واہ کیا پارسائی ہے

تحریر: انور ساجدی
پشاور میں تحریک انصاف کے جلسہ کے دوران ایک شخص نگار کو توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم نے موقع پر ہی قتل کردیا۔ خدا کرے کہ سیاسی جلسوں میں ہونے والا یہ آخری واقعہ ہو۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ یہ محض آغاز ہے۔ تحریک انصاف کے معصوم اور بھولے فدائی کارکن اپنے قائد کو اشرف المخلوقات کا خطاب پہلے ہی دے چکے ہیں جبکہ انہیں زندہ پیر ولی اور قطب کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ چند دن قبل عمران خان نے کہا تھا کہ ان کی اہلیہ کو لوگ مرشد کہنے لگے ہیں۔ عمران خان کی روحانیت اور مذہب کی طرف مراجعت اس وقت سے شروع ہوئی جب انہوں نے پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا اعلان کیا۔ کئی مرتبہ جلسوں کے دوران عمران خان خود بھی توہین مذہب کا مرتکب ہوئے لیکن لوگوں نے صرف نظر کیا۔ اگر مستقبل میں وہ مذہبی شعائر جلیل القدر ہستیوں اور دیگر نازک معاملات پر گفتگو کریں گے تو ان سے کوئی بڑی غلطی بھی سرزد ہوسکتی ہے۔ خاص طور پر جب وہ اپنی مماثلت اعلیٰ ترین ہستیوں سے کریں گے۔ یہ ان کی خاص غلطی ہوگی۔ چونکہ عمران خان دین کے بارے میں زیادہ علم نہیں رکھتے اس لئے فاش اور سنگین غلطیوں کا احتمال ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کسی کی بات نہیں سنتے، کسی کا مشورہ نہیں مانتے اور جو بھی بات کرتے ہیں اپنی بات پر اڑے رہتے ہیں۔ ویسے بھی ان کے خاندانی پس منظر اور عقائد کے بارے میں کافی عرصہ سے چہ میگوئیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گمان یہی ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین دین کے بارے میں اپنے ننھیال کے بجائے اپنے والد کے خاندان کو فالو کرتے ہوں گے۔ کیونکہ ان کا ننھیال قادیانی تھا اور کئی بڑی شخصیات قادیان سے وابستہ رہی ہیں۔ یقینی طور پر خود عمران خان راسخ العقیدہ مسلمان ہوں گے لیکن معاملات اتنے سادہ نہیں ہیں۔ سردست لوگ ان کی محبت میں مبتلا ہیں لیکن اصل حقائق سامنے آنے کے بعد انہیں عوام کے سامنے اپنے مسلک اور عقائد کی صفائی دینی ہوگی، کیونکہ وہ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا رہے تھے تو ان سے لفظ ’’ خاتم النبین‘‘ ادا نہیں ہوا تھا۔ صدر کی جانب سے دو دفعہ دہرانے کے باوجود جناب عمران خان یہ مقدس لفظ ادا کرنے میں ناکام رہے ان کی ایک گفتگو کا ایک یہ کلپ موجود ہے کہ منکرین ختم نبوت دائرہ اسلام آباد سے کیسے خارج ہوسکتے ہیں ۔ عمران خان کو شکر ادا کرنا چاہئے کہ مولانا فضل الرحمن اور علامہ سعد رضوی نے ابھی تک ان کے خلاف مذہبی کارڈ استعمال نہیں کیا ورنہ ان کے لئے صورتحال ناگفتہ بہ بن سکتی تھی۔
البتہ جب سے انہیں ایک بڑے لیڈر کی حیثیت سے مقبولیت ملی ہے ان کے معتقدین پارٹی کارکن اور فالورز ان کی انسانی کمزوریوں کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جس طرح کہ وہ خود راست بازی، پاکیزگی اور پارسائی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ماننے والے ان پر سوفیصد یقین رکھتے ہیں وہ تمام تر تصویری ثبوت عالمی جرائد کے سرورق اور عمران خان کے بارے میں شائع حقائق کو بھی پروپیگنڈہ قرار دیتے ہیں حالانکہ جب وہ کرکٹر تھے اور اتوار کی ہر شب کو جوئے خانے اور کیسنوز کا رخ کرتے تھے تو وہ کسی ایشیائی کی بجائے پکے گورے معلوم ہوتے تھے۔ اور رقص و سرود اور حسن و نور کی محافل میں شرکت کرتے تھے۔ 1980 اور 1990 کی دہائیوں کے جرائد نے انہیں ’’ پلے بوائے‘‘ کا لقب دیا تھا۔ وہ پہلی مرتبہ اس وقت مسائل سے دوچار ہوئے جب امریکی اداکارہ سیتا وائٹ نے ان پر امریکی عدالت میں مقدمہ دائر کیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ عمران خان کی پارٹنر رہی ہیں جس کی وجہ سے ان کی ایک بیٹی ٹیریاں خان ہے۔ مقدمہ کے دوران وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھیں۔ اپنی وصیت میں اس نے واضح کیا کہ مقدمہ کا مقصد یہ ہے کہ ان کی بیٹی کا والد محترم موجود ہے۔ جس کا نام عمران خان ہے۔ موصوف مقدمہ کے دوران کبھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے جس کی وجہ سے ان کے خلاف یکطرفہ فیصلہ دیا گیا۔ عدالت نے سیتا وائٹ کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے قرار دیا کہ کمسن بچی کو اس کے باپ کی سپردگی میں دیا جائے تاکہ ان کی پرورش اس کے ذریعے ہو۔ ہوا یوں کہ عمران خان نے اپنی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ سے درخواست کی کہ ٹیریاں کو وہ ایڈاپٹ کرے ۔ جمائما نے یہ کام اپنے بھائی کے سپرد کردیا۔ گود لینے کے قانون کے تحت عمران خان کو ایک بیان حلفی بھیجنا پڑا کہ انہیں ٹیریان کے گود لینے پر کوئی اعتراض نہیں ہے جس کے بعد بچی جمائما کے گھر آئی اور بھائیوں قاسم اور سلیمان کے ساتھ رہنے لگی۔ تاحال وہیں پر مقیم ہے لیکن اس بڑی حقیقت کے باوجود عمران خان عوام کے سامنے یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ ٹیریان ان کی اولاد ہے۔ اس بارے میں ایک کیس اسلام آباد میں دائر ہے۔ جس کی سماعت تاخیر کا شکار ہے کیونکہ تمام عدالتوں کے جج صاحبان حیرت انگیز طور پر عمران خان کے دلدادہ ہیں ہر مقدمہ میں یکطرفہ طور پر ان کو ریلیف پر ریلیف دیتے ہیں جس کی وجہ سے عمران خان کے خلاف کوئی کیس کوئی ریفرنس اور کوئی الزام ثابت کرنا مشکل ترین کام ہے۔ مثال کے طور پر فارن فنڈنگ کیس سوفیصد ثابت ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ موصوف نے شوکت خانم کے فنڈز سرمایہ کاری کیلئے استعمال کئے۔ یہ بھی ثابت ہے کہ انہوں نے توشہ خانہ کے بیش قیمت تحائف دبئی کی مارکیٹ میں بیچ دیئے لیکن آج تک ان کا بال بھی بیکا نہ ہوسکا۔ اور وہ بدستور صادق اور امین کا ٹائٹل لئے گھوم رہے ہیں۔ انہیں یہ ٹائٹل ایک بدنام زمانہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے الاٹ کیا تھا جو ان دنوں تحریک انصاف کے ٹکٹ بیچتے نظر آرہے ہیں۔ موصوف نے بیرون ملک ڈیم کے لئے جو اربوں روپے اکٹھے کئے تھے ان کا بھی کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ اگر چہ عمران خان سردست اعلیٰ عدالتوں اور اعلیٰ اداروں میں تقسیم کی وجہ سے محفوظ ہیں لیکن حقائق تو حقائق ہوتے ہیں انہیں کب تک چھپایا جائے گا۔ حقائق کو چھپانا پاکستان کے سیاسی و غیر سیاسی اکابرین کا وطیرہ ہے۔ مثال کے طور پر میاں نواز شریف نے ایون فیلڈ کے دو فلیٹ اس وقت خریدے جب حسن اور حسین نواز اسکول اور کالج کے طالب علم تھے لیکن میاں صاحب نے یہ اثاثے چھپائے۔ کبھی اپنے کاغذات اور گوشواروں میں انہیں ظاہر نہیں کیا۔ جب پانامہ لیکس کا اسکینڈل آیا تو انہیں فلیٹوں کی ملکیت تسلیم کرنا پڑی۔ اس وقت یہ فلیٹ چار ہیں اور میاں صاحب نے سب کو اکٹھا کرکے ایک کشادہ اور پرتعیش رہائش گاہ میں ڈھالا۔ اگرچہ وہ خریداری کی منی ٹریل نہیں دے سکے تھے پھر بھی عدالتیں کیس ثابت کرنے میں ناکام رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں دبئی کے اقامہ کی وجہ سے سزا دی گئی اور نااہل کردیا گیا۔ ایم کیو ایم کے کئی ایسے رہنما ہیں جو بیرون ملک اربوں روپے کے مالک ہیں لیکن وہ کامیابی کے ساتھ اپنی دولت چھپانے میں کامیاب ہیں۔ پاکستانی ایئرفورس کے سابق سربراہ ایئر مارشل انور شمیم ریٹائرمنٹ کے بعد امریکہ میں چالیس ہزار ایکڑ زرعی فارم کے مالک نکلے لیکن کسی نے کچھ نہ پوچھا۔ بالکل اسی طرح پیپسی کمپنی پاکستان کے مالک اور جہاد افغانستان کے سرخیل جنرل اختر عبدالرحمان کے صاحبزادوں سے بھی کسی نے پوچھا کہ شہید ابا جان کھربوںکی دولت کہاں سے لائے تھے۔ 2مئی کو سانحہ ایبٹ آباد کے ذمہ دار فوجی افسر اقبال امریکہ میں سو سال پرانی شراب لاکھوں ڈالر میں خریدتے ہیں اور وائرل بھی کردیتے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ لوٹ مار کے کچھ قصے آئندہ سال افشا ہوں گے جب کچھ برگزیدہ ہستیاں پاکستان چھوڑ کر غیر ممالک میں خریدے گئے پرانے محلات میں منتقل ہوجائیں گی۔ ویسے تو بلوچستان کا کسی معاملہ میں کوئی شمار نہیں لیکن دو سال ہوئے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ بلوچسان دنیا بھر میں کرپشن کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ وہاں پر80 فیصد سرکاری بجٹ خرد برد ہوجاتا ہے۔ بلوچستان کے جن تین چار لوگوں نے بے پناہ دولت کمائی ان کی جائیدادوں کی تفصیلات بھی آئندہ سال منظر عام پر آنے کا امکان ہے۔ حال ہی میں ریکوڈک حاصل کرنے والی کمپنی بیرک گولڈ کے سربراہ نے کینیڈا میں ایک پریس کانفرنس میں واضح اشارہ دیا کہ انہوں نے آئوٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کے لئے مسٹر خان ( عمران خان) سے رجوع کیا تھا۔ جو ڈیل ہوئی ظاہر ہے وہ مخفی رہے گی تاہم جس طرح بلوچستان اسمبلی اور سپریم کورٹ نے اس ڈیل کی توثیق کی اس کا راز بھی ایک دن کھلے گا۔ بیرک گولڈ کو جس طرح کا تحفظ فراہم کیا گیا اس کی نظیر پوری دنیا میں کہیں پر بھی موجود نہیں لیکن جو ڈاکہ ڈالا گیا اس کے بارے میں عمران خان اور باجوہ سر سے سوالات پوچھے جائیں گے اور ان کی پارسائی پر انگلیاں اٹھتی رہیں گی۔