آخر جیت کس کی ہوگی ……..

تحریر: انور ساجدی
مینار پاکستان کے سبزہ زار پر عمران خان کا جلسہ بڑا تھا لیکن بہت بڑا نہیں تھا، یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا کہ سابقہ جلسوں کا ریکارڈ ٹوٹ جائے گا، اگرچہ حکومتی رہنما جلسہ کو فلاپ شو قرار دے رہے ہیں لیکن یہ درمیانہ تھا، نہ پی ٹی آئی کے دعوﺅں کے مطابق تھا اور نہ مکمل فلاپ شو تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ آئے دن کے جلسوں اور ریلیوں سے تنگ آچکے ہیں خاص طور پر رمضان کے دوران وہ اپنے گھروں پر رہنا پسند کرتے ہیں۔ قائد تحریک عمران خان نے پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک بلٹ پروف اور بم پروف کمرے کے اندر بیٹھ کر خطاب فرمایا۔ تقریر میں کوئی نیا نکتہ نہیں تھا، ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے انہوں نے جو نکات پیش کئے وہ بھی نئے نہیں تھے، اگر تھے تو متاثرکن نہیں تھے۔ جلسے میں خواتین کی شرکت اور رقص وآہنگ قابل دیدینی تھا۔ کافی نوجوان لڑکیاں اپنی پینٹ پر عمران خان کی تصاویر چسپاں کرکے جلسے کی رونق بڑھارہی تھیں۔
جلسے سے قطع نظر اصل بات مقتدرہ اور عمران خان کی دلچسپ لڑائی ہے جو ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پردے کے پیچھے رابطے چل رہے ہیں لیکن عمران خان کی کڑی شرائط یعنی مجھے جلد انتخابات کے ذریعے دوبارہ اقتدار میں لایا جائے کے باعث یہ ابھی تک ناکام ہیں۔ عین توقع کے مطابق عمران خان کے خلاف چند سنگین مقدمات بھی بنائے جارہے ہیں جن میں ملک دشمنی بھی شامل ہے۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ مقتدرہ کے ہاتھ اہم شواہد لگے ہیں، ان کی تفصیلات ہنوز نامعلوم ہیں۔ ٹکراﺅ کی موجودہ صورتحال میں پی ڈی ایم بیچ میں شہید ہوگئی ہے اورچلانے والوں نے ڈائریکٹ کمان سنبھال لی ہے۔ شہباز شریف چند ایک نمائشی اور کاسمیٹک اقدامات کیلئے رہ گئے ہیں جن میں مفت آٹے کی تقسیم کا ناکام ڈرامہ سرفہرست ہے۔ اس فیل ڈرامے کی وجہ سے حکومت کی خوب سبکی ہورہی ہے اور اسے لینے کے دینے پڑرہے ہیں۔ حکومت کا خیال ہے کہ شاید ایسے اقدامات سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا لیکن وہ بھول گئی ہے کہ ماضی میں کئے گئے ایسے اقدامات کی وجہ سے سابقہ حکومتیں کوئی مقبولیت حاصل نہیں کرسکی تھیں۔ قانونی محاذ پر ابھی تک حکومت کو کوئی کامیابی نہیں مل رہی ہے، ہر عدالت میں ضمانتیں ہورہی ہے، غالباً یہ رعایت جان بوجھ کر دی جارہی ہے تاکہ تصادم مزید آگے بڑھے اور جو اصل کام ہے وہ آسان ہوجائے۔ حکومتی وکلاءکی ٹیم بھی نالائقوں پر مشتمل ہے، جب پنجاب کے انتخابات کے التواءکا مقدمہ سپریم کورٹ میں چلے گا تو حکومت کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ تحریک انصاف ثابت کرنے کی کوشش کرے گی کہ انتخابات 90 روز میں نہ کرائے جانے سے حکومت آئین شکنی کا مرتکب ہوگئی ہے۔ یہ سوال بھی اٹھایا جائے گا کہ نگراں حکومت تو 90 دن کیلئے آتی تھی، اسے کیسے طول دیا جاسکتا ہے۔ تحریک انصاف کو اندرونی کمک بھی حاصل ہوگی، یہ کیس تحریک انصاف اور حکومت دونوں کیلئے زندگی اور موت کا درجہ رکھتا ہے۔ صدر علوی نے وزیراعظم شہباز شریف کو جو خط لکھا ہے وہ انہیں انتخابات کے التواءکے سلسلے میں ملوث کرنے کی کوشش ہے تاکہ بات ان پر آجائے اور وہ توہین عدالت کا مرتکب ہوکر یوسف رضا گیلانی کی طرح گھر جائیں، بالفرض محال اگر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو برخاست کردیا تو انتخابات کا انعقاد کیسے ممکن ہوگا کیونکہ نئے الیکشن کمیشن پر اتفاق رائے نہیں ہوسکے گا، اس دوران تحریک انصاف پوری دنیا میں بنیادی حقوق کا مسئلہ اٹھاکر عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرے گی جس کا اثر حکومت اور عدلیہ پر پڑے گا، یہ تو معلوم نہیں کہ عدلیہ اپنا کیا فیصلہ کرے گی لیکن چیف جسٹس اور ان کے اتحادی اپنے تئیں نئی تاریخ رقم کرنے کی کوشش کریں گے، چاہے اس کا نتیجہ منفی ہو یا مثبت، البتہ انہیں اپنے اور مخالف ججوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا جس کے نتیجے میں جو بھی فیصلے آئے وہ متفقہ نہیں ہونگے بلکہ آئندہ چل کر نئے تنازعات کو جنم دیں گے۔
یہ جو حالات ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز نے اپنے غلط فیصلوں کی وجہ سے ریاست کو طوفانوں میں دھکیل دیا ہے۔ یہ طوفان چاہے سیاسی ہو، معاشی ہو یا آئینی، انہیں حل کرنے کیلئے قابل اور اعلیٰ وجدان رکھنے والے لوگوں کی ضرورت ہے جبکہ موجودہ لاٹ میں ایسی شخصیات کی کمی ہے چنانکہ آئندہ انتخابات تک کئی حوادث جنم لے سکتے ہیں۔ ان حوادث کا کوئی بھی نتیجہ نکل سکتا ہے۔ انڈیا اور پاکستان کا یہ عالم ہے کہ دو ریٹائر میجر سیاستدانوں کو غلط مشورے دے کر حالات خراب کررہے ہیں، پاکستان کا ایک میجر لندن میں بیٹھ کر جو غلط سلط پروپیگنڈہ کررہا ہے اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جارہا ہے کہ اسے تحریک انصاف کی حمایت حاصل ہے، اس سے کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے، یہ میجر صاحب جو کچھ کررہا ہے اس کی نظیرا س سے پہلے موجود نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا بریگیڈ اور میجر عادل راجہ نے عوام کو اداروں کے خلاف کافی حد تک بھڑکایا ہے۔ شاید اس کا مقصد دباﺅ بڑھانا اور اداروں کو مجبور کرکے اپنے حق میں لانا ہے لیکن اس سے اداروں کی ساکھ اور ریاست کی وحدت کو شدید خطرات لاحق ہورہے ہیں۔
اداروں کی رائے ہے کہ ریٹائر میجر جو کچھ کررہے ہیں وہ ایک عالمی سازش کا حصہ ہے جس کا مقصد اندرونی لڑائی کو بڑھاوا دینا ہے، اس صورتحال میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا ہے جو عمران خان پر دباﺅ ڈال رہا ہے کہ وہ اپنی جنگ کو مزید واضح کریں اور کھل کر میدان میں آئیں تاکہ ہمیشہ کے لئے فیصلہ ہوجائے کہ اس ملک میں جمہوریت رہے گی یا جمہوریت کی آڑ میں ڈائریکٹ کنٹرول چلے گا۔ یہ طبقہ چاہتا ہے کہ عمران خان تمام حدود پار کرجائے لیکن خان صاحب اتنے دلیر واقع نہیں ہوئے ہیں۔ اگر وہ دلیر ہوتے تو روز موت کے خوف کا اظہار نہ کرتے اور بم پروف کمرے میں بیٹھ کر عوام سے خطاب نہ کرتے یا گھونگھٹ پہن کرعدالتوں میں نہ جاتے۔ رانا ثناءاللہ کا دعویٰ ہے کہ اگر عمران خان ایک دفعہ گرفتار ہوجائے اور چند دن مچھ جیل میں بند ہوجائیں تو وہ اتنا بڑا معافی نامہ لکھ دیں گے جو خان قیوم خان کے معافی نامے سے بھی بڑا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ حکمران یہی چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی کیس میں عمران خان کی ضمانت منسوخ ہوجائے اور نوبت گرفتاری تک آجائے۔ یہ تو ثابت ہوچکا ہے کہ عمران خان گرفتاری سے بہت ڈرتے ہیں، اب تک مزاحمت کرکے انہوں نے یہی ثابت کیا ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کا ووٹ بینک برقرار ہے اور جب بھی انتخابات ہوئے وہ مخالفین کا ناطقہ بند کردیں گے اس کی وجہ عمران خان کا کمال نہیں بلکہ مخالفین کی نااہلی ہے، جن کے پاس کوئی بیانیہ اور کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں ہے۔ ان کے پاس پروپیگنڈے کیلئے بھی کوئی مواد نہیں ہے حتیٰ کہ وہ عمران خان کی غضب کرپشن کو بھی صحیح معنوں میں عوام کے سامنے پیش کرنے میں ناکام ہیں۔ اس حوالے سے حکومتی اتحاد ریت کی دیوار ثاب ہورہا ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ آخری لڑائی کے آخری مرحلے میں ہوسکتا ہے کہ جیت مقتدرہ کی ہو کیونکہ تمام نتائج یہی بتاتے ہیں۔ آخری لڑائی کسی ضابطہ اور قانون کے مطابق نہیں لڑی جائیگی بلکہ یہ طاقت کی جیت ہوتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں