بندوق بمقابلہ بندوق

تحریر:انورساجدی
ہفتہ کی صبح 3بجے عمران خان زمان پارک پہنچے تو ان کے ہزاروں مریدین، معتقدین اور فدائی کارکنوں نے ایک ”فاتح“ کی حیثیت سے ان کا استقبال کیا۔ وہ دیوانہ وار نعرے لگا رہے تھے اور کپتان کے تمام مخالفین کو بر بھلا کہہ رہے تھے۔ ان میں سے کئی وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے لاہور کے حساس مقامات کو جلا کر خاکستر کردیا تھا۔ انٹرنیٹ کھلنے کے بعد پتہ چلا کہ پی ٹی آئی کے کارکن وسیع پیمانے پر مسلح تھے۔ انہوں نے لاہور، راولپنڈی اور پشاور میں ہر طرح کا جدید اسلحہ استعمال کیا۔ خان صاحب کی جدوجہد میں بندوق کا استعمال ”نیا عنصر“ ہے اور اس کا لازمی طورپر عسکری پہلو ہے۔
سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے ایک سو ایک فیصد ریلیف لینے کے بعد عمران خان واقعی فاتح نظر آرہے ہیں، سیاسی مخالفین اور اہم اداروں کے خلاف ان کا بیانیہ دور دور تک سرایت کرچکا ہے۔ معاشرے کا وہ طبقہ جو موجودہ سسٹم سے ناراض ہے خان صاحب کو نجات دہندہ کے طور پر دیکھ رہا ہے، خان صاحب کی گزشتہ تحریک اقتدار کے لئے تھی جبکہ موجودہ تحریک زیادہ وسیع مقاصد کیلئے ہے جس میں دوبارہ اقتدار کا حصول بھی شامل ہے۔
اپنے اعلیٰ و ارفع مقاصد کے حصول کے لئے وہ ہر حربہ آزما رہے ہیں چاہے سیاسی مخالفین کو رسوا کرنا ہو یا سیکورٹی اداروں کے خلاف مہم چلانا ہو وہ سب کچھ اچھے طریقے سے استعمال کررہے ہیں۔ مخالفین کا یہ عالم ہے کہ وہ خان صاحب کے بیانیہ کا موثر توڑ پیدا نہیں کرسکے۔ خان صاحب نے جتنی کرپشن کی وہ عوام کو باور نہیں کراسکے۔ کرونا کے 3ارب ڈالر کی عمران کی حامیوں میں تقسیم ہو یا ریکوڈک کی اربوں ڈالر کی ڈیل ہو، نالائق پی ڈی ایم کے نالائق لیڈر اپنا کوئی بیانیہ نہیں بنا سکے۔ حکومت کی سوشل میڈیا ٹیم بہت ہی ناقص ہے، اسے پروپیگنڈے کے علم کا پتہ ہی نہیں ہے۔ اس کے برعکس عمران خان اس شعبہ میں تباہ کن اثرات مرتب کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر پی ٹی آئی اے کے مشتعل کارکنوں نے جو کہ مسلح تھے لاہور کینٹ میں کور کمانڈر ہاؤس کو لوٹ کر آگ لگائی لیکن پی ٹی آئی یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہی کہ مسلح حملہ آور حکومت کے لوگ تھے تاکہ پی ٹی آئی کو بدنام کیا جاسکے، راولپنڈی میں پل کے نیچے شاید کوئی شخص ایسا ہو جس کے ہاتھ میں پستول اور بندوق نہ ہو لیکن حکومت بے بسی کے ساتھ تماشہ دیکھتی رہی، پشاور کا مشہور قلعہ بالا حصار تو باقاعدہ میدان جنگ کا منظر پیش کررہا تھا جہاں تنصیبات پر حملوں کے وقت لوگ کلاشنکوف اور کلاکوف لہرا رہے تھے اور فائرنگ بھی کررہے تھے۔ پشتونخواہ کی حکومت اس لئے غیر موثر ہے کہ وزیراعلیٰ اعظم خان برائے نام ہے وہاں کی حکومت جے یو آئی کی ہے جو پنجاب کی نگران حکومت سے بھی زیادہ غیر موثر ہے۔ اس لئے پشاور اور دیگر علاقوں میں بہت زیادہ تباہی ہوئی۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ احتجاج کا سارا رخ فوجی تنصیبات اور عمارتوں کی طرف ہوگیا تھا۔ آیا یہ محض اتفاق تھا کہ کسی کی باقاعدہ پلاننگ تھی۔ اگر اتفاق تھا تو پی ٹی آئی کے کارکن کیوں چن چن کر ان مقامات تک پہنچے اور انہیں تہس نہس کردیا۔ اس دعمل سے پی ٹی آئی کے غم و غصہ کا اظہار ہوتا ہے اور وہ جذبات سے اس لئے مغلوب ہیں کہ فوج پی ٹی آئی کو جلد کیوں اقتدارمیں نہیں لارہی ہے۔ جب عمران خان پولیس لائن اسلام آباد کے گیسٹ ہاؤس میں محو استراحت تھے تو صدر علوی نے دو گھنٹے تک انہیں سمجھایا کہ جب تک فوج نیوٹرل نہیں ہوگی آپ کو دوبارہ اقتدار نہیں مل سکتا لیکن عمران خان قائل نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ضمانتوں کا جمعہ بازار لگنے کے بعد انہوں نے پہلا بیان یہ دیا کہ میرے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس کا ذمہ دار ایک شخص ہے اور وہ آرمی چیف عاصم منیر ہے یعنی انہوں نے صلح کی کوششوں کو سبوتاژ کردیا۔ یہ عمران خان کا پرانا حربہ ہے جب کوئی اس کی بات نہیں مانتا تو وہ اس پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔ اکثر ان کا یہ حربہ کامیاب ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے اپنے ضمانتی مقدمات کی سماعت کے ایک روز پہلے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ”ان“ کا آدمی ہے، انہی سے ڈکٹیشن لیتا ہے اس بات سے گھبرا کر چیف جسٹس خود کیس سے الگ ہوگئے اور ایسے بینچ بنا دیئے جس کے جج صاحبان عمران خان کے لوگ تھے۔ وہ آرمی چیف پر تنقید کرکے انہیں اپنا ساتھی بنانا چاہتے ہیں لیکن یہ کافی مشکل کام ہے۔ عمران خان نے اپنے کارکنوں کے ہاتھوں میں بندوق دے کر ایک خطرناک مہم کا آغاز کیا ہے۔ اگرچہ عمران خان اور الطاف حسین میں بہت فرق ہے۔ الطاف کا زوال اس دن شروع ہوگیا تھا جب الطاف نے اپنے کارکنوں کو بندوق پکڑا دی تھی۔ عمران خان کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ پنجابی اکثریت انہیں نجات دہندہ سمجھتی ہے جبکہ پختونوں کو سو فیصد یقین ہے کہ عمران خان ایک سچے پختون ہیں وہ اپنی بالا دستی کا خواب عمران خان کی ذات میں دیکھتے ہیں۔ پنجاب اور پختونخواہ کے علاوہ سندھ کے شہری علاقوں اور بلوچستان کے ایک حصے میں بھی عمران خان کے ماننے والے موجود ہیں جبکہ الطاف حسین کو عوام کی اتنی وسیع حمایت حاصل نہیں تھی۔ عمران کی تبلیغ کا اثر ہے کہ جج صاحبان کی اکثریت ان کی مرید ہے جبکہ ریٹائرڈ فوجی جرنیل باجماعت ان کی حمایت کررہے ہیں۔ عمران خان اپنے خطرناک عمل سے بتا رہے ہیں کہ یا مجھے واپس اقتدار میں لاؤ یا خانہ جنگی کے لئے تیار ہوجاؤ۔ ہوسکتا ہے کہ ان کا یہ نسخہ کارگر ثابت ہو لیکن آنے والے مہینوں میں ریاست کے ساتھ بہت برا ہونے والا ہے۔ آئی ایم ایف قرضہ دینے سے انکاری ہے۔ آپسی لڑائی کی وجہ سے تمام سابق دوست ممالک انڈیا کا رخ کررہے ہیں۔ چین کے سوا کوئی موثر دوست باقی نہیں رہا۔ اگر یہی حالات رہے تو پاکستان معاشی اعتبار سے باقاعدہ طور پر دیوالیہ قرار پائے گا۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے روپیہ گر کر زمبابوے کی کرنسی جیسا بے وقعت ہوجائے گا۔ تیل اور دیگر درآمدی اشیاء کی راشن بندی کرنا پڑے گی۔ کارخانے بند ہوجائیں گے اور لوگ بڑی تعداد میں بیروزگار ہو کر عمران خان کی ٹائیگر فورس میں شامل ہوجائیں گے۔
حکومت کی نااہلی کا اس سے زیادہ ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ وہ عمران خان کے خلاف ڈھنگ کے وکیل بھی عدالتوں میں لانے سے قاصر ہے۔ جب آپ کے ساتھ قابل وکیل ہی نہیں ہیں تو آپ نے مقدمات خاک جیتنے ہیں۔ سیاسی اعتبار سے بھی اس حکومت کا کوئی حال نہیں ہے۔ اپنی ہی حکومت کے لئے مسئلہ پیدا کرنے کے لئے حکومتی اتحاد پیر کو سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا دے گا۔ اس دھرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پیر کے روز ہی سپریم کورٹ 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات نہ کروانے پر وزیراعظم اور الیکشن کمیشن کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کررہی ہے۔ پی ڈے ایم کے دھرنے کا مقصد اس نوٹس کو روکنا ہے۔ اگر چیف جسٹس اور ہم خیال بینج کے اراکین سپریم کورٹ کی بلڈنگ میں نہ آسکے تو یہ معاملہ ٹل سکتا ہے۔ اگر آگئے تو وہ دلیری کے ساتھ نوٹس جاری کریں گے۔ حکومت کو معلوم نہیں کہ بندیال صاحب کتنے بڑے جیالے ہیں وہ ہر قیمت پر شہباز شریف کو گھر بھیجیں گے۔ عین ممکن ہے کہ وہ پوری کابینہ کو ہی گھر بھیج دیں۔ حکومت کی واحد دفاعی حکمت عملی یہ ہوگی کہ کسی طرح ستمبر تک وقت گزارے۔ اگر عمران خان اور ساتھیوں کے دباؤ پر جلد انتخابات نہ ہوئے تو اس کا نقصان پی ٹی آئی کو ہی ہوگا۔ نہ صرف یہ بلکہ اسے بندوق اٹھانے کا نقصان بھی ہوگا۔ کیونکہ بندوق اٹھانے کا مطلب مکمل تبدیلی یا انقلاب لانا ہے۔ عمران خان لینن اور ماؤزے تنگ نہیں ہیں۔ ان کی تخلیق خود بندوق والوں نے کی ہے۔ لہٰذا وہ بندوق کے ذریعے انقلاب لانے کی نوبت نہیں آنے دیں گے بلکہ ان ہاتھوں کو توڑ کر رکھ دیں گے جنہوں نے بندوق اٹھانے کی جسارت کی ہے۔ پاکستان میں کبھی عوامی انقلاب کا آنا ناممکن ہے۔ کیونکہ آپ کی جنگ حق حاکمیت کے لئے نہیں کرسی کے لئے ہے۔ فائنل راؤنڈ جب آئے گا تب پتہ چلے گا کہ شکست کس کو ہوتی ہے۔ ابھی فائنل راؤنڈ آنے میں کچھ دیر باقی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں