شیر کی ایک دن کی زندگی۔۔۔

تحریر: انور ساجدی
ہم ڈیرہ بگٹی میں نواب صاحب کی رہائش گاہ کے اس کمرے میں پہنچے جہاں نواب صاحب رات کی مجلس برپا کرتے تھے، یہ مکان نواب محراب خان نے انگریزی دور میں بنایا تھا، منقش درودیوار اور پرکشش گلکاری دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کرتے تھے، عقل حیران تھی کہ مٹی سے بنے کمروں کو بھی اس طرح گلکاری سے سجایا جاسکتا ہے۔
اپنے والد محراب خان کے بجائے شہباز اکبر نے پوری دنیا دیکھ رکھی تھی، اگر وہ چاہتے تو بہت ہی شاندار قلعہ بناسکتے تھے لیکن انہیں تعمیرات کا شوق نہیں تھا، انہوں نے تمام عمر اپنے والد کے مکانات کو استعمال کیا، البتہ عمر کے آخری حصے میں انہوں نے اپنے قلعہ کے احاطے میں ایک پختہ مہمان خانہ تعمیر کروایا جسے جدید فرنیچر سے آراستہ کیا گیا تھا، اس کے علاوہ مرحوم سلال بگٹی نے ڈیفنس میں ایک مکان خریدا جو آج کل میر عالی بگٹی کی رہائش گاہ ہے۔
نواب صاحب اپنی بیٹھک کے اندر مخصوص نشست پر تکیہ کے اوپر تشریف فرماتھے، ان کا ایک پیر شدید علیل تھا، وہ 17 مارچ 2005 کے حملہ کی تفصیلات بتارہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن کی شام کو بجلی اور ٹیلی فون کی لائنوں کو منقطع کردیا گیا تھا، ان کے پاس ایک سیٹلائٹ فون تھا، اچانک نوابزادہ جمیل بگٹی کو خیال آیا اور وہ میرے سامنے سے سیٹلائٹ فون اٹھاکر لے گئے لیکن اس دوران ایک گولہ چھت میں آتے ہوئے اندر اسی جگہ گرا جہاں فون سیٹ رکھا تھا یعنی اہلکاروں نے سیٹلائٹ فون کے سگنلز کے ذریعے کھوج لگایا تھا کہ میں کس کمرے میں بیٹھا ہوں لیکن ان کا وار خطا ہوگیا۔ انہوں نے بتایا کہ رات کی تاریکی میں چہار اطراف سے گولہ باری شروع ہوگئی، درجنوں مکانات، مندر اور عبادت گاہ زد میں آگئی، ہر طرف خواتین، بچوں اور زخمیوں کی چیخ وپکار کی آوازیں آرہی تھیں، ایک محشر اور قیامت صغریٰ برپا کیا گیا تھا، ہم نے زخمیوں کو جلد اسپتال پہنچانے کی کوشش کی لیکن راستے بند کردیئے گئے تھے، مقامی اسپتال میں ادویات اور انتظامات نہیں تھے، عملے کو غائب کردیا گیا تھا، اگلے دن جب جانی نقصان کا اندازہ لگایا تو 70 افراد جاں بحق ہوگئے تھے، 250 سے زائد زخمی تھے، بڑے پیمانے پر مال مویشی بھی فائرنگ کی زد میں آکر ہلاک ہوگئے تھے۔ ذرا تصور کیجئے کہ ڈیرہ بگٹی جیسے چھوٹے قصبہ میں اتنے زیادہ جانی نقصان کا مطلب یہ ہے کہ یہ بلوچستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کارروائی تھی، حملہ غالباً یہ سوچ کر کیا گیا تھا کہ ڈیرہ بگٹی بلوچستان اور پاکستان کا حصہ نہیں ہے بلکہ دشمن کا کوئی شہر ہے، یہ ریاستی بربریت اور طاقت کا بے جا استعمال تھا۔ انہوں نے اپنے لوگوں کو پرامن رکھا تھا تاکہ حکومت کو حملے کا بہانہ نہ ملے لیکن اس کے باوجود کشت وخون کا بازار گرم کیا گیا۔ نواب صاحب کچھ دیر گہری سوچ میں چلے گئے اور جب دوبارہ گویا ہوئے تو انہوں نے کہا کہ 17 مارچ کی کارروائی سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے مجھے مارنے کا فیصلہ کرلیا ہے، میری خواہش ہے کہ میں اپنی مرضی کی موت مروں اور اپنے بستر پر نہ مارا جائوں، وہ رک گئے تھے اور کہنے لگے کہ میں گرفتار ہونا نہیں چاہتا کیونکہ وہ گرفتاری کے بعد پنجاب کے شہر شہر لے جائیں گے اور لوگوں کو بتائیں گے کہ یہ ہے بلوچوں کا لیڈر اکبر بگٹی، غالباً یہی لمحہ تھا جب نواب صاحب نے ذہنی طور پر فیصلہ کیا کہ وہ پہاڑوں کا رخ کریں گے اور میدان جنگ میں اپنی سرزمین کیلئے جان دیں گے، ہماری ملاقات کے بعد حکومت سے دوبارہ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا لیکن ان مذاکرات کا مقصد زیادہ وقت لینا تھا اور نئی تیاری کرنی تھی تاکہ نواب صاحب کی جان لی جائے۔ مذاکرات چوہدری شجاعت حسین کے ذریعے ہوئے تھے، اس دوران نواب صاحب نے کافی تعاون کیا حتیٰ کہ وہ اسلام آباد جانے پر بھی تیار ہوگئے تھے، جنرل مشرف نے دنیا کو دکھانے کیلئے ایک جہاز بھیجا جو سوئی ایئرپورٹ پر اترا لیکن کافی تاخیر کی گئی اور کافی انتظار کے بعد کہا گیا کہ اندھیرا ہوگیا ہے اس لئے جہاز نہیں اڑسکتا لیکن جونہی نواب صاحب ڈیرہ روانہ ہوئے جہاں واپس چلاگیا یعنی یہ ایک سوچا سمجھا ڈرامہ تھا۔ کچھ عرصے تک حالات کا جائزہ لینے کے بعد نواب صاحب پہاڑوں پر چلے گئے لیکن وہ کہیں چھپ کر نہیں بیٹھے بلکہ ملکی وغیر ملکی میڈیا کو دستیاب تھے۔ وہ زیر زمین اس لئے نہیں ہوئے کہ وہ میدان جنگ میں کام آنا چاہتے تھے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر بلوچستان دشمن کے قبضے میں چلا جائے تو عمر کے اس حصے میں ہماری زندگیوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ بات چیت کے دوران میں نے پوچھا نواب صاحب آپ کی قربانی کے بعد لوگ اٹھ کھڑے ہونگے تو انہوں نے کہا کہ یہ لوگوں کا کام ہے، میں اپنے حصے کا کام کر جائوں گا، ہوسکتا ہے کہ ایک نئی تاریخ رقم ہوجائے یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سقوط بنگال اور سقوط میسور جیسے حالات پیدا ہوجائیں اور بلوچ معتبر سردار اور لیڈر دربار کے آگے طویل قطار لگاکر مراعات اور بخشش حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل ہوجائیں۔
نواب صاحب کی شہادت تو ایک سال بعد ہوئی جو انہوں نے کہا اور کیا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے، جو کردار سرداروں اور لیڈروں نے ادا کیا یا کررہے ہیں وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے، البتہ بلوچ عوام نے شدید ردعمل کا اظہار کیا، یہ ردعمل 17 سالوں میں ایک بڑی تحریک کا روپ دھارچکی ہے، بلوچ سرزمین کے طول وعرض میں لوگ ریاست اور اس کے معاملات سے کنارہ کش ہوگئے ہیں، انہوں نے نواب صاحب کی شہادت کو ماتم اور سوگ کے بجائے اپنی تقویت کا ذریعہ بنالیا ہے اور وہ مسلسل جدوجہد میں مصروف ہیں۔
نواب صاحب کی شہادت تو ایک مختلف تناظر میں ہوئی لیکن پاکستانی حکمرانوں نے اپنا وطیرہ تبدیل نہیں کیا۔ 1948ء میں ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت کی برطرفی سے لیکر عمران خان کی برطرفی تک ایک ہی فارمولہ آزمایا جارہا ہے۔ بھٹو نے پہلا آئین دیا اور ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی لیکن انہیں نشان عبرت بنادیا گیا، بھٹو کے بعد مقتدرہ نے نواز شریف کو تراش خراش کر سیاست کا بڑا بت بنایا لیکن پھر اپنے ہی تراشیدہ بت کو 2016ء میں پاش پاش کردیا۔ نواز شریف کے بعد عمران خان کا خوبصورت بت تراشا گیا لیکن گزشتہ سال اپریل میں اس بت کو بھی ریزہ ریزہ کردیا گیا، آج پروجیکٹ عمران خان کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن بوجوہ عمران خان عوام کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، اس حمایت کے وجود اور عدالتوں سے ریلیف کے باوجود کوشش کی جارہی ہے کہ عمران خان کو بھی درس عبرت بنادیا جائے حالانکہ حکمرانوں کو پتہ ہے کہ ایسے ڈراموں کا ماضی میں بھی کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا اور آئندہ بھی نہیں نکلے گا۔ حالات کی گھمبیرتا اور ملک کے دیوالیہ ہونے کے باوجود وہی 75 سال پرانا ڈرامہ رچایا جارہا ہے، حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ایک ارب ڈالر کے عوض آئی ایم ایف مطالبہ کررہا ہے کہ دور مار میزائلوں کی تیاری بند کی جائے۔
حکمرانوں نے اپنی ریاست کو اتنا بے توقیر کردیا ہے کہ اس کا شمار دنیا کے چند آخری پسماندہ ممالک میں ہونے لگا ہے۔ چند دن پہلے مستند عالمی اداروں نے اعلان کیا کہ انڈیا کی کل قومی دولت ساڑھے12 کھرب ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ جرمنی کی کل دولت ساڑھے 8 کھرب ڈالر رہ گئی ہے یعنی عملاً انڈیا دنیا کی چوتھی بڑی معاشی طاقت بن گیا ہے۔ اس صورتحال کے باوجود پاکستانی حکمران اور لیڈر خانہ جنگی میں مصروف ہیں، عوام ایک وقت کی روٹی کے محتاج ہوگئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر حکمرانوں کا یہی حال رہا تو ریاست کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ سنجیدہ بات سوچنے کے بجائے بلاوجہ کے ڈرامے رچائے جارہے ہیں۔ سوچنا چاہئے کہ بھٹو اور نواب صاحب کی شہادت کے واقعات سے کیا کچھ حاصل ہوا، اگرچہ نواب صاحب کی شہادت کا سب کو دکھ ہے لیکن شکر اور فخر کرنا چاہئے کہ وہ اپنے بیڈ کے بجائے اپنی سرزمین پر قربان ہوگئے اور ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے۔ انہوں نے جو قربانی دی وہ ہمیشہ قوم کی رہنمائی کا موجب بنے گی اور اس کے اثرات کبھی ختم نہیں ہونگے۔ اگر عمران خان کو ماردیا گیا تو ریاست کی وحدت پارہ پارہ ہونے کا خدشہ پیدا ہوجائے گا اور بھٹو کی موت کے بعد جو کسر رہ گئی ہے وہ پوری ہوجائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں