چینی اسکینڈل۔ صدمہ کہ لائحہ عمل؟

راحت ملک
عید الفطر سادگی سے منانے کی خاطر جناب وزیراعظم نتھیا گلی کے پر فضا مقام تشریف لے گئے تاکہ وہ کسی خلل یا نمائش سے بے نیاز ہو کر سادگی سے عید منائیں انہوں نے نمودو نمائش سے گریز پائی کے تقاضے کو ملحوظ رکھا اور عبادت جو خالصتا بندے اور رب کے درمیان تعلق کا عمل ہے اسے بھی مخفی رکھا خلل اندازی سے بچنے کے لیے عید کے ایام میں عامتہ الناس کے مری میں داخلے پر پابندی اسی غایت کا استعارہ تھی۔ لیکن حاسدین نے اس پر طرح طرح کے عنوان باندھے۔ یہ تو عوام کو عید پر مری میں جمع ہوکے روائتی سماجی فاصلے کے ختم ہوجانے کے خدشے سے بچانے کی احتیاطی تدبیر تھی۔ وزیراعظم اگر چھٹیوں کے دنوں میں نتھیا گلی میں ” کورنٹائن ” ہوئے تو اس میں حرج کیا تھا؟؟ آخر کار ریاست مدینہ کی تعمیر کے لیے ذہنی یکسوئی بھی تو درکار ہے۔ اور لازم تو نہیں کہ مجوزہ ریاست مدینہ کا چیف ایگزیکٹو ریاست کا امام و خلیفہ بھی ہو جو عیدین و جمعہ کی نماز میں امامت کے فرائض ادا کرنے عصری شعور ریاست مدینہ کے از سر نو احیاء میں جدت کا بھی متقاضی ہے۔
ملک میں کرونا کیا رنگ لانے والا ہے؟ اس کے آثار تو لاک ڈاؤن میں نرمی کے دوران عوام کی غفلت شعاری سے عیاں ہوچکے۔ مگر صرف کرونا واحد مسئلہ تو نہیں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہونے والا ہے جسے دھیان سے اوجھل نہیں ہونا چاہئے۔نئے پاکستان میں چینی مافیا کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے تو اس کے ثمرات و اثرات کو ملحوظ رکھنا بھی اشد ضروری ہے چنانچہ ذرائع ابلاغ میں اس تاثر کی ابھی سے پشتہ بندی شروع کردی گئی کہ جس کا امکان فیصلے میں پنہاں شعوری منصوبہ بندی کو عیاں کرتا ہے مثلاً یہ کہا جارہا ہے کہ شوگر مافیا نے چینی سکینڈل کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کو دھمکیاں بھی دیں بلکہ یہاں تک کہ وزیراعظم عمران خان کو بھی سنگین سیاسی نتائج سے خبردار کیا گیا تھا مگر وہ اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹے نہ یوٹرن لیا۔ تاہم میرا خیال ہے کہ اس طرح کے تبصرے آنے والے دنوں کی سیاسی صف بندی و منظر نامہ کی پیش بندی کررہے ہیں۔ کیا چینی سکینڈل کی رپورٹ رنگ لائے گی؟ ایسا ہوا تو رنگ سیاہ ہوگا یا سرخ اور اگر اسکی پردہ پوشی کی گئی۔ یعنی یوٹرن لیا۔۔ تو کیا سکینڈل بدرنگ ہوجائے گا؟؟
اگر چینی کمیشن کی ابتدائی اور بعد ازاں فرانزک کی تفصیلی رپورٹ کو مدنظر رکھا جائے تو مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں۔
الف) شوگر ملز مالکان کا کارٹل مافیا ملک میں دہائیوں سے ملی بھگت کرکے اربوں روپے کا اضافی منافع حاصل کرتا آ رہا۔جس کا سدباب لازم ہے وہ سبسڈی کی صورت ریاستی وسائل سے بھی مستفید ہوتا ہے اس مافیا نے اپنے سیاسی رسوخ سے شوگر کی اضافی پیداوار ممکن بنائی تو نتیجے کے طور پر ملکی معیشت میں زرمبادلہ کمانے والی کپاس کی کاشت و فصل میں کمی آ گئی ملز مالکان اجازت کے بغیر اپنی طے شدہ پیداواری صلاحیت میں اضافہ کر کے زائد پیداوار حاصل کر لیتے ہیں جسے زرمبادلہ کمانے کے نام پر بیرون ملک سستے داموں فروخت کرتے اور سبسڈی کماتے ہیں حالانکہ انہیں زائد پیداوار ظاہر کرنی چاہئے تاکہ کل اصل پیدوار پر ٹیکسز ادا کریں نیز زیادہ پیداوار کی بنیاد پر مقامی منڈی میں بھی چینی کی قیمت کم کریں کیونکہ زائد پیداوار بہرحال اسی خام مال سے حاصل ہوتی ہے جو کم پیداوار ظاہر کر کے دکھائی جاتی اس طرح کم لاگت سے زیادہ پیداوار۔ طلب و رسدکا توازن بگاڑتی ہے جبکہ چینی مل خام مال سے صرف چینی ہی نہیں بناتی اس کی نقد آور ذیلی پروڈکٹ بھی پیدا ہوتی ہیں جنہیں چینی کی صارفی قیمت مقرر کرتے حکومت کو ملحوظ رکھنا چاہیے لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ اس کا سبب شوگر مافیا کو سیاسی رسوخ ہے جو دوستانہ ہو یا مالی نوعیت کا اس کا فائد شوگر ملز مالکان اور معاون ” آحباب ” کو ملتا ہے مگر سارا بوجھ صارفین و ملکی خزانہ برداشت کرتا ہے۔ کمیشن اور شوگر ایڈوائزری بورڈ چینی ملوں کی طے شدہ پیداواری حد پر عملدرآمد کرانے میں ناکام چلا آرہا ہے۔ اس سے چشم پوشی مجرمانہ عمل ہوگی۔
چینی اگر برآمد کر کے زرمبادلہ کمانے کا معقول ذریعہ ہے تو اسکی درآمدی صلاحیت میں دوسری فصلوں پر منفی اثرات مرتب کیے بغیر اضافہ ہوناچاہیے اگر ملز مالکان عالمی منڈی میں مقابلے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو سبسڈی کے ذریعے برآمدگی ممنوع ہونا ضروری ہے ریاست کے تعاون سے زر تلافی کے سہارے ایسا کیوں کیا جائے؟ یہ صورتحال محض مافیائی استعداد کا نتیجہ نہیں بلکہ غیر منصوبہ بند معیشت کی دین ہے۔ لہذا اصلاح و بہتری تادیبی کاروائی سے نہیں آئے گی بنیادی تبدیلیاں ناگزیر ہیں اور اس عہد بے بصیرت میں اس کا امکان نہیں۔
ب) حالیہ بحران کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے چینی بیرون ملک فروخت کی اجازت دینا ہے جس کے اثرات دیگر فوائدزرتلافی اور مقامی منڈی میں گرانی
کے ذریعے سمیٹیں گے
رپورٹ میں درج دیگر امور محض زیب داستان ہیں۔ احتساب کے لیے وزیراعظم کے معاون اور ایصٹ ریکوری کے چئیرمین جناب شہزاد اکبر نے ٹی وی ٹاک شو میں درست کہا ہے کہ” سب یہی کہہ رہے ہیں کہ چینی کی قیمت ایکسپورٹ کی اجازت دینے سے بڑھی کمیشن کی رپورٹ بھی یہی کہتی ہے شوگر مافیا نے ایکسپورٹ کی اجازت کو مارکیٹ پر اثرانداز ہونے کے لیے استعمال کیا ” طے ہوا کہ بحران کا محوری نقطہ سسبڈی دینا نہیں بلکہ بیرون ملک فروخت کی اجازت دینا ہے۔وہ بھی مقامی ضروریات کو نظر انداز کر کے اس نوعیت کی اجازت پچھلی حکومتوں نے بھی دی مگر انہوں نے مقامی ضرویات سے اضافی چینی موجود ہونے کی مناسب تسلی کرنے کے بعد ایکسپورٹ کی اجازت دی تھی یہ امتیازی خط موجودہ اور سابقہ ادوار کے بیچ اچھی اور بری حکمرانی کی ناقابل تنسیخ لکیر کھنچتا ہے۔ جسے کوئی نظر انداز نہیں کر سکتانہ انکوائری کمیشن نہ سیاسی صحافی حلقے اور نہ صارفین یا عوام!!!۔برآمد کی اجازت وزارت کامرس کی سمری پر دی گئی اس عمل میں دیگر اداروں نے گو اپنا نقطہ نظر پیش کیا مگر حتمی منظوری وزیراعظم کی سربراہی میں کابینہ نے دی۔تو اجازت دینے کی بلواسطہ و بلاواسطہ قانونی و اخلاقی ذمہ داری جناب عمران خان پر عائد ہوتی ہے جو وزیر کامرس بھی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انکوائری کمیشن کی صلاحیت مجروح اور رپورٹ جانبدارانہ شکوک کی زد میں چلی گئی ہے کیونکہ کمیشن نے وریر کامرس کو انکوائری میں طلب کیا نہ ان کو سوالنامہ بھجوایا۔ یہ کوتاہی کیوں اور کس کے لیے؟
جناب شہزاد اکبر نے چند مزید اشارات بھی چینل پر ارزاں کیے ہیں۔ لازم ہے ان کا مکمل حوالہ درج کر دیا جائے۔ انہوں نے فرمایا کہ” چینی کی 51 فیصد پیداوار پر چھ گروپوں کی اجارہ داری تشویشناک ہے۔
یہاں وہ اجارادای پر معترض نہیں انکی محدود تعداد پر نکتہ چیں ہیں۔ پھر فرمایا” شوگر ایڈوائزری بورڈ نے چینی کی برآمد نہ روک کر کوتاہی کی ہے ”
” چنانچہ عبدالرزاق داود کو شوگر ایڈوائزری بورڈ سے الگ کر دیا گیا۔اس کے علاوہ کیا ایکشن ہو سکتا؟” جناب شہزاد نے یہ جملہ بہت استہفامیہ انداز میں ارشاد فرمایا ہے۔
انہوں نے مزید کہا” اسد عمر نے سبسڈی نہیں دی لیکن ایکسپورٹ کی اجازت دی۔”شوگر بورڈ ایکسپورٹ روکنے میں ناکام رہے تو عبدالرزاق داودبورڈ سے فارغ لیکن اسد عمر یہی جرم کرے تو معصوم۔۔۔بلکہ میں عرض کرونگا کہ اس فیصلے کا اطلاق جناب اسدعمر اور جناب عمران پر کیوں نہیں کیا جارہا۔؟؟
تجزیہ کار مع حزب اختلاف اسی نکتے ر زور دے رہے اور یاددہانی کرارہے ہیں جب محترم عمران خان اقتدار سے باہر تھے اورگارنٹی کرتے تھے کہ گر ان کی حکومت میں کسی نے غلطی کی تو اسے عہدے سے مستعفی ہونا پڑے گا مجھے یاد ہے خانصاب نے یہ بھی فرمایا تھا کہ مغربی جمہوریت کو سب سے زیادہ میں جانتا ہوں کیونکہ میں وہاں رہا ہوں مغرب میں چھوٹی سی غلط پر وزراء ذمہ داری قبول کرتے اور اپنے عہدوں سے مستعفی ہوجاتے ہیں۔ میں بھی پاکستان میں ایسی جمہوریت چاھتا ہوں ”
مجھے امید ہے اب خان صاحب اپنے کہے کی ضرور لاج رکھیں گے۔ اور اسد عمر سمیت وزیر کامرس و شوگر بورڈ میں غفلت برتنے والوں کو ان کے عہدوں سے الگ کریں گے
کیا وزیراعظم ایسا کرسکیں گے؟ اس کا جواب جناب شہزاد اکبر کے اعترافی بیان سے اخذ کیا جاسکتا ہے بقول ان کے” پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے انکوائری کمیشن کو براہ راست دھمکی دی تھی واجد ضیا ء کو واٹس ایپ بھیجا کہ یہ سرکس (انکوائری) بند نہ کی تو ہم مارکیٹ میں چینی کا ایک دانہ بھی نہیں رہنے دینگے ” تاحال وزیراعظم، ایف آئی اے یا کسی بھی محکمے نے کار سرکار میں مداخلت اور اس تحریری دھمکی کے خلاف قانونی کاروائی نہیں کی!! تو کیوں؟ کیا کوئی حکومت اتنی کمزور و بے بس بھی ہو سکتی؟ کیا اس حکومت سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ قانون کی بالادستی قائم کرے گی؟ نہیں البتہ نیب یا شہزاد اکبر میر شکیل الرحمن اور اپوزیشن رہنماوں کو بغیر مقدمات قائم کیے حراست میں لے سکتی ہے!!!جب میں یہ کہتا ہوں کہ حکومت بے بس ہے وہ تادیبی کاروائی کی ہمت نہیں رکھتی تو سوال اٹھتا ہے آخر اس نے سارا کھیکڑ رچایا کیوں ہے؟ تو میرا موقف بغض کا مظہر نہیں بلکہ یہ دلائل پر مبنی ہے جن سے ہر کسی کا متفق ہونا لازم نہیں مجھے بے بسی قانونی کاروائی کے زمرے میں نظر آرہی ہے مزید سیاسی بحران پیدا کرنے میں نہیں زیادہ درست بات یہ ہے کہ جناب عمران خان خود اپنی حکومت کی گاڑی کو دیوار سے ٹکرانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اپنے دور حکومت کے ناقص فیصلوں، معیشت کی تباہی، بے روزگاری میں اضافے قرضوں میں بے تحاشہ اضافے کے باوجود بھی اقتصادی شعبے کی تعمیر وترقی کے لیے کوئی منصوبہ شروع نہیں کر سکے۔ روپے کی قدر میں گراوٹ بجلی گیس کے نرخوں میں بڑھوتری لوڈشیڈنگ کے احیاء، پارلیمانی جمہوری نظم کی شعوری بے توقیری اور مملکت کے معاشی و تجارتی اداروں میں سابق و حاضر سروس افراد کی مخصوص تعیناتیوں سے اٹھنے والے سیاسی سوالات کے جواب سے بچنے کے لیے وہ ایسی سیاسی شہادت چاہتے ہیں جس کی بدولت وہ اپنی اصول پسندی کا چورن لے کر عوام سے داد تحسین سمیٹ کر اپنی سیاست زندہ رکھ سکیں وہ دعویٰ کرسکیں کہ میں نے اپنے اتحادیوں اور ساتھیوں کے خلاف کاروائی سے بھی گریز نہیں کیا حالانکہ میں جانتا تھا کہ اس عمل سے ہماری حکومت ختم ہو سکتی ہے لیکن میں نے اقتدار پر اصولوں کو ترجیح دے کر ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک مثال قائم کی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اس بھاشن پر سادہ لوح عوام پرجوش انداز میں تالیاں بجائیں گے اور انکی نااہلی و ناقص طرز حکمرانی کو بھولا دینگے
لیکن وہ نہیں سمجھ رہے کہ ان کے عہد میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔یہ استدلالی تجزیہ جناب شہزاد اکبر کے بیان پر بھی استوار ہے انہوں نے جہانگیر ترین کے اس بیان کو رد کیا ہے جس جہانگیر ترین نے دعوی کیا تھا کہ ”وہ واحد چینی مل مالک ہیں جس نے کسانوں سے 180 روپے من کے حساب سے گنا خریدا تھا ” اس بیان کی تکذیب مفاہمت کے امکان کو صفر سے بھی نیچے لے گئی اکبر صاحب ہے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ۔” پی ٹی آئی حکومت میں چینی پر سبسڈی عمران خان نے نہیں پنجاب حکومت نے دی ہے۔” بادی النظر میں یہ بات لطیفہ لگتی ہے۔ ذرا غور کریں تو اس میں بڑے اسرار پوشیدہ ہیں یعنی اول یہ کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی نہیں مخلوط حکومت ہے ثانیاً۔اس سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کی جناب عمران خان سمیت پی ٹی آئی قیادت کے داخلی حلقے نے جناب عثمان بزدار سے فیصلہ کرلیا ہے تو اب کیا ہوگا؟
محولا بالا نیا سیاسی چورن تیار کیا جائے اور بس۔

اپنا تبصرہ بھیجیں