سہانے سپنے

تحریر: انور ساجدی
روزنامہ جنگ 1960کی دہائی سے اب تک اردو کا سب سے بڑا اخبار رہا ہے۔ حالیہ بحرانوں نے پرنٹ میڈیا پر عمران خان کے قہر اور بعد کی حکومتوں کی مسلسل بے اعتنائی نے جہاں پرنٹ میڈیا کے چھوٹے یونٹوں کو حد درجہ متاثر کیا وہاں جنگ جیسے ادارے کو بھی آئی سی یو میں پہنچا دیا ہے۔شعبہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرنگراں حکومت طول کھینچ گئی تو پرنٹ میڈیا کی تجہیز و تکفین یا آخری رسومات اسی دور میں ادا کی جائیں گی۔حالیہ چند دنوں سے یہ افواہیں تواتر کے ساتھ گشت کرتی رہیں کہ جنگ گروپ نے اپنے اخبارات بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن جنگ انتظامیہ نے گزشتہ روز اس کی تردید کی اور یہ وضاحت بھی جاری کردی کہ ڈالر کی قدر میں بے تحاشا اضافہ نیوز پرنٹ کی قیمتوں میں ہوش ربا گرانی اور اخبارات کی مجموعی لاگت کئی گنا بڑھنے کی وجہ سے ادارے کو مشکلات کا سامنا ہے جبکہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی یلغار اور سوشل میڈیا کی بھرمار نے اخبارات کی سرکولیشن کو بے حد متاثر کیا ہے۔تاہم جنگ کے بقول اس صورت حال کا مقابلہ کیا جائے گا۔حالات بہتر ہونے کے بعد اخبارات کے صفحات میں بھی اضافہ کیا جائے گا جو حالیہ بحرانوں کی وجہ سے سکڑ گئے ہیں۔اس وضاحت سے ظاہرہوتا ہے کہ پرنٹ میڈیا اپنی بقاءکی جنگ لڑ رہا ہے لیکن حالات جو بھی ہوں پرنٹ میڈیا ”ضابطہ تحریر“ کی صورت میں ہے اور اس کی جگہ کوئی اور میڈیا نہیں لے سکتا کیونکہ سوشل میڈیا پانی کا بلبلہ ہے اور اس کا ریکارڈ رکھنا ممکن نہیں ہے۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا مادر پدرآزاد ہے اور وہ افواہ سازی دشنام طرازی اور مخالفین کی کردار کشی کا اہم ذریعہ ہے۔ اس کے برعکس پرنٹ میڈیا اب بھی خبروں کا سب سے مستند ذریعہ ہے اور وہاں پر چھان پھٹک کے بعد ہی خبریں شائع کی جاتی ہیں۔
اس تمہید سے قطع نظر اصل بات یہ ہے کہ روزنامہ جنگ اور دی نیوز کے پانامہ فیم رپورٹر عمر چیمہ نے ریکوڈک میں پاکستانی شیئرز کی سعودی عرب کو فروخت کی خبر جاری کی ہے۔روزنامہ انتخاب دو ہفتہ قبل اس خبر کی تفصیل جاری کرچکا ہے۔ریکوڈک کے 50 فیصد شیئرز کی ملکیت کینیڈا کی کمپنی بیرک گولڈ کے پاس ہیں۔ باقی پچاس فیصد حکومت پاکستان اور بلوچستان کی ملکیت ہیں۔یوں سمجھئے کہ یہ سارے شیئر مرکزی سرکار کے پاس ہیں کیونکہ مرکز میں بلوچستان کی کوئی اوقات نہیں اور نہ ہی جب یہ شیئرز سعودی عرب کو فروخت کئے جائیں تو بلوچستان حکومت انکار کی جرات کرسکتی ہے۔ویسے بھی اس وقت ایک نگراں حکومت کام کر رہی ہے جو مرکزی سرکار کی مسلط کردہ ہے اور اسے کسی بھی معاملہ پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ریکوڈک کا نصف حصہ سعودی عرب کو بیچنے کا معاملہ اگرچہ تشویشناک ہے تاہم اس کا بھیانک پہلو یہ ہے کہ اگر موجودہ حکمرانوں کو اس ڈیل کے نتیجے میں 25 ارب ڈالر کی خطیر رقم مل گئی تو سمجھو کہ آئندہ الیکشن گئے۔اگر کرانے بھی پڑے تو وہ کوئی الیکشن نہیں ہوں گے بلکہ ایسی قرعہ اندازی ہوگی جس کے ذریعے اپنے من پسند اور تابع فرمان لوگوں کو اسمبلیوں میں پہنچایا جائے گا۔اس کےلئے مرکزی حکمرانوں کو کافی جتن کرنے پڑیں گے اور اچھے خاصے پاپڑ بیلنے پڑیں گے کیونکہ حکمران اس بات کے متحمل نہیں ہوسکتے کہ مرکزاور صوبوں میں ایسی حکومتیں آئیں جو ریکوڈک ڈیل کی مخالفت کریں اگرچہ بیرک گولڈ کے ساتھ عالمی ثالثی عدالت سے باہر عمران خان اور ان کے سرپرست اعلیٰ باجوہ نے سودا طے کیا تھا اس کے باوجود اگر تحریک انصاف حکومت میں آ گئی تو سعودی عرب سے ڈیل کی راہ میں مشکلات آسکتی ہیں۔
اسی طرح اگر پیپلز پارٹی جیت کر آ گئی تو وہ بھی صورتحال ڈیل کے حق میں نہ ہوگی تاہم موجودہ جماعتوں میں سے ن لیگ واحد جماعت ہے جو دل و جان سے ریکوڈک کے سودے کی حمایت کرے گی کیونکہ میاں نوازشریف اور سعودی عرب کے درمیان طویل عرصہ سے قریبی تعلقات قائم ہیں اگر ڈیل فائنل ہوئی تو ن لیگ اس پر صدقے واری جائے گی کیونکہ25 ارب ڈالر لے کر وہ معیشت کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کر کے اس کا کریڈٹ لے گی تاہم ہمارے بڑے حکمران بھی اتنے کچے نہیں بلکہ وہ پکے کے ڈاکوﺅں سے بھی زیادہ ہوشیار ہیں۔ہوسکتا ہے کہ وہ ریکوڈک فروخت کرنے کا مال و متاع لے کر بدل جائیں اور ن لیگ کو اقتدار میں لانے کے وعدے وعید سے پھر جائیں۔
سردست تو لندن میں طویل مذاکرات کے بعد ن لیگ پھولے نہیں سما رہی ہے کہ اقتدار چوتھی بار اس کے ہاتھ لگنے والا ہے جبکہ سعودی عرب سے ملنے والے25 ارب ڈالر کا بونس بھی ساتھ ہوگا۔ اگر ن لیگ کو اقتدارمیں لانے کا فیصلہ ہوچکا ہے تو عمران خان سے اٹک جیل میں ہونے والے خفیہ مذاکرات کے کیا مقاصد ہیں۔انہی مذاکرات کے نتیجے میں ہی عمران خان کی تواضع دیسی مرغ اور دیسی گھی میں بنے مٹن کی رانوں سے کی جانے لگی کیا پتہ کہ یہ بھی کیمو فلاج ہو۔ن لیگ اور تحریک انصاف کے علاوہ آصف علی زرداری سے دبئی اور حالیہ دنوں میں لاہور میں خفیہ ملاقاتوں کا مقصد کیا ہے؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ان سب زعماءکو خوش گمانی میں مبتلا کر کے کسی اور پلان کو روبہ عمل لایا جائے کیونکہ ہمارے اعلیٰ حکمران ہر روز اپنی محفلوں میں برملا کہتے ہیں جو بھی معاشی بحران ہے وہ ان تین جماعتوں کا پیدا کردہ ہے۔لہٰذا اگر وہ ایک بار پھر حکومت میں آئے تو حالات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔لہٰذا ان کی سوچ ہے کہ کوئی اور تجربہ کیا جائے اور ان آزمودہ جماعتوں پر بھروسہ نہ کیا جائے۔
اگر متبادل نظام نہ بن سکا تو پھر یہی ہوگا کہ ان میں سے ایک جماعت کو زنجیروں سے باندھ کر اس شرط پر لایا جائے کہ وہ ظاہری طور پر حکومت ہوگی لیکن ملکی معاملات میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ حکمرانوں کے کسی اقدام کی مخالفت کریں گے۔پہلی ترجیح تو یہی ہوگی کہ نگراں حکومت کو طول دیا جائے اور اس کے لئے کوئی ایسا آئینی راستہ نکالا جائے۔اس سلسلے میں مشکل یہ ہے کہ قاضی صاحب تشریف لا چکے ہیں اور وہ آئین سے ماورا کسی اقدام کی حمایت نہیں کرسکتے۔اگر ثاقب نثارہوتے آصف سعید کھوسہ ہوتے اور جسٹس گلزار ہوتے تو پھر مسئلہ ہی نہیں تھا لیکن قاضی صاحب ایک نگراں حکومت کو منتخب حکومت کا مقام نہیں دے سکتے۔اس لئے اعلیٰ حکمران پریشان ہیں اگر سعودی عرب سے ڈیل پکی نہ ہوئی تو پھر سمجھو کہ الیکشن جنوری میں ضروری ہوں گے حالانکہ اعلیٰ حکمرانوں نے مولانا فضل الرحمن کی زبانی کہلوایا ہے کہ جنوری برف باری کا مہینہ ہے اس لئے یہ انتخابات کا درست وقت نہیں ہے۔اسی طرح ن لیگ بھی انتخابات کےلئے تیار نہیں ہے کیونکہ اسے پتہ نہیں کہ نوازشریف کے آنے کے بعد کیا ہوگا۔آیا ان کی حفاظتی ضمانت منظور ہوگی کہ نہیں اور یہ کہ جب وہ اعلیٰ عدالتوں کے سامنے سرنڈر کردیں تو ان کے مقدمات کا فیصلہ کتنے عرصہ میں ہوگا۔اگر نوازشریف نے انتخابی مہم کی قیادت نہیں کی یا تحریک انصاف کو الیکشن سے دور نہ رکھا گیا تو سمجھو کہ ”ٹھاکر تو گیﺅ“ اس لئے وہ جنوری میں انتخابات سے خوفزدہ ہے۔نوازشریف کو سرنڈر کرنے کے ساتھ ہائی کورٹ کو ایک لمبا چوڑا معافی نامہ بھی لکھ کر دینا ہوگا کیونکہ وہ دو ہفتوں کےلئے اپنے پلیٹ لیٹس کا علاج کروانے لندن گئے تھے اورچار سال لگائے لندن جا کر۔انہوں نے کوئی میڈیکل چیک اپ نہیں کروایا کیونکہ پلیٹ لیٹس کا معاملہ محض ڈرامہ تھا اور میاں صاحب پاکستان میں جیل گزارنا نہیں چاہتے تھے۔
بہرحال صورتحال واضح ہونے میں صرف3 ہفتے باقی ہیں۔اس کے بعد اونٹ اصل کروٹ بیٹھے گا۔تب تک موجودہ حکمرانوں کو یہ سہانا سپنا دیکھنے دیں کہ سعودی عرب سے اونٹوں پر لدے ہوئے25 ارب ڈالر آ رہے ہیں۔یہ جو سہانا سپنا ہے یہ اہل بلوچستان کے لئے ہی بہت ڈراﺅنا ہے کیونکہ اس کا بیش قیمت اثاثہ پاکستانی حکمران محض 25 ارب ڈالر میں فروخت کر رہے ہیں۔اگرچہ اس رقم سے پاکستان کا دائمی معاشی بحران حل نہیں ہو گا تاہم بلوچستان ہمیشہ کےلئے اپنے اس اثاثہ سے محروم ہو جائےگا لیکن معیشت دان قیصر بنگالی کے مطابق کسی اثاثہ کو بیچ کر ملک چلانا عارضی افاقہ ہے جبکہ اصل مرض اپنی جگہ موجود ہے۔اس کےلئے وسیع اصلاحات کرنا پڑیں گی۔دفاع کے غیر جنگی اخراجات کو کم کرنا پڑے گا اور برآمدات میں کئی گنا اضافہ کرنا پڑے گا جو کہ موجودہ تباہ حال ریاستی اسٹرااکچر میں ممکن نہیں ہے۔ریکوڈک کے بعد بنڈل آئی لینڈ کو فروخت کرنے کا منصوبہ ہے جس کےلئے زرداری سے گفت و شنید جاری ہے۔ہو سکتا ہے کہ زرداری اپنی جان بخشی اور سندھ حکومت کے لالچ میں اس سودے کی اجازت دیں۔ ملک ریاض کے مطابق بنڈل آئی لینڈ کے ذریعے ایک سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آسکتی ہے لیکن یہ سرمایہ کاری اس وقت مفید ہوگی جب اس سے کام لیا جائے۔اگر یار لوگوں نے اسے سی پیک کی طرح ہضم کر کے ڈکارنہ لی تو پھر کیا ہوگا؟ یہ سوچنے کی بات ہے۔