مال مفت دل بے رحم
تحریر: انور ساجدی
وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ دنوں قطر جاکر دوحہ میں دنیا کے غریب ممالک کی کانفرنس میں شرکت کی لیکن وہ گروپ فوٹو میں نظر نہیں آئے شاید دل ملامت کررہا ہوگا کہ وسائل کے اعتبار سے دنیا کا 20 واں بڑا ملک آج اس حال میں پہنچا ہے کہ اس کا شمار آخری چند غریب ممالک میں ہونے لگا ہے۔ 75 سالوں میں ریاست اس حال میں کیسے پہنچی، یہ کوئی سربستہ راز نہیں، اس بارے میں ہزاروں مضامین اور سینکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں لیکن کسی ماہر معیشت، کسی سیاسی بزر جمہر اور کسی اعلیٰ دماغ نے یہ نہیں بتایا کہ ان معاشی، سیاسی اور آئینی بحرانوں سے کیسے نکلا جاسکتا ہے۔ ہر نیا حکمران پرانے سے بدتر ثابت ہوتا ہے اور ماضی کے برے حکمرانوں کو ہی نئے حکمرانوں سے باصلاحیت اور لائق سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان پر اس وقت قرضوں کا بوجھ اتنا زیادہ بڑھ چکا ہے کہ اس کی کمر دوہری ہوگئی ہے لیکن ان کی ادائیگی کیلئے وسائل کا بندوبست نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے سپریم لیڈر عمران خان کی خواہش اور کوشش ہے کہ ملک ڈیفالٹ کرجائے۔ اسحٰق ڈار کی نالائقیاں دیکھ کر یہ گماں پختہ ہورہا ہے کہ ڈیفالٹ زیادہ دور نہیں ہے۔ وزیرخزانہ کی یقین دہانیوں پر کاروباری طبقہ یقین کرنے کوتیار نہیں اس لئے بڑے بڑے سیٹھوں نے اپنی تسلی کیلئے آرمی چیف سید عاصم منیر کو اپنے ہاں آنے کی زحمت دی۔ وزیر خزانہ بھی ہمراہ تھے جنہیں بڑے بڑے سیٹھ خون خوار نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ سیٹھوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے یقین دلایا کہ مشکل وقت گزرچکا ہے۔ ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں ہے، اس کے بعد ہی سیٹھوں کی جان میں جان آئی۔ یہ پاکستان کے بڑی توند اور بڑی تجوری والے سیٹھ عجیب غریب لوگ ہیں، جب بھی یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ طاقتور ادارے سیاست سے دور رہیں گے تو یہ لوگ بڑے سربراہوں کو اپنے ہاں مدعو کرتے ہیں، پوری قوت کے ساتھ آہ وزاری شروع کردیتے ہیں، خاک شانی پر بھی اتر آتے ہیں، اپنی تباہی کا رونا روتے ہیں اور اپنی جعلی قربانیوں کا افسانہ بھی سنادیتے ہیں لیکن یہ سیٹھ جھوٹے ہیں، یہ 75 سالوں سے یہی رونا روکر عوام کولوٹ رہے ہیں۔ یہ ہر حکمران سے ری فنڈ اور ریبیٹ کے نام پر کھربوں روپے وصول کرتے ہیں، اپنا سرمایہ پیداوارمیں اضافے پر لگانے کے بجائے اسٹاک ایکس چینج کے سٹے اور جوئے پر لگاتے ہیں، حرام کی ساری کمائی منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر کے ملکوں میں منتقل کرتے ہیں، خاص طور پر دوبئی ان کا پسندیدہ مقام اور پہلی جائے پناہ ہے۔ دوبئی میں نہ صرف یہ لوگ کھربوں کا سرمایہ لگاتے ہیں بلکہ وہاں سے یورپ، امریکہ اور کینیڈا جاکر آخری عمر عیش وآرام سے گزارنے کا بندوبست کرتے ہیں۔ پاکستان اتنا بانجھ ہوگیا ہے کہ یہاں پر نئی ایجادات پر بنی صنعتوں اور پیداوار کا فقدان ہے، بس ٹیکسٹائل اور رئیل اسٹیٹ پر اکتفا ہے۔ چند ایک مافیاز ہیں جیسے کہ شوگر مافیا، بلڈر مافیا، اسٹاک ایکس چینج مافیا وغیرہ، یہ طبقہ عوام کا خون نچوڑ رہا ہے، کبھی اسٹاک مارکیٹ کو بڑھاتے اور کبھی گراتے ہیں، یہی ان کا شغل مشغلہ ہے، ہر چیز میں سبسڈی لیتے ہیں، دیگر مراعات الگ ہیں، یہ طبقہ کبھی زراعت کی طرف نہیں دیکھتا، اس کو بس شہری پلاٹ اور جائیدادیں درکار ہیں تاکہ آسانی کے ساتھ کھربوں روپے لوٹ کے مال کی طرح ہاتھ آجائے۔
کوئی سوچتا نہیں کہ 1977ء سے اب تک سرکار کا ہر ادارہ کیوں خسارے میں چل رہا ہے، اس کے ذمہ دار کون ہیں، اس کے ذمہ دار کون ہیں، چند ایک سڑکوں کے سوا تین دہائی میں کوئی بڑا ترقیاتی کام نہیں ہوا جبکہ آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے۔ بدقسمتی سے پہلے مینوئل مردم شماری کے ذریعے آبادی کم دکھائی گئی، اب تو ڈیجیٹل فراڈ ہورہا ہے یعنی اسلام آباد میں بیٹھ کر یہ طے کیا جائیگا کہ کل آبادی کیا ہے جسے صوبوں پر کیسے تقسیم کیا جائے، یہ ڈیجیٹل فراڈ پی ڈی ایم کی حکومت کے دور میں ہورہا ہے اور حکومت بتاتی نہیں کہ اس فراڈ کی ضرورت کیوں پیش آئی، اگرچہ ایم کیو ایم کا یہ مطالبہ ضرور تھا کہ نئی مردم شماری کروائی جائے لیکن غالباً اس کا یہ مطالبہ نہیں تھا کہ حقیقی مردم شماری کے بجائے ڈیجیٹل فراڈ کیا جائے، اس کی حیثیت کیا ہے، خود پیپلز پارٹی نے بھی اسے مشکوک اور فراڈ قرار دیا ہے۔ اس کی شفافیت کا یہ عالم ہے کہ شناختی کارڈ دیکھے بغیر اندراج کیا جائے گا یعنی 5 ملین افغان پناہ گزین بھی شمار ہونگے، ایسے فراڈ کا کیا فائدہ جس پر اتفاق رائے نہ ہوسکے۔
معیشت کا جو حال ہے وہ سبھی جانتے ہیں لیکن سیاست کا بہت برا حال ہے، ماضی کی نسبت ایک دوسرے پر تنقید کے بجائے سوشل میڈیا کے ذریعے ایسی ایسی دشتام طرازی سننے کوملتی ہے کہ الامان والحفیظ۔ گزشتہ دنوں پنجاب کے سابق صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان جو بدکلامی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، بلاول بھٹو پر جنسی جملے کستے ہوئے دکھائی دیئے اور تو اور پی ٹی آئی کی ترجمان مسرت جمشید چیمہ جوکہ عورت ذات ہیں سوشل میڈیا پر رطب اللسان تھیں کہ بلاول امریکہ میں اپنا علاج کروارہے ہیں تاکہ ڈاکٹر بتاسکیں کہ ان کی جنس عورت یا مرد کی ہے۔ بلاول کے بارے میں شیخ رشید اور خود عمران خان بھی کئی بار ہرزہ سرائی کرچکے ہیں۔ شیخ رشید نے طنزاً ان کا نام بلو رانی رکھا ہے، یہ کیا بلندی اور کیا پستی ہے۔ لندن میں علاج کو لیکر مریم نواز پر بھی بے شمار جملہ بازی ہورہی ہے اور تحریک والے پوچھ رہے ہیں کہ واقعی ان کے گلے کاآپریشن ہوا ہے، دوسری جانب مخالفین عمران خان کو پاگل خان، لنگڑا، نشئی، ہیروئنی اور آئسی قرار دے کر دشتام طرازی کررہے ہیں۔ حالانکہ پہلے ان پر یہ الزام تھا کہ وہ ’’کوکین‘‘ سونگھنے کاشوق فرماتے ہیں، جوانی میں وہ چرس پیتے رہے ہیں، ان کی ایک پرانی تصویر بھی موجود ہیں جو وزیرستان کے دورے کے دوران لی گئی تھی، مردوں کے ساتھ خواتین کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے جیسے کہ عمران خان کی اہلیہ کو پنکی پیرنی، فرحت شہزادی کو فرح گوگی اور دیگر کو نامناسب القابوں سے یاد کیا جاتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ شاہ دولے کے سارے چوہے موجودہ دور میں اکٹھے ہوگئے ہیں۔ انہوں نے سروں پر جو آہنی خود پہنا ہے اس نے ان کے دماغوں کو چھوٹا اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری کردیا ہے۔ ایسے ہی حالات سے فائدہ اٹھاکر مداخلت کی راہ ہموار کی جاتی ہے، سب سے بڑے لیڈر بار بار مداخلت کی دعوت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ چوروں ڈاکوئوں سے نہیں ملیں گے، اگر ملیں گے تو براہ راست بڑے صاحب سے ملیں گے، وہ ابھی تک پرامید ہیں کہ نئی قیادت باجوہ کی طرح ان کا ہاتھ پکڑ کر دوبارہ اقتدار کی کرسی پر بٹھادیں گے لیکن اب ایسا ممکن نہیں ہے۔ عمران خان دوبارہ لاڈلا نہیں بن سکتے، بے شک وہ اب بھی عدلیہ کے لاڈلے ہیں لیکن بزرگان دین انہیں چھوڑ چکے ہیں اور ان کے لئے 2018ء کی طرح کوئی اور موقع پیدا نہیں کیا جائے گا، البتہ وہ عوامی قوت پر بھروسہ رکھیں تو عوام کی طاقت سے ہی دوبارہ اقتدار میں آسکتے ہیں لیکن آئندہ انتخابات تک ملک میں سیاسی معاشی استحکام نہیں آسکتا اس لئے اوپر کی سطح پر کچھ تجاویز زیر غور ہیں جیسے کہ مارگلہ کا ایک حصہ سیٹھوں سے ڈالر لیکر فروخت کیا جائے، اسی طرح لسبیلہ کی 40 ہزار ایکڑ ایک سیٹھ کو دینے کا فیصلہ ہوگیا ہے۔ ایک اور تشویشناک بات ہزار گنجی نیشنل پارک کو کمرشلائز کرنے کا منصوبہ ہے، یہ رقبہ بھی تقریباً 30 ہزار ایکڑ بنتا ہے۔ یہ کوئٹہ کی پرائم پراپرٹی ہے جو شہر کو تازہ ہوا پہنچانے کا واحد ذریعہ ہے۔ اول تو یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا، اگر موجودہ دور میں بات آگے بڑھی تو اس پر کبھی عملدرآمد ممکن نہیں۔ حیرت ہے ان سیاسی لوگوں پر جنہوں نے چلتن اور اس کے ایکوسسٹم کو تاراج کرنے کا منصوبہ سوچا ہے، لالچ اور خود غرضی کی حد ہوتی ہے۔
لسبیلہ اور گوادر کا بیش بہا ساحل پہلے سے عالمی نظروں میں ہے، ہر طرف سے بھیڑیوں کی اسی پر نظر ہے جبکہ اس کا ایک قیمتی حصہ اٹک سیمنٹ، ڈی جی سیمنٹ، حبکو پاور بائیکو بوسیکار اور آسودہ ترین منصوبوں کیلئے کوڑیوں کے مول دیا جاچکا ہے۔
سیندک ریکوڈک چلغازی کے بعد گوادر پسنی اور جیونی کو بھی تلف کرنے کا سوچا جارہا ہے جیسے یہ مال غنیمت ہوں۔ مال مفت دل بے رحم۔
اب جبکہ ’’بڑے صاحب‘‘ نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لئے ہیں تو امید یہی ہے کہ وہ ان ناجائز اور غیر منصفانہ سودوں کو رد کردیں گے۔