افغان حکومت کا ٹی ٹی پی کیخلاف طاقت استعمال کرنے سے انکار

کابل اسلام آباد (این این آئی) دفتر خارجہ نے افغان سفارتخانے کے نمائندے کو طلب کرکے بنوں میں 26 نومبر کو سیکیورٹی فورسز پر افغان شہری کے حملے پر سخت احتجاج کیا۔ ذرائع کے مطابق حافظ گل بہادر گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ افغان نمائندے سے واقعے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سفارتی ذرائع نے بتایا کہ واقعے میں ملوث افراد اور سہولت کاروں کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ دفتر خارجہ نے افغان نمائندے سے مطالبہ کیا کہ دہشتگردی کے مراکز اور دہشتگردوں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ ذرائع کے مطابق حکام نے کہاکہ حافظ گل بہادر کو گرفتار کر کے پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ذرائع نے بتایا کہ افغان نمائندے سے افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کےلئے استعمال کرنے سے روکنے کا مطالبہ کیا گیا۔ علاوہ ازیں افغان طالبان کی حکومت نے پاکستان سے کہا ہے وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)سے نمٹنے کیلیے متبادل طریقے تجویز کرے کیونکہ کابل نے دہشت گرد تنظیم کے خلاف طاقت کے استعمال سے صاف انکار کر دیا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی مہینوں سے کشیدگی عروج پر ہے تاہم دونوں ممالک صورتحال سے نمٹنے کیلیے مناسب چینلز کے ذریعے رابطے میں ہیں۔اس پیشرفت سے واقف ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا حالیہ رابطوں کے باوجود تعطل ختم نہیں ہو سکا کیونکہ افغان طالبان اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔اگرچہ پاکستان نے ٹی ٹی پی کو بے اثر کرنے کیلئے طاقت کے استعمال پر زور دیا ہے تاہم طالبان حکومت مسئلے سے نمٹنے کیلیے متبادل طریقے پر زور دے رہی ہے۔ذرائع کا کہنا تھا کہ افغان طالبان پاکستان کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی یہی وجہ بتا رہے تھے۔ تاہم یہ پالیسی اسلام آباد کو قابل قبول نہیں ہے۔ خیال کیا جاتا ہے افغان طالبان پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کی بحالی چاہتے ہیں۔اسلام آباد نے گزشتہ سال نومبر میں فوج کی کمان کی تبدیلی کے بعد یہ عمل ترک کر دیا ہے۔اس کے علاوہ مذاکرات کے پچھلے دور بھی مطلوبہ نتائج نہیں دے سکے کیونکہ دہشت گرد حملوں میں صرف اضافہ ہوا ۔ پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کیلئے واضح پیشگی شرط رکھی ہے، جس میں کہا گیا ہے وہ مکمل طور پر ہتھیار ڈال دے، پاکستان کے آئین اور قانون کے سامنے سرتسلیم خم کرے اور اس کے بعد ہی اسلام آباد مذاکرات پر غور کر سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں