آٹے کی قیمتوں میں اضافہ جاری ہے

اداریہ
مل مالکان نے نہ صرف آٹے کی قیمتیں بڑھانے کااعلان کیا بلکہ انہوں نے بیس کلو آٹے کا تھیلہ 805روپے سے بڑھا کر925روپے کا کر دیاہے۔ مل مالکان کا کہنا ہے کہ مہنگی گندم خرید کر سستا آٹا نہیں بیچ سکتے اوپن مارکیٹ میں گندم کی فی من قیمت1600روپے سے بڑھ گئی ہے۔اس کے معنے یہ ہوئے کہ آٹا 6روپے فی کلو مہنگا ہوگیا ہے۔دوسری جانب چینی کے دام بھی محکمہ اعداو شمار کے مطابق7پیسے بڑھ گئے ہیں۔وزیر اعظم کے معاون برائے احتساب شہزاد اکبر کہتے ہیں اگر چینی کی قیمت میں ایک روپیہ فی کلو اضافہ کیا جائے تو مل مالکان کو5ارب روپے زیادہ ملتے ہیں۔اس حساب سے (7پیسے فی کلو اضافے سے) چینی ملوں کے مالکان کی جیب میں 35کروڑ روپے تو جا چکے ہیں۔چینی اسکینڈل کی انکوائری رپورٹ منظر عام پر آچکی ہے اپوزیشن تنقید کر رہی ہے کہ چینی سستی کیوں نہیں ہوئی؟رپورٹ شائع کرنے سے کچھ نہیں ہوتا اصل کام یہ ہے کہ چینی سستے داموں عام آدمی کو ملے۔اپوزیشن کی تنقید یقیناً حکومت تک پہنچتی ہے۔لیکن حکومت سلو موشن میں آگے بڑھ رہی ہے۔حکومتی ترجمان برملا کہہ رہے ہیں کہ چینی ملوں کے مالکان نے انکوائری رکوانے کے لئے دھمکی دی تھی کہ اگر انکوائری نہ روکی گئی تو حکومت نہیں چلنے دیں گے۔حکومت عام آدمی سے چاہتی ہے کہ تھوڑا صبر کیا جائے۔عام آدمی اتنا پریشان ہے کہ حکومت سے بھی کچھ نہیں کہہ رہالیکن حکومت اس خاموشی سے یہ نہ سمجھے کہ عام آدمی حکومتی کارکرکردگی سے مطمئن ہے حکومت جیسے تیسے ابھی تک کورونا کے مقابلے کی راہیں تلاش کر رہی ہے مگر اسی دوران ٹڈی دل کے لشکر ملک کے ساٹھ اضلاع میں کھڑی فصلوں پر حملہ آور ہوچکے ہیں۔لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں بری طرح تباہ کر چکی ہے۔کاشت کاروں کا جو نقصان ہوا وہ اپنی جگہ لیکن اس کے نتیجے میں ملک میں شدید غذائی قلت پیدا ہو جائے گی۔ملکی معیشت کو بڑا دھچکا لگے گا۔ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ ماضی میں ٹڈی دل واپس چلی جاتی تھی مگر اس سال واپس نہیں جائے گی اس نے پاکستان میں ہی انڈے بھی دے دیئے ہیں۔یاد رہے ایک مادہ ایک ہزار انڈے دیتی ہے اور اس کا ایک غول چار کروڑ ٹڈیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔جہاں حملہ کرتی ہے فصلوں کو تباہ کر دیتی ہے۔چنانچہ ٹڈی دل کے قیام کو سنجیدگی سے دیکھا جائے یہ خبر کورونا سے بھی زیادہ تشویشناک ہے۔کورونا میں اموات کی شرح دو سے تین فیصد ہے مگر ٹڈی دل کاشت کاروں سے سب کچھ چھین لیتی ہے۔ کاشت کاروں کو بے یارو مددگار نہ چھوڑا جائے۔بروقت بھرپور مدد فراہم کی جائے۔پاکستان میں گزشتہ73برسوں میں عام آدمی کو مسلسل نظر انداز کیا گیا ہے وہ بے چارا ایک دکھ سے نکلتا کہ دوسرے دکھ میں مبتلاء ہو جاتا ہے۔ اس کی کورونا سے جان نہیں چھوٹی تھی کہ ٹڈی دل اس کے کھیت اور باغات اجاڑنے پہنچ گئی ہے۔
حکومت نے وزراء کے علاوہ مشیروں اور معاونین کی ایک بھیڑ اپنے گرد جمع کر لی ہے ان میں سے دو چار کو ٹڈی دل کے خلاف ذمہ داری سونپی جائے۔این ڈی ایم اے کے سربراہ اور وفاقی وزیرخوراک نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قوم کو یقین دلایا تھا ٹڈی دل کے سد باب کے لئے خاطر خواہ تیاری کر لی ہے جاپان، کوریا اور دیگر ممالک سے ضرورت کے مطابق کیمیکل منگوا لیا گیا ہے طیارے اور ہیلی کاپٹرز بھی مناسب تعداد میں دستیاب ہیں مگر انہیں چھڑکاؤ کرتے ہوئے کہیں بھی نہیں دیکھا گیاجہاں بھی ٹڈی دل حملہ آور ہوئی کاشت کار اپنے گھر کے برتنوں سے شور شرابہ کرکے یا چادریں لہرا کر ٹڈی دل کواڑاتے دیکھا جاتا ہے۔ٹڈی دل کو معمولی نقصان پہنچانے والی مخلوق نہ سمجھا جائے بدقسمتی سے پاکستان میں حکمرانوں نے زرعی شعبے کو ترقی دینے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی ورنہ ملک کے چپے چپے پر ڈیم تعمیر کئے جاتے پانی کے بے تحاشہ ضیاع کو روکنے پر توجہ دی جاتی۔بیجوں کو بہتر بنانے میں سنجیدگی دکھائی جاتی۔سیم اور تھور نے لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی کوبنجر بنا دیا حکمراں دیکھتے رہے۔مان لیا کہ گندم کی فصل گوداموں تک پہنچ گئی ہے مگردیگر کھڑی فصلیں بھی ہماری غذائی ضرورت پوری کرتی ہیں جانوروں کا چارہ ختم ہونے سے دودھ دینے والے جانوروں کی بقاء خطرے میں پڑ جاتی ہے۔کھجور کی فصل کو نقصان پہنچا ہے آم کی فصل گزشتہ سال کے مقابلے میں کم ہوگی۔دیگر پھل بھی متأثر ہوئے ہیں یہ ایک جانب معیشت کی بحالی کے برعکس عمل ہے اور دوسر ی جانب غذائی قلت بھی مسائل پیدا کرے گی۔اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ایران سے مزیدٹڈی دل آنے کا خطرہ بھی سر پر منڈلا رہا ہے۔حکومت نے ابتداء میں ہی اس مسئلے سے نمٹنے کی تیاری کر لی ہوتی تو شاید بہتر صورت دیکھنے میں آتی۔یاد رہے دوسروں کو کوسنا اور ساری خرابی کی ذمہ داری اپنے مخالفین پر ڈالنا جذباتی تسلی کی حد تک کارآمد ہے مگر عوام کی زندگی میں بہتری لانے اور عوام کی تقدیر بدلنے میں اس کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔عام آدمی سخت پریشان ہے۔کورونا نے زندگی مفلوج کر کے رکھ دی ہے ایسے میں تیار فصلوں کی تباہی سے عام آدمی کی کمر ٹوٹ جائے گی وہ ادھ موا پہلے سے ہے اسے مزید مایوس نہ کیا جائے۔ٹڈی دل کو ملکی معیشت کے تناظر میں ایک خطرناک عامل سمجھا جائے اور مکمل توانائی اور سنجیدگی سے اس کا سد باب کیا جائے اس ضمن میں ابھی تک کئے گئے اقدامات ناکافی نظر آتے ہیں۔ زیادہ وسائل کے ساتھ کام کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں