون کا یقین دلایا۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی حقیقت ہے، ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے تیاری کرنا پڑے گی، مقابلے کیلیے ڈیولپمنٹ ماڈل بنانا ہوگا تاکہ آئندہ اس قسم کا سیلاب آئے تو ہم اس سے نمٹنے کیلیے پوری طرح تیار ہوں، میری تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل ہے کہ سیاست پر اسٹاپ کا بٹن دبا دیں، سیاسی مقابلہ ہوگا مگر اس وقت متاثرین کی مدد کرنے دیں، آپ جتنا بھی کریں اس وقت ناکافی ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ خان صاحب کے دور میں دوست ممالک سے تعلقات کو نقصان پہنچا تاہم اب حالات بہتر ہو رہے ہیں اور جوممالک ہاتھ ملانے کو اور فون کالز کرنے کو تیارنہیں تھے اب وہ بھی تیار ہیں اور وزیراعظم پاکستان کے ساتھ تصاویر کھنچوا رہے ہیں، ملکی مفاد میں ہے کہ تمام ممالک سے تعلقات رکھیں مگر دوسروں کی لڑائی میں نہ پڑیں، امریکا کو زور دیا کہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں مگر چین سے دوستی ہمالیہ سے اونچی ہے، ہم چاہتے ہیں بڑے ممالک کے درمیان لڑائی نہیں بلکہ تعاون کریں۔ وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ ہمارے پاس اتنا پیسہ نہیں کہ ہر کسی کا گھر اپنے خرچے پر بنائیں، سندھ حکومت عالمی بینک سے قرض لے رہی ہے، اس قرض سے ایگریکلچر کے ساتھ گرانٹ، بلاسود قرضوں کا فارمولا بنائیں گے، جو گھر ہم بنائیں گے وہ بھی موسمیاتی تبدیلی کے لحاظ سے فائدہ مند ہونگے۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ میں سیلاب زدگان کو چھوڑ کر جلسے نہیں کر سکتا، سیاسی مقابلہ بھی ہوگا، لیکن ابھی ہماری ترجیح سیلاب متاثرین کی امداد ہے، عمران خان کا طریقہ کار ہے اتنا جھوٹ بولو کہ کچھ نہ کچھ تو لوگ مانیں گے، فارن فنڈنگ لینے والا چندہ چور دوسرں پر الزام لگاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ لاڑکانہ میں ایس آئی یو ٹی کا افتتاح کیا اور بچوں کیلئے اسپتال کھولا، ہمارے اسپتال ان اضافی مریضوں کا بوجھ نہیں اٹھاسکتے، ہمیں ایک قوم بن کر سانحات کا مقابلہ کرنا ہے۔انہوںنے کہا کہ کراچی نہیں پورے ملک کی تعمیر نو کی ضرورت ہے، خود تعمیر نو کے لیے وسائل جمع کر رہا ہوں، میرے آنے سے پہلے جو ہوا سو ہوا، اب خود کام کر رہا ہوں، ماڈل یوسی نہیں پورے سندھ کو ماڈل صوبہ بنائیں گے، جہاں میں نہیں جا سکتا، وہاں کارکنان جائیں اور بلاول بن کر کام کریں،ہم پر کبھی سیلاب متاثرین کی امداد میں کرپشن کا الزام نہیں لگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں