پردہ کے پیچھے کیا ہورہا ہے؟

تحریر: انور ساجدی
رپورٹس کے مطابق پاکستان کو آئندہ تین سال میں ادائیگیوں کےلئے70 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔بظاہر یہ ایک مشکل ٹارگٹ ہے اسے حاصل کرنے کے لئے بین الاقوامی اداروں سے مزید قرضے حاصل کرنے کی ضرورت ہے جبکہ اتنی بڑی رقم کا انتظام بعض اہم ملکی اثاثوں کو بیچنے اور کچھ کو گروی رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔یہ تمام اہداف اس وقت حاصل ہوسکتے ہیں جب ملک میں ایک مستحکم سیاسی حکومت قائم ہو جبکہ آنے والے انتخابات جو8فروری کو ہونا طے ہیں کے نتیجے میں کوئی مستحکم حکومت قائم ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہی ہے۔اگر کوئی لولی لنگڑی حکومت قائم بھی ہوئی تو وہ مسلسل بحرانوں کی زد میں رہے گی جس کی وجہ سے وہ دیو نما معاشی مسئلہ کو حل کرنے سے قاصر رہے گی۔یہ بھی طے نہیں ہے کہ جو حکومت آئے گی اسے اختیارات بھی ہونگے کہ نہیں کوئی بعید نہیں کہ فراڈ الیکشن کے نتیجے میں آنے والی حکومت کو نگراں حکومت سے بھی کم اختیارات حاصل ہوں۔امکانی طور پر اس حکومت کو وسائل تلاش کرنے کا اختیار نہیں ہوگا کیونکہ فوج نے سرمایہ کاری کا ایک بڑا ادارہ بنایا ہے جو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو آنے کی دعوت دے رہا ہے۔اس طرح طویل عرصہ کے بعد زراعت پر فوکس کیا جا رہاہے یہ توجہ کسانوں کی زراعت پر نہیں ہوگی بلکہ فوج جو زمینیں حاصل کررہی ہے انہیں کارپوریٹ ایگری کلچر کےلئے بروئے کار لایا جائے گا۔چونکہ یہ طویل المدت منصوبے ہیں اس لئے فوری آمدنی تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں سعودی عرب سے ریکوڈک کے شیئرز کی خریداری کے بارے میں بات چیت ہو رہی ہے سرمایہ کاری کے بارے میں وفاق کے ایک نمائندے نے دعویٰ کیا تھا کہ معاہدے کو جنوری کے دوسرے ہفتے میں حتمی شکل دےدی جائےگی لیکن یہ مدت گزر گئی ہے اس کی وجہ مشرق وسطیٰ کے حالات ہیں۔سعودی عرب وہاں پر پھنسا ہوا ہے اور اس کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ ریڈ سی کو حوثی فورسز کے حملوں سے کیسے بچایا جائے۔البتہ متحدہ عرب امارات سے 3 ارب ڈالر کے سمجھوتوں پر دستخط ہو گئے ہیں۔ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریکوڈک کے نصف شیئرز جو مملکت پاکستان اور حکومت بلوچستان کی ملکیت ہیں وفاق بلوچستان کے حق کو سلب کر کے یکطرفہ طور پر کیسے فروخت کر سکتا ہے جس طرح کے بیرک گولڈ سے معاہدے کے وقت بلوچستا ن اسمبلی سے انگوٹھا لگوایا گیا تھا غالباً دوبارہ یہی عمل دہرایا جائے گا۔سعودی عرب اور بیرک گولڈ بہت ہی طاقت ور عناصر ہیں جس طرح چینی کمپنی سیندک کے منصوبہ سے ایک ٹکا بھی بلوچستان کو نہیں دے رہی ہے کیا بعید کہ ریکوڈک کے فریق بھی بلوچستان کواس کے حق سے محروم رکھیں۔بلوچستان یا صوبوں کا واحد سہارا 18 ویں ترمیم ہے اگر مسلم لیگ ن کو فراڈ الیکشن کے ذریعے حکومت دی گئی تو اس سے پیشگی لکھوا لیا گیا ہے کہ 18 ویں ترمیم کی اہم دفعات کو حذف کر دیا جائے گا جن میں بعض شقوں میں صوبوں کے حصص اور این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی شامل ہیں۔18ویں ترمیم مضبوط مرکز کے علمبردار عناصر کے لئے قابل قبول نہیں ہے یہ جو بلاول بھٹو اچھل کود کر رہے ہیں اس کا حاصل کچھ انتخابی پریکٹس کے سوا کچھ نہیں ہے۔جب تک بلاول کے ابا یہ لکھ کر نہیں دیں گے کہ جو مطالبات مسلم لیگ ن ماننے جا رہی ہے وہ بھی اس کے لئے تیار ہیں تو اس کے بغیر پیپلز پارٹی سے پاور شیئرنگ نہیں ہوگی۔اگر زرداری اس پر آمادہ ہوگئے تو اس کی اہمیت ن لیگ کی ہاں سے زیادہ ہوگی کیونکہ 18ویں ترمیم کی خالق پیپلز پارٹی ہے اور اس کا تعلق سندھ سے ہے۔اگر پنجاب اور سندھ دونوں رضا مند ہوگئے تو 18ویں ترمیم میں تبدیلی لانا آسان ہوگا۔سنا ہے کہ زرداری سے مذاکرات جاری ہیں ان کی تکمیل کے بعد آئندہ انتخابات میں پیپلزپارٹی کے سیاسی کردار کا تعین ہوگا۔البتہ ن لیگ کی اتحادی ایم کیو ایم تو این ایف سی ایوارڈ اور18ویں ترمیم کے مکمل خاتمہ کے حق میں ہے کیونکہ فی زمانہ مضبوط مرکز کی سب سے بڑی حامی ایم کیو ایم ہے۔وہ صوبوں کو کمزور کرنے میں اپنی عافیت سمجھتی ہے خدشہ یہ ہے کہ اگر18 ویں ترمیم کا خاتمہ ہوگیا تو معاملہ یہاں تک نہیں رکے گا کیونکہ ریاست کو چلانے والے ادارے فیڈریشن اور اس کی اکائیوں سے تنگ آچکے ہیں وہ کم و بیش واحدانی نظام لانا چاہتے ہیں اور صوبوں کی حیثیت کم کرکے انہیں ایوب خان کے ڈویژن کی سطح پر لانا چاہتے ہیں۔اگر یہ معاملات پیشگی طے ہوگئے تو یقینی طور پر انتخابات8 فروری کو ہی ہوں گے نتیجہ اس طرح ہوگا کہ بندربانٹ میں 80نشستیں مسلم لیگ ن کو دی جائیں گی زرداری کے حصے میں75-70 آئیں گی باقی سارے آزاد ہوں گے آزاد مرکز کے ڈسپلن میں رہیں گے انہی کے ذریعے حکومت سازی ہوگی۔
جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو صوبے کی تینوں قابل ذکر پارلیمانی پارٹیاں اختر مینگل کی بی این پی ڈاکٹر مالک کی نیشنل پارٹی اور محمود خان کی پشتونخوا میپ ن لیگ کی اتحادی ہیں اگر نوازشریف حکومت میں آئے اور انہوں نے18ویں ترمیم کے خاتمہ کا فیصلہ کیا تو ان جماعتوں کا کیا وزن ہوگا ان کی رائے اور فیصلہ کیا ہوگا یہ تو وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا۔اسی طرح مولانا صاحب جن کی پوزیشن بلوچستان میں کافی بہتر اور پختونخوا میں کمزور ہے وہ ن لیگ کی دیرینہ اتحادی ہیں۔ان کی بلا سے وحدانی نظام ہو یا پارلیمانی نظام انہیں جہاں بھی جس طرح بھی اقتدار میں حصہ ملے انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن باالفرض محال فیڈریشن کی ہیئت کو تبدیل کر دیا گیا تو نئے بحران سر اٹھائیں گے معاشی مسائل بڑھ جائیں گے عوام میں نااتفاقی زیادہ ہوگی جس کا بوجھ بالآخر ریاست برداشت نہیں کر سکے گی۔
استاد محترم افراسیاب خٹک کا دعویٰ ہے کہ ریاست کو چلانے کےلئے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے نام پر جلد ایک اور جنگ شروع کی جائے گی تاکہ معیشت کو جنگ کے فوائد سے آراستہ کیا جا سکے۔امکانی طور پر یہ جنگ پختونخوا میں شروع کی جائے گی اور عین ممکن ہے کہ افغانستان بھی اس میں ملوث ہو جائے کیونکہ اس کے بغیر امریکہ اوراس کے اتحادی ڈالر نہیں دیں گے۔افراسیاب خٹک نے پریس کلب اسلام آباد کے باہر ماہ رنگ بلوچ کے کیمپ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کی پرانی پالیسیاں زیادہ دیر نہیں چلیں گی۔ پشتونوں اور بلوچوں کو موجودہ پالیسی کے تحت زیادہ عرصہ غلام نہیں رکھا جا سکتا۔استاد کا یہ کہنا دراصل بذات خود ایک اعلان جنگ ہے۔پروفیسر منظور بلوچ جو آج کل بہت ہی تلخ سچ بولتے ہیں انہوں نے بلوچ اور پشتون قوم پرستوں کی خود احتسابی پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ نواب خیر بخش کے سوا سارے لیڈروں نے ماضی میں بہت غلطیاں کیں ان کے فیصلوں کی وجہ سے بلوچ قوم آج کا دن دیکھ رہی ہے۔ایسے وقت میں جبکہ بلوچ قومی تحریک ایک اہم مرحلے میں داخل ہوگئی ہے پروفیسر منظور کی بات غور فکر کی متقاضی ہے۔
1969 میں جب ون یونٹ توڑ کر صوبے بحال کئے جا رہے تھے تو نیپ کی بلوچ اور پشتون قیادت نے نامکمل صوبے قبول کئے انہوں نے جیکب آباد اور ڈیرہ غازی خان کو بخش دیا جبکہ میانوالی کو بھی پنجاب میں رہنے دیا یہ دراصل ایک بڑی سیاسی غلطی تھی جسے عظیم بے وفائی(گریٹ بٹرے)کا نام دیا جا سکتا ہے۔چونکہ یہ فیصلہ عظیم بلوچ ہستیوں نے کیا اس لئے ان کی عظمت کے پیش نظر لوگ چپ رہے لیکن تاریخ بے رحم ہوتی ہے اور وہ کسی کو معاف نہیں کرتی۔لہٰذا وقت آگیا ہے کہ اس موضوع پر بحث کی جائے اور ان کوتاہیوں کا احاطہ کیا جائے جو اپنے وقت کے عظیم لیڈروں سے سرزد ہوئیں۔فیڈریشن کو ماننے اور پارلیمانی سیاست کا فیصلہ انہی ہستیوں نے کیا تھا۔اس سلسلے میں بلوچ قوم منقسم ہے اوراس میں دو رائے پائی جاتی ہیں۔ڈاکٹر مالک کا دعویٰ ہے کہ وہ میرغوث بخش بزنجو کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اس لئے وہ پارلیمانی سیاست کے ذریعے پرامن طریقے سے اپنے حقوق کے حصول میں یقین رکھتے ہیں۔اسی طرح سردار عطاءاللہ مینگل کے سیاسی وارث سردار اختر مینگل بھی جو کافی عرصہ سے پارلیمانی سیاست میں سرگرم عمل ہیں لیکن2006 میں ریاست کے ہاتھوں نواب صاحب کی شہادت اور بعدازاں واجہ غلام محمد بلوچ کی المناک موت نے بلوچ سیاست کو یکسر تبدیل کر دیا۔اس کے نتیجے میں نوجوانوں نے اپنا راستہ الگ کرلیا۔بادی النظر میں ایسا نظر آ رہا ہے کہ بلوچ عوام کی اکثریت حالیہ بلوچ تحریک کے ساتھ ہے۔قومی تحریک کے نئے مرحلے میں انسانی حقوق کی بنیاد پر جدوجہد شروع کی گئی ہے جو ریاست کو کسی صورت قبول نہیں ہے لیکن یہ تحریک کوئی معمولی تحریک نہیں ہے۔بال حکمرانوں کے کورٹ میں ہے آیا وہ قومی حقوق پرامن طریقے سے دینے کے لئے تیار ہیں یا اس کا واحد آپشن طاقت کا استعمال ہے۔ماہ رنگ بلوچ نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام مظلوم اقوام کی کانفرنس میں ایک نیا لائحہ عمل دیاہے اور پاکستان کے تمام مظلوم عوام کو ایک پلیٹ فارم بنانے اور ان کے قائم کردہ پلیٹ فارم میں آنے کی دعوت دی ہے۔بظاہر تو ریاست اسے بچوں کی سی بات سمجھتی ہے اور اس پر توجہ دینے کے لئے تیار نہیں ہے لیکن ماہ رنگ کے سنجیدہ چارٹر کو نظرانداز کرنا اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ حالیہ تحریک کو نہ صرف بلوچستان کے عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے بلکہ پشتون اور سندھی مظلوم بھی ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ حکمرانوں کی غلط پالیسی سے یہ نظام کے خلاف ایک ملک گیر بغاوت ثابت ہو جائے اگر سیاست دانوں میں کوئی اہل شخص موجود ہوتا تو وہ اسٹیٹس کو کے خلاف عوام کو اٹھاتا لیکن بدقسمتی سے بیشتر سیاست دان اسٹیٹس کو کے حامی ہیں۔جس کا مطلب پاکستان کے مظلوم عوام کو مزید زیردست رکھ کر ان کا استحصال جاری رکھنا ہے۔جلد یا بدیر اس نظام کے خلاف بغاوت کا علم بلند ہونا ہے اور ضرور ہوگا۔اگر ایسا ہوا تو یہ ریاست کی سلامتی اور یکجہتی کے لئے قطعاً اچھا نہ ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں