وزیراعلی بلوچستان کا واک آؤٹ

اداریہ
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے وفاقی پی ایس ڈی پی میں صوبے کو نظر اندازکرنے اور بلوچستان کے منصوبوں کو زیر التوا رکھنے کے خلاف سالانہ پلاننگ کوآرڈی نیشن کمیٹی کے اجلاس سے احتجاجاً واک آؤٹ کردیا اوراس موقع پر انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لئے جو حصہ رکھا جاتا ہے اس پربھی عملدرآمد نہیں ہوتا،صوبے کے آدھے حصے میں گیس نہیں،بجلی نہیں، سارے وسائل ہمارے ہیں 80ارب روپے کی اسکیمات میں نصف پر بھی عمل نہیں کیا گیا کوئٹہ کراچی شاہراہ کی توسیع کے منصوبے کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے جبکہ شاہراہ کے ناقص اوربعض مقامات پت انتہائی تنگ ہونے کے باعث آئے روز حادثات ہوتے ہیںمسافرمررہے ہیں۔پی ایس ڈی پی سے 162 ارب کے منصوبے نکال دیئے گئے ہیںوفاق کا رویہ غیر سنجیدہ ہے۔ وزیر اعلیٰ نے واضح الفاظ میں کہا اگر جائز حق نہ دیا گیا تو بجٹ کی منظوری میں ووٹ نہیں دیں گے۔ صوبائی وزیرخزانہ میر ظہور احمد بلیدی نے کہاہے اس وقت وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے 900ارب شیئرز ہیںجس میں سے صرف 80ارب کی لوکیشن ہوئی ہے۔اس کے بعد وزیراعظم عمران خان سے وزیراعلی جام کمال خان کی قیادت میں بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹرز اور اراکین اسمبلی نے ملاقات کی ۔وزیراعظم نے یقین دہانی کرائی ہے کہ بلوچستان کے عوام کی فلاح و بہبود اور صوبے کی سماجی اور معاشی ترقی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے جس کے لئے صوبائی حکومت کو ہر ممکن تعاون فراہم کیا جائے گا۔بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے، صوبے کو کسی طور نظر انداز نہیںکریں گے۔
واضح رہے بلوچستان کو پہلی مرتبہ نظر انداز نہیں کیا جا رہایہ روایت برسوں سے دہرائی جا رہی ہے ۔ بیوروکریسی میں پنجاب کی اکثریت ہے وہ ابھی تک پنجاب سے آگے بسنے والوں کو پاکستانی نہیں سمجھتے ، پچھلے بجٹ اٹھا کر دیکھ لئے جائیں سارے ترقیاتی منصوبوں کا رخ لاہورکی جانب نظر آتا ہے ۔اس لئے کہ بیوروکریٹس نے ریٹائر ہوکر وہیں زندگی بسر کرنی ہے۔وزیر اعظم بھی پنجاب کی مرضی کے بغیر نہیں آسکتا۔چھوٹے صوبے والا کوئی شخص کبھی کبھار وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچ جائے تو اسے کام نہیں کرنے دیتے۔سندھ سے دو سیاستدان اس عہدے تک پہنچے ایک کو تختۂ دار اور دوسرے کو قبل از وقت گھر بھیج کر مسند اقتدار پر پنجاب کے کسی شخص کو بٹھادیا جاتا رہا ہے۔اس کے نتیجے میں چھوٹے صوبوں کے ترقیاتی منصوبے حیلے بہانے التواء میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔حتّیٰ کہ سی پیک منصوبہ جو کہیں سے بھی دیکھا جائے گوادر ڈیپ سی پورٹ کے بغیر اس کی کوئی حیثیت نہیںمگر یہ بھی سارے کا سارا پنجاب میں کھپا دیا گیا ہے۔بلوچستان کو جھوٹے دلاسوں اور جھوٹی تسلیوں کے سواآج تک کچھ نہیں ملا۔گوادر شہر بھی بلند بانگ دعووں کے باوجود پینے کے پانی سے محروم ہے۔جس شہر میں پینے کا پانی دستیاب نہ ہو وہاں زندگی کیسے پروان چڑھ سکتی ہے۔ سارے ترقیاتی منصوبے فائلوں میں دفن ہیں،فنڈز کے بغیر انہیں عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔فنڈز کے اجراء پر پنجاب کے تنگ نظر بیوروکریٹس کو اختیارات حاصل ہیں۔ جو اسلام آباد سے لاہور تک دیکھنے کے عادی اور اس سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ان سے فلاح کی امید نہیںمنصوبہ سازی میں کہیں نہ کہیں کوئی بڑی خامی ہے جسے دور کئے بغیر سارے ملک کو ترقی دینا ممکن نہیں۔اس خامی کو جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ چھوٹے صوبے بھی اس خامی کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ 1973 میں موجودہ آئین بنا لیکن 1977میں معطل کردیا گیا۔سیاست دانوں نے تمام نشیب و فراز سے گزرنے اور نت نئے تجربات سے دوچار ہونے کے بعد نہایت خاموشی مگر2010میں تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت اور اتفاق رائے سے 18ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ سے منظور کرا لی ۔ اس میں آئین کے آرٹیکل160میں کی جانے والی یہ ترمیم بھی موجود ہے
جس میں طے کیا گیا ہے کہ کسی صوبے کو گزشتہ ایوارڈ میں دیئے گئے حصہ سے کم نہیں دیا جائے گا۔
تمام صوبائی حکومتوں کو یاد ہونا چاہیئے کہ یہ کرسی کتنی بھی مضبوط ہو یہ دیرپا ثابت نہیں ہوتی۔کرسی کو نہ دیکھا جائے،عوامی مفادات کو سامنے رکھا جائے۔توقع کی جا سکتی ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے واک آؤٹ اور بجٹ کی منظوری کے وقت ووٹ نہ دینے کی وارننگ کے بعدوزیر اعظم بلوچستان سے روا رکھی جانے والی ناانصافی کا ممکنہ حد تک ازالہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔لیکن یہ عارضی حل ہے کوئی مستقل فارمولہ طے کیا جائے تاکہ آئندہ بلوچستان کے فنڈز میں کٹوتی ممکن نہ رہے یا انتہائی ناگزیر حالات ہوں تو آبادی کے تناسب سے یہ کٹوتی کی جائے۔صوبہ کے فنڈز کی 50فیصد سے زیادہ اسکیمات(80ارب میں نصف سے سے زیادہ )پر عملدرآمدنہ ہونے کا راستہ بند کیا جائے۔ادھر صوبہ بھی ہردم چوکس اور چوکنا رہے مطلوبہ معلومات اوردرکار دستاویزات گبروق فراہم کی جائیں۔جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔سست روی کی عادت ترک کی جائے۔وزیر اعلیٰ ملتوی ہونے والی اسکیمات کی تحقیق کرائیں اس میں صوبائی افسران کی کوتاہی کس حد تک مددگار ثابت ہوئی ہے۔حالات تشویشناک حد تک خراب ہیں۔وفاق کی پنجاب بناؤ سوچ کو تبدیل کرانے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے احتجاج ریکارڈ کرا دیا ہے اب گیند وفاق کے کورٹ میںہے دیکھیں وہاں سے کیا جواب آتا ہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں