آن لائن کلاسز ،نیٹ ہے نہ بجلی،بلوچستان کےطلبا کےمسائل حل نہ ہوسکے

ہائیرایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ملک بھر میں آن لائن کلاسز کے فیصلے کی وجہ سے طلباء وطالبات میں ایک بے چینی پیدا ہوگئی ہے ،سہولیات کے فقدان کے باعث کلاسز سے محروم جبکہ انیٹرنیٹ کنکشن سلو ہونے کی وجہ سے کچھ سمجھ میں نہ آنے سے طلباء وطالبات ذہنی مریض بنتے جارہے ہیں ،بہت سے علاقے ہیں جہاں انٹرنیٹ تودور کی بات موبائل نیٹ ورک نہیں ہے ۔
عبداللہ سلیم گوادر کے رہائشی اورجامعہ بلوچستان کے شعبہ میڈیا سٹڈیز(جرنلزم) میں زیر تعلیم ہے کہتے ہیں کہ آن لائن کلاسز کیلئے تمام تر سہولیات انٹرنیٹ ،لیپ ٹاپ یا اینڈرائڈ فون لازمی ہے گوادر میں انٹرنیٹ سہولت تو موجود ہے تاہم اس کے ذریعے وٹس ایپ پر ایک آڈیوپیغام بھیجنا انتہائی مشکل ہے تو پھر آن لائن کلاس کس طرح لیاجاسکتاہے اب کلاس کیلئے آپ کو اپنی تمام تر توجہ لیکچر پرمرکوز کرناہے لیکن انٹرنیٹ کنکشن سلو ہونے کی وجہ سے ٹیچر کی آدھی باتیں طالب علم تک پہنچ ہی نہیں پاتی ،ویڈیو بند ہوجاتی ہے یا آواز رک رک کر طالب علم تک پہنچتاہے عبداللہ سلیم کہتے ہیں کہ آن لائن کلاسز میں ایک اہم مسئلہ ٹائم کاہے 40منٹ کے کلاس میں جب ٹیچر لیکچر دیتاہے تو پھر طلباء وطالبات کے ذہن میں جو سوالات ہوتے ہیں ان کے جوابات وقت کی کمی کی وجہ سے نہیں مل پاتے جب طالب علم کو لیکچر کا سمجھ نہیں آتا تو پھر وہ کلاس صرف وقت کا ضیاع ہوتاہے وہ کہتے ہیں کہ میڈیا کے شعبے میں لازمی جز فیلڈ ورک ہوتاہے لیکن آن لائن کلاسز میں یہ مشکل ہے کیونکہ فیلڈ ورک کے تجربے کی بنیاد پر مستقبل میں آپ کو کے مواقع میسر آتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جب کاروبار کھول دئیے گئے تو پھر جامعات کیوں نہیں کھولے جا سکتے تاہم جامعات کے طلباء وطالبات کیلئے تو ایس او پیز پر عملدرآمد سب سے آسان اور ذی شعور ہوتے ہیں ۔
بلوچستان یونیورسٹی مائیکرو بائیولوجی کی طالبہ فوزیہ انیس کا یہ تیسرا سمسٹر ہے وہ کہتی ہے کہ عالمی وباء کورونا کی وجہ سے نہ صرف ملکی صورتحال گھمبیر ہے بلکہ تعلیمی سلسلہ بھی رک چکاہے تاہم حکومت وقت کی جانب سے آن لائن کلاسز کا فیصلہ تو کیا گیا مگر بلوچستان کے زمینی حقائق اس حوالے سے نظرانداز کئے گئے ہیں وہ کہتی ہے کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور انٹرنیٹ سلو ہونے کی وجہ سے پراپر طریقے سے کلاس نہیں لے پاتے لیکچر کے دوران نیٹ چلاجاتاہے یا پھر بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے تو پھر لیکچر درمیان میں رہ جاتاہے حکومت کو چاہے کہ یا تو ایک سہولت انٹرنیٹ جس کے ذریعے ہم بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی کلاس لے سکیں مہیا کیاجائے یا پھر یونیورسٹیاں کھول دی جائے تاکہ ہمارے تعلیمی سال ضائع نہ ہو۔
جامعہ بلوچستان کی کمپیوٹرسائنس کی طالبہ شازیہ رحمان کہتی ہے کہ آن لائن کلاس کے دوران انہیں بہت مشکلات کاسامنا ہے انٹرنیٹ ،لیپ ٹائپ وغیرہ کی کمی کی وجہ سے کلاس لینا دشوار ہوتاہے جبکہ دوسری جانب بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے مسائل میں مزید اضافہ ہوجاتاہے ڈی ایس ایل نیٹ کی سہولت حاصل کرنے کی سکت نہیں تاہم موبائل کے پیکجز کے ذریعے آن لائن کلاسز لینے کے دوران موبائل انٹرنیٹ سلو ہونے کی وجہ سے وہ کچھ حاصل نہیں کر پاتے جو کلاس کے دوران استاد کے لیکچر سے حاصل ہوتاہے ۔
یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے بلوچستان ضلع پسنی سے تعلق رکھنے والا طالب علم رحمان غلام اس وقت آن لائن کلاسز کیلئے لاہور ہی میں رہائش پذیر ہے وہ کہتے ہیں کہ حکومتی اعلان کے بعد میں نے سوچا کہ گھر چلا جائو تاہم یونیورسٹی کے آن لائن کلاسز کی وجہ سے وہی رہائش اختیار کی یہاں ہمارے بہت سے کلاس فیلو جو دیگر علاقوں میں رہتے تھے چلے گئے ،وہ کہتے ہیں اگر ہم اپنے علاقے جائیں بھی تو بہت سے مسائل کاسامنا ہے جس میں انٹرنیٹ ،بجلی ودیگر شامل ہے جس کی وجہ سے میں نے لاہور میں رہنے کا فیصلہ کیا ،آن لائن کلاسز اور فزیکل کلاسز میں بہت بڑا فرق ہے اس کیلئے نہ صرف طالب علم بلکہ ٹیچر کو بھی تجربہ کار ہوناچاہے مگر بدقسمتی سے یہاں ایسا نہیں ہے اور نہ ٹیچر اور طالب علم کو پتہ ہے کہ آن لائن کلاس کس طرح لیاجائے ،ان مشکلات کو دیکھتے ہوئے دل کرتاہے کہ اپنا سمسٹرفریز کرلو ہائیرایجوکیشن کمیشن کا یہ فیصلہ غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ صرف اور صرف طلباء وطالبات سے فیس وصول کرنے کا ایک طریقہ ہے اور زمینی حقائق کے برعکس ملک بھر میں یکمشت ایک فیصلہ مسلط کردیا بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ طلباء وطالبات کے ساتھ سنگین مذاق ہے وٹس ایپ کا گروپ بنایاہے کسی بھی وقت کلاسز کااعلان کیاجاسکتاہے کہ فلاں وقت پر کلاس ہوگا ٹیچرز اپنے موڈ کو دیکھتے ہوئے کلاس لیتے ہیں ہونا تو یہ چاہیے کہ ایک ٹائم ٹیبل ہو ایک پالیسی ہو کہ کس بنیاد پر پڑھایاجائے گا 11بجے کلاس ہوتا ہے لیکن ٹیچر کا موڈ بنے تو 9بجے کلاس لیتاہے جس کی وجہ سے کلاسز مس ہوجاتے ہیں اور پھر یہی ذمہ داری طلباء وطالبات پر عائد ہوتی ہے ۔ہم پڑھنے والے سٹوڈنٹ ہے جب ہم آن لائن کلاسز سے بے زار ہوگئے تو پھر وہ طالب علم جو مشکلات سے دوچار ہیں وہ کس طرح کلاسز لیںگے ۔6ماہ لاہور میں گزاردئیے وہ مجھے پتہ ہے کہ کس طرح ان مالی مشکلات کے باوجود یہاں رہائش اختیار کی ہے ۔
سرداربہادر خان وومن یونیورسٹی کے شعبہ میڈیا سٹڈیز کی نعیمہ زہری کہتی ہے کہ وہ اس وقت تیسرے سمسٹر میں ہے جس میں ٹیچرز کی جانب سے ریسرچ سجبکٹ پڑھایا جارہاہے انتہائی مشکل ہے کہ ٹیچر کے لیکچر کو آن لائن کلاس میں سمجھ سکیں جب طلباء وطالبات کو کچھ سمجھ نہیں آتا تو اس کے ذہن پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ ذہنی مریض بن جاتے ہیں ۔وہ کہتی ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر 3سے 4سو کے موبائل انٹرنیٹ کے پیکجز کرتی ہوں مگر نیٹ ورک سلو ہونے کی وجہ سے کچھ سمجھ نہیں آتا۔
ضلع مستونگ تحصیل موبی رودینی کردگاپ کے رہائشی طالب علم عاطف حمید کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے ہائیرایجوکیشن کمیشن کی جانب سے ایک ایسا فیصلہ کیاگیاہے کہ جس کیلئے میں ذہنی طورپر بالکل تیار نہیں ہوں کیونکہ میرے علاقے میں انٹرنیٹ تو دور کی بات موبائل نیٹ ورک نہیں ہے جب موبائل نیٹ ورک نہیں ہے تو پھر کس طرح میں آن لائن کلاسز لے سکتاہوں یونیورسٹی کے دوران تو ہم ہاسٹل میں رہائش اختیار کرتے تھے اب صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں اس لاک ڈائون کے دوران کہاں رہائش اختیارکیاجائے ۔پرائیویٹ ہاسٹلز بھی بندہے جب علاقے میں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں