ایک دشمن کی موت

تحریر:انورساجدی

سابق فوجی آمر خود ساختہ صدر اور اپنے عہد کے انتہائی متنازعہ شخص پرویز مشرف کی وفات پر لکھنے کیلئے الفاظ کا بہت بڑا ذخیرہ چاہئے، کامل انشا پردازی کے بغیر ان کی شخصیت کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ میں نے ایسی شخصیت کی موت پر بارہا پنجابی کے عظیم صوفی شاعر میاں محمد بخش کا وہ شعر لکھا ہے جو ایسی شخصیات کی موت پر صادق آتا ہے۔
دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے
سجناں وی مرجاناں
جنرل مشرف کافی عرصے سے ایک مہلک بیماری میں مبتلا تھے اور کئی سالوں سے دوبئی کے امریکن اسپتال میں زیر علاج تھے۔ طبی ماہرین کے مطابق ان کا جان لیوا عارضہ ایسا تھا جو کروڑوں لوگوں میں سے کسی ایک کو ہوتا ہے اور اس کا علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا، یہ بیماری ’’ایڈز‘‘ سے ملتی جلتی ہے جو انسان کی قوت مدافعت کو ختم کردیتی ہے۔آخری مرحلے میں جسم اندر سے گلنا اور سڑنا شروع ہوجاتا ہے۔
موت تو برحق ہے اور ہر شخص کا حق ہے کہ وہ اپنی سرزمین میں سپرد خاک ہو ، سو یہ حق مشرف کو بھی ہے لیکن سند یافتہ آئین شکن اور غداری کے مرتکب کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ انہیں قومی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا جائے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق جب پرویز مشرف کی میت پاکستان پہنچے گی تو انہیں پورا اعزاز دیا جائے گا۔ اس سے قبل سقوط مشرق پاکستان کے مرکزی کردار جنرل آغا محمد یحییٰ خان کو بھی ان کی موت پر راولپنڈی میں قومی پرچم میں لپیٹ کر سیلوٹ دے کر پورے اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا تھا۔ اگرچہ ضیاء الحق فضائوں میں راکھ ہوگئے تھے اور ان کے جسد کی باقیات نہیں ملی تھیں، اس کے باوجود انہیں اسلام آباد کی فیصل مسجد کے احاطہ میں پورے قومی اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا تھا۔ حالانکہ جنرل ضیاء الحق شدید آئین شکنی کے مرتکب ہوئے تھے، انہوں نے 1973 کے متفقہ آئین کو توڑ کر طویل مارشل لاء نافذ کیا تھا اور 11 برس تک اپنی آمریت چلائی تھی۔
جنرل پرویز مشرف کا معاملہ ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق سے مختلف ہے، ان پر نواز شریف کی حکومت نے سنگین غداری کا جو مقدمہ کیا تھا، پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ نے جرم ثابت ہونے پر انہیں سزائے موت اور ان کی لاش 3 دن تک اسلام آباد کے ڈی چوک پر لٹکانے کا فیصلہ دیا تھا۔ اگرچہ عمران خان کی حکومت اور ان کے سرپرستوں نے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا اور سزا کے خلاف اپیل بھی کی تھی، بادی النظر میں یہ فیصلہ آج بھی موجود ہے، چنانچہ ازراہ اصول وانصاف پرویز مشرف کی قومی اعزاز کے ساتھ تدفین نہیں کی جانی چاہئے اور اگر کی گئی تو اس کا واضح مطلب یہ ہوگا کہ درحقیقت پاکستان میں آئین شکنی کوئی سنگین غداری نہیں ہے اور اس سے ان لوگوں کو آئین شکنی کی شہہ ملے گی جو مستقبل میں ایک بار پھر آئین کے پرخچے اڑائیں گے۔
وقار سیٹھ اگرچہ پراسرار حالات میں پشاور کے اسپتال میں فوت ہوگئے تھے لیکن ان کے تاریخی فیصلے کی حیثیت اور اہمیت ہمیشہ برقرار رہے گی۔ شاید تاریخ پرویز مشرف کو بھول جائے لیکن وقار سیٹھ اور اس کے فیصلے کو ہمیشہ یاد رکھے گی، جس طرح بھٹو کو پھانسی دینے والے نامراد جج صاحبان کو لوگ بھول چکے ہیں لیکن بھٹو ابھی تک زندہ ہے۔
پرویز مشرف کی موت پر سارے ملک سے دو طرح کا ردعمل آرہا ہے، ایک وہ جو اس کے حامی ہیں جن میں اہم ادارے بھی شامل ہیں، ایسے لوگ جو آمر کے سہولت کار بنے تھے اور پرویز مشرف نے ان کی سرپرستی کرکے انہیں حکومت میں شامل کیا تھا، بدقسمتی سے ایم ایم اے بھی انہی عناصر میں شامل ہے۔ دوسری جانب ان کے مخالفین ان کی موت پر خوشی کا ردعمل دے رہے ہیں اور انہوں نے ریاست کے ساتھ جو زیادتیاں کیں ان کو یاد دلایا جارہا ہے۔ اسلام آباد کے فدائی صحافی اسد علی طور نے مطالبہ کیا ہے کہ وقار سیٹھ کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے جنرل مشرف کی لاش کو 3 دن تک ڈی چوک پر لٹکایا جائے۔ بعض لوگ 1965، 1971 اور 1981 کی سیاچن اور 1999 کی کارگل جنگوں میں ان کی شرکت کو کارنامہ قرار دے کر انہیں ایک ہیرو کی حیثیت سے پیش کررہے ہیں لیکن وہ یہ حقائق بھول رہے ہیں کہ 1965 اور 1971 کی جنگوں میں شرکت ایک علامتی اقدام تھا کیونکہ اس وقت وہ بہت جونیئر آفیسر تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب وہ اسپیشل فورسز کے کمانڈر تھے تو انڈیا نے سیاچن پر قبضہ کرلیا تھا، اس طرح کارگل کی جنگ میں بھی انہیں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا لہٰذا انہیں ہیرو ماننا حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ اس کے علاوہ وقت نے ثابت کر دکھایا ہے کہ 12 اکتوبر 1999 کو آئین توڑنا اور منتخب حکومت کو برخاست کرکے اقتدار سنبھالنا بھی غلط تھا اور پرویز مشرف نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ایسا کیا تھا۔ پرویز مشرف کے اس اقدام نے پاکستان کو آئینی، سیاسی اور معاشی طور پر شدید نقصان پہنچایا تھا جس کی تلافی آج تک نہ ہوسکی۔ یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ پرویز مشرف نے اقتدار میں آکر طالبان کی حکومت کی جو حمایت کی وہ بھی غلط کیا اور نائن الیون کے بعد امریکہ نے طالبان کی حکومت ہٹانے کیلئے افغانستان پر جو قیامت خیز حملہ کیا اس کی حمایت اور شرکت کا فیصلہ بھی غلط تھا۔ انہوں نے امریکی دبائو اور ڈالروں کی خاطر اپنے ملک کی جڑیں تک ہلادیں۔ سابق صدر نے اپنی کتاب میں یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے 500 سے زائد پاکستانی امریکہ کے حوالے کئے جس کے بدلے کروڑوں ڈالر وصول کئے گئے۔
پرویز مشرف نے مئی 2007 میں ایک بار پھر ایمرجنسی لگاکر آئین کو پامال کیا، نہ صرف یہ بلکہ وہ طاقت کے نشے میں اتنے چور تھے کہ انہوں نے لال مسجد کے معمولی مسئلے کو بنیاد بناکر سینکڑوں بچیوں کا قتل عام کیا۔ پرویز مشرف نے نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کرکے اپنے ملک کو ایسی آگ میں جھونک دیا کہ یہ 17 سال بعد بھی بھجنے کو نہیں آرہی ہے ۔ جنرل پرویز مشرف نے فاٹا کو دہشت گردوں کے حوالے کرکے پاکستان کی سلامتی کو ہمیشہ کیلئے خطرے میں ڈال دیا۔
بے شک دنیا کہے کہ نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کرکے جنرل پرویز مشرف نے ظلم وبربریت کی ایک نئی بنیاد رکھی لیکن ایک حوالے سے وہ اہل بلوچستان کے محسن بھی ہیں، نواب صاحب نے میدان جنگ میں آکر جام شہادت نوش کیا اور اپنے وطن کی ایسی بنیاد رکھی کہ اس کے انتہائی دور رس نتائج برآمد ہونگے۔ دوسری جانب اقتدار سے معزولی کے بعد جنرل مشرف کو اپنے بیڈ پر موت آئی، ان دونوں اموات میں بہت فرق ہے۔ اگرچہ نواب صاحب کی موت پر ذاتی اعتبار سے اہل بلوچستان کو بہت دکھ ہے لیکن ان کی بے باکانہ شہادت ان کے لئے باعث فخر اور باعث تقویت ہے۔
اگر پرویز مشرف کی تدفین قومی اعزاز کے ساتھ کی گئی تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس ملک کے آئین کو کبھی عزت وتوقیر حاصل نہیں ہوگی اور اس ریاست میں کبھی آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی نہیں آئے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں