بی ایم سی، کالج کو یونیورسٹی بنانے کے وقت ایکٹ کو چھپایا گیا،تحریک بحالی

کوئٹہ:تحریک بحالی بی ایم سی کے احتجاجی کیمپ سے تحریک کے چیئرمین عبداللہ صافی، وائس چیئرمین ڈاکٹر الیاس بلوچ اور صدر ایپکا بی ایم سی یونٹ سید عبدالباسط شاہ نے خطاب کرتے ہوے کہا ہے کہ میڈیکل یونیورسٹی کا قیام میڈیکل کی تعلیم و ترقی کے لیے کس قدر ناگزیر ہے یہ ہم سے بہتر کوئی نہیں جانتا ہے۔ یونیورسٹی کا قیام خوش آئند اقدام ہے جہاں میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم کے لیے صوبے ہی میں مواقع میسر ہوں گے اسی طرح طرح صوبے میں میڈیکل کے شعبے میں میں تحقیقی کام کا منظم آغاز بھی کیا جاسکے گا۔ اس کے علاوہ میڈیکل کے امتحانات کا انعقاد کرانا ایک میڈیکل یونیورسٹی کی ذمہ داریاں ہیں بلوچستان میں صوبے کی پہلی میڈیکل یونیورسٹی کے قیام کے حوالے سے صوبائی اسمبلی نے BUMHSایکٹ 2017دسمبر میں پاس کر کے یونیورسٹی کے قیام کی منظوری دی گئی جس پر صوبے بھر بھر میں خاص کر بولان میڈیکل کالج کے ملازمین نے سراہا۔ مگر بدقسمتی کہیں یا بد دیانتی کے ایکٹ بناتے وقت ملازمین کو اعتماد میں نہیں لیا گیا بلکہ اس ایکٹ کو چھپایا گیا۔ اگست 2018کو ادارے میں وائس چانسلر تعینات کیا گیا۔ اپریل 2019کو ایکٹ عملی طور پر نافذ العمل ہوا۔ میڈیکل کالج صوبائی حکومت کے زیر انتظام ادارہ تھا جسے خود مختار ادارے کے زیرانتظام دے دیا گیا حقائق سامنے آئے جیسا کہ میڈیکل کالج کے کل ملازمین کی تعداد1414,ہے تقریباٰ جن میں چھ سو کے قریب نان ڈاکٹرز ہیں کوئٹہ شہر کے تمام تدریسی ہسپتالوں میں بی ایم سی کے ملازمین اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ان میں بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال،سول سنڈیمن ہسپتال،فاطمہ جناح ٹی بی سی نیٹوریم،ہلیپرز آئی ہسپتال، ریجنل بلڈ سنٹر، تھیلیسیما سنٹر وغیرہ شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملازمین کی موجودہ تعداد ایک میڈیکل کالج کے امور کو بہ طریق احسن چلانے کے لیے ناکافی ہے۔ دوسرے صوبوں میں یہ تعداد تین تا چار ہزار تک ہے کو یونیورسٹی میں ٹرانسفر کیا گیا۔جوکہ پاکستان کے سروس رولز کی سنگین خلاف ورزی ہے دوم ایکٹ میں اٹھارویں ترمیم کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے جیسا کہ یونیورسٹی کو صوبائی حکومت کے زیر انتظام ہونا چاہئے نہ کہ گورنر کے۔آئین و قانون کے مطابق کسی بھی سرکاری ملازم کو خودمختار یا کسی بھی دوسرے ادارے میں نہیں ان کی مرضی کے خلاف نہیں بھیجا جا سکتا ہے۔ بولان میڈیکل کالج ایک قدیم اور کامیاب ادارہ ہے یہاں ہر سال تقریباً تیس سے چالیس ملازمین ریٹائر ہورہے ہیں اور یونیورسٹی کے پاس ان کے واجبات کی ادائیگی کے لیے فنڈز نہیں ہے۔ اسی طرح میڈیکل کالج کی داخلہ پالیسی سکالرشپ فیس کے مسائل فرد واحد کی منشاء پر ہونا سینٹ، سنیڈیکٹ سے دھوکہ دہی کے ذریعے منظوری لینا جس کاثبوت خود یونیورسٹی کے سینٹ کے ممبر زمرک اچکزی ہیں جھنوں نے فیس کے کئی گناہ اضافہ پر اجلاس میں کہا کہ ہمیں غلط بریف کیا گیا ہے فیس بڑھانے کی منظوری میں دستخط لیتے ہوئے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اس سے قبل بھی دیگر صوبوں میں اسی طرح کے مسائل سامنے آئے ہیں ِیبر میڈیکل کالج کو خیبر میڈیکل یونورسٹی کا حصہ بناتے وقت اور علامہ اقبال میڈیکل لالج کو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کا حصہ بناتے ہوئے ہوا۔ وہاں پر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے نئے میڈیکل کالج یونیورسٹیز کو دیے گئے،کوہاٹ میڈیکل کالج اور گجرانوالہ میڈیکل کالج جب کہ یونیورسٹیاں صوبائی دارلخلافہ میں آئے اور اپنے تمام امور بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔ صوبوں کے بنیادی میڈیکل کالجز صوبوں کے اثاثہ جات ہیں۔ بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز انتظامیہ ایک طرف فنڈ نہ ہونے کا رونا رو رہی ہے اور دوسری طرف کنٹریکٹ پر بھاری تنخواوں کے عوض ملازمین کی بھرتی کیے جارہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ یونیورسٹی نے اب تک اعلیٰ تعلیم اور امتحانات کے حوالے سے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ایچ ای سی کے قوانین کے مطابق یونیورسٹی کی بلڈنگ پانچ سو ایکڑ زمین پر تعمیر ہونی چاہیے اور ہر ملازم کے جاب ڈسکرپشن جاری ہونے چاہیے۔ صوبے کے بنیادی اور بہترین میڈیکل کالج کی داخلہ پالیسی حکومت بلوچستان کے پاس ہونی چاہے نہ کہ فرد واحد کے پاس۔ جو اپنی خوائش کے مطابق خالی سیٹوں کو کے بجائے اوپن میرٹ پر دینا جیسا ظلم نہ کرتااور نہ ہی طلباء کی سکالرشپ کی بندش ہوتی اور نہ ہی فیس میں کئی گناہ اضافہ کیا جاتا۔اسی طرح سلف فنانس کی سیٹوں کا اجرا نجی کاری کی طرف ایک اور قدم یے اور غریب محنتی طلباء کا استحصال ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں