ایک ذرا حوصلہ

تحریر: انور ساجدی
مقتدرہ اور اس کی گماشتہ حکومت نے 9مئی کے واقعات کے تناظر میں عمران خان کی گرفتاری کا فیصلہ کرلیا ہے لیکن کوئی خوف یا کوئی اور چیز مانع ہے جس کی وجہ سے ان کی گرفتاری کے معاملہ کو طول دیا جا رہا ہے ۔ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ اس وقت فوجی عدالتیں موجود نہیں ہیں۔گزشتہ فوجی عدالتیں پیپلز پارٹی کے دور میں قائم ہوئی تھیں اور اس کی منظوری پارلیمنٹ نے دی تھی۔لوگوں کو یاد ہوگا کہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد میاں رضا ربانی رو پڑے تھے اور غالباً انہوں نے استعفیٰ بھی دیا تھا۔موجودہ حالات میں ملٹری کورٹس کی منظوری کابینہ سے حاصل کی جائے گی۔آرمی ایکٹ کے تحت ان لوگوں پر مقدمات چلائے جائیں گے جن کے خلاف اس ایکٹ کے تحت مقدمات کا اندراج ہوگا اگر فوجی عدالتیں قائم نہ بھی ہوئیں تو فوج خود اپنی عدالتوں اور کور ٹ آف مارشل میں مقدمات چلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ پکی بات ہے کہ عمران خان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ تیار ہے صرف اس کا اندراج باقی ہے۔ایک اور مشکل یہ ہے کہ فوجی عدالتوں کی سزاﺅں کے خلاف متاثر افراد اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کر سکتے ہیں۔ تب تک حکومت کی کوشش ہے کہ چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان کا بندوبست کیا جائے۔ اگر قاضی فائز والا کمیشن چل پڑا تو اس کی رپورٹ کے نتیجے میں کئی جج صاحبان کے خلاف سپریم جوڈیشل کمیشن میں ریفرنس دائر ہوں گے تاکہ ان سے جان خلاصی ہو جائے ۔حکومت سمجھتی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں عمران خان کے سہولت کار اور ہمدردموجود ہیں۔ جب تک ان سے چھٹکاراحاصل نہ کیا جائے عمران خان کو سبق سکھانا مشکل ہے۔حکومت کو ایک اور خوف ہے کہ جب عمران خان پر ہاتھ ڈالا جائے تو مغرب سے ان کے لئے بڑی توانا آوازیں اٹھیں گی۔اس سلسلے میں امریکا اور کینیڈا سب سے آگے ہوں گے۔عمران خان نے اپنی معزولی سے قبل ایک جلسہ میں ایک کاغذلہرایا تھا کہ یہ سائفر ہے جو واشنگٹن میں پاکستانی سفیر اور امریکی اہل کار ڈونلڈلوکی گفتگو پر مشتمل ہے جس میں اس خواہش کا اظہار ہے کہ عمران خان کو ہٹا دیا جائے۔
عمران خان نے کئی ہفتہ اس مسئلہ کو اچھالا اور عوام کو با ور کرایا کہ امریکا ان کا مخالف ہے اور یہ ایک سازش کے ذریعے انہیں اقتدار سے ہٹاناچاہتا ہے۔ تاہم کچھ عرصے بعد جب باجوہ ریٹائر ہوگئے تو عمران خان نے پینترا بدلا اور دعویٰ کیا کہ ان کی معزولی کا منصوبہ باجوہ نے بنایا تھا۔ امریکا کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔اس کے ساتھ ہی عمران خان نے امریکا سے تعلقات ٹھیک کرنے کے لئے اور لابی کےلئے فرمز کی خدمات حاصل کرلیں جنہوں نے بھرپور کام کیا جس کی وجہ سے امریکی سفارت کاروں اور اہلکاروں نے پی ٹی آئی سے دوبارہ رابطے شروع کر دئیے۔اس دوران بعض مبصرین نے خیال ظاہر کیا کہ عمران خان جس عالمی تنظیم کے رکن ہیں یہ لوگ کبھی امریکا اور صیہونیت کے مخالف ہو ہی نہیں سکتے۔سیاست اور اقتدار کےلئے یہ لوگ ڈرامے کرتے رہتے ہیں ۔رواں سال جب عمران خان پر وزیر آباد کے مقام پر ریلی کے دوران حملہ ہوا تھا تو امریکا اور یورپی یونین کے ممالک نے اس کی سخت مذمت کی تھی اور عمران سے یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔
9 مئی کے واقعات کے بعد امریکا کے ایوان نمائندگان کے60 اراکین نے ایک خط میں جو وزیر خارجہ بلنکن کو لکھا گیا تھا اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ عمران خان کو خطرات لاحق ہیں جبکہ حکومت نے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرکے تحریک انصاف کے خلاف انتقامی کارروائیاں کر رہی ہے۔اس دوران سابق امریکی سفارت کار اور وزارت خارجہ کے تھنک ٹینک کے رکن زلمے خلیل زاد کھل کر عمران کی حمایت میں آئے ہیں۔
کوئی تین روز قبل انہوں نے ایک دن میں چار ٹوئٹ کئے انہوں نے انکشاف کیا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے سیالکوٹ میںجوانوں سے جو خطاب کیا وہ ہم نے حاصل کرلیا ۔ان کے بقول اس موقع پر آرمی چیف 9مئی کے واقعات کو لیکر انتہائی جذباتی تھے۔حالانکہ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اور ایٹمی بٹن کا اختیار آرمی چیف کے کنٹرول میں ہے ایسے ملک کے آرمی چیف کو ٹھنڈے مزاج کا ہونا چاہیے۔اگر یہ کنٹرول کسی جذباتی آدمی کے ہاتھوں میں ہو تو دنیا کا امن خطرے میں پڑ جائے گا۔زلمے خلیل زاد کا یہ بیان بہت زیادہ حد تک عمران خان کے حق میں ہے جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ ایک پاپولر لیڈر شپ کو نکال کر ایٹمی ریاست کا کنٹرول غیر محفوظ ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے۔
اگر پاکستان میں محاذ آرائی جاری رہی تو آگے چل کر زلمے خلیل زاد اور عمران خان کے عالمی سہولت کار ایٹمی پروگروام کو بنیادی مسئلہ بنا سکتے ہیں۔ امریکا کے بعد کینیڈا کے پارلیمنٹرین نے بھی پاکستان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مستقل میں اس طرح کی حمایت یورپی ممالک سے بھی آ سکتی ہے۔عمران خان جانتے ہیں کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی حمایت کے بغیر پاکستان کو دباﺅ میں نہیں لایا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان اور امریکا کی خاتون سینیٹر کی بات چیت کی جو آڈیو لیک ہوئی اس میں عمران خان مدد طلب کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ طاقتور ملٹری چیف نے ان کی حکومت ختم کی جبکہ اب ان کے خلاف سخت گیر کارروائیاں ہو رہی ہیں۔دو روز قبل ایک سابق امریکی اہل کار جان بولٹن نے بھی عمران خان سے ٹیلی فون پر بات کی تھی اس طرح عمران خان پر آرمی ایکٹ کے تحت درج ہونے والے مقدمات اور انسانی حقوق کا مسئلہ اٹھا کر حکومت کو دباﺅ میں لانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کے حامی اور سہولت کار پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف بھی پروپیگنڈا تیز کریں گے تاکہ حکومت دفاعی پوزیشن پر آ جائے۔اس کے ساتھ ہی عمران خان جو روزانہ سوشل میڈیا پر قوم سے خطاب کرتے ہیں اپنے ایک خطاب میں انہوں نے تاسف کا اظہار کیا ہے کہ نہ جانے کیوں آرمی چیف ان کے خلاف ہیں حالانکہ انہوں نے کچھ کیا ہی نہیں ہے۔یعنی وہ آرمی چیف کے رحم کے بھی طالب ہیں۔ان کے ایک ہاتھ میں بندوق اور دوسرے ہاتھ میں سیاسی چال ہے۔یہ ایک وقت میں دونوں کارڈزکا استعمال کر رہے ہیں۔بس ان کی ایک ہی رٹ ہے کہ تمام مسائل کا حل الیکشن میں ہے۔اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ ان کو کسی بھی طرح اقتدار میں لایا جائے لیکن یہ بہت مشکل کام ہے۔اگرچہ کسی لیڈر کی گرفتاری یا اس پر پابندی سے فرق نہیں پڑتا لیکن اس سے یہ ضرور ہوگا کہ وقت عمران خان کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور وہ مستقبل قریب میں برسر اقتدار نہیں آسکیں گے۔
خان صاحب بلا کے خود پرست واقع ہوئے ہیں اپنے گرفتار چار ہزارکارکنوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے درجنوں مہنگے وکیل صرف اپنے مقدمات کی پیروی کے لئے رکھے ہیں۔ان میں خواجہ حارث سرفہرست ہیں ۔وہ پانامہ کیس میں نوازشریف کے وکیل تھے لیکن فیسوں کی تنازعہ کی وجہ سے وہ عمران خان کے وکیل بن گئے۔خواجہ حارث برصغیر کے عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کے نواسہ ہیں۔ خواجہ صاحب نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور جوانی میں کمیونسٹ پارٹی انڈیا کے فعال رکن تھے لیکن حارث کو صرف پیسے کی لگن ہے اور وہ اس وقت سب سے زیادہ فیس حاصل کر رہے ہیں جو کروڑوں میں ہے۔ کارکنوں کو تنہا اور بے یار ومددگار چھوڑ کر عمران خان سنگین غلطی کر رہے ہیں ان کے اس رویہ کی وجہ سے انکے مدد گار خود کو الگ کرلیں گے۔اس دوران مقتدرہ حلقوں نے پی ٹی آئی کے لوگ توڑنے کے لئے مذاکرات شروع کر دئیے ہیں ان لوگوں میں اسد عمر،پرویز خٹک، علی زیدی اور دیگر شامل ہیں۔یقینی طور پر ان میں سے کئی لوگ تحریک انصاف سے الگ ہو جائیں گے۔
کئی برسوں تک خان صاحب اپنے مضبوط اعصاب پر نازاں رہتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ آخری گیند تک مقابلہ کی سکت رکھتے ہیں لیکن جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب انہیں اعصاب کے دباﺅ کا سامنا رہا جس کی وجہ سے وہ اپنے قائم کردہ اسپتال شوکت خانم گئے جہاں چار گھنٹے تک ڈاکٹروں نے ان کا علاج کیا ۔اس موقع پر انہیں سکون بخش ادویات بھی دی گئیں۔خان صاحب چونکہ دائیں بازو کے نظریات رکھتے ہیںاس قسم کے لوگ ہمیشہ مشکلات سے دور رہتے ہیں۔جو لوگ اس میں پھانسی اور تختہ دار پر چڑھ گئے یا انہوں نے نے فوجی آمروں کے قہر اور جبر کا مقابلہ کیا وہ روشن خیال ترقی پسند طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔عمران خان نازوں میں پلے ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی مشکل کا سامنا نہیں کیا انہیں چاہیے کہ وہ صورتحال کا مردانہ وار مقابلہ کریں۔وقت جتنا بھی سخت آخر گزر ہی جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں