چمن سرحد پر آمدورفت کے لیے مکمل طور پر پاسپورٹ کا نظام رائج کرنا ممکن نہیں،اصغر اچکزئی

کوئٹہ:عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر وصوبائی صدر اصغرخان اچکزئی نے کہاہے کہ پاک افغان چمن سرحد پر آمدورفت کے لیے مکمل طور پر پاسپورٹ کا نظام رائج کرنا ممکن نہیں،سرحدی کاروبار سے قلعہ عبداللہ کے 20 سے 25 ہزار خاندانوں کا براہ راست روزگار وابستہ ہے،کوئٹہ سمیت صوبے کی معیشت کا بڑا حصہ سرحدی تجارت پر انحصارکرتا ہے بلکہ چمن کی تو تقریبا 98فیصد آبادی کا ذریعہ معاش یہی سرحد ہے، اسلام آباد یا کوئٹہ میں بیٹھ کر ہزاروں لاکھوں لوگوں کا روزگار چھیننے اورچمن سرحد سے متعلق سخت فیصلے دانشمندانہ ثابت نہیں ہوں گے بلکہ اس بلوچستان کے پشتون علاقوں میں بھی بلوچ علاقوں جیسے حالات پیدا ہوں گے،بے روزگاری بڑھی تودشمن قوتیں بے روزگار نوجوانوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکتی ہیں۔ان خیالات کااظہار انہوں نے غیر ملکی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ سرحدی مسئلے پر بنائی گئی حکومتی کمیٹی کے رکن اورچمن سے منتخب رکن بلوچستان اسمبلی عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ پاک افغان چمن سرحد پر آمدورفت کے لیے مکمل طور پر پاسپورٹ کا نظام رائج کرنا ممکن نہیں۔سرحد پر روزانہ 20 سے 25 ہزار افراد کا آنا جانا ہوتا ہے جن میں سے بیشتر وہ پاکستانی باشندے اور تاجر ہیں جو صبح چمن سے جا کر افغان سرحدی شہر ویش اور سپین بولدک میں کاروبار کرتے ہیں اور شام کو واپس آتے ہیں۔ اس سرحدی کاروبار سے قلعہ عبداللہ کے 20 سے 25 ہزار خاندانوں کا براہ راست روزگار وابستہ ہے۔ کوئٹہ سمیت صوبے کی معیشت کا بڑا حصہ بھی اس پر انحصارکرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قلعہ عبداللہ کے شہر چمن کی تو تقریبا 98فیصد آبادی کا ذریعہ معاش یہی سرحد ہے کیونکہ چمن میں ایک بھی انڈسٹری یا کارخانہ نہیں۔ باقی علاقوں کی طرح یہاں زراعت بھی بالکل نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد یا کوئٹہ میں بیٹھ کر ہزاروں لاکھوں لوگوں کا روزگار چھیننے اورچمن سرحد سے متعلق سخت فیصلے دانشمندانہ ثابت نہیں ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں بلوچستان کے پشتون علاقوں میں بھی بلوچ علاقوں جیسے حالات پیدا ہوں گے۔ بے روزگاری بڑھی تودشمن قوتیں بے روزگار نوجوانوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکتی ہیں۔ اصغر خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ سرحد کے دونوں طرف ایک ہی قوم، زبان اور مذہب کے لوگ آباد ہیں جن کے سرحد کے دونوں جانب رشتے اور جائیدادیں ہیں۔میری اپنی زمین پاکستانی ریکارڈ میں موجود ہے مگر وہ سرحد کے دوسری جانب واقع ہے۔ تقسیم پاکستان سے قبل اور اس کے بعد بھی سرحدی علاقوں کی آمدورفت پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی۔ اب قدغنیں لگائی گئی تو اس کے انتہائی سنگین نتائج سامنے آئیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد چمن کے باب دوستی گیٹ کے ذریعے ہر قسم کی آمدورفت بھی فورسز کی نگرانی میں ہوتی ہے۔ دہشت گردی اور تخریب کاری کی سوچ رکھنے والے اس طرح فورسز کی موجودگی میں سرحد عبور نہیں کرتے وہ غیر روایتی راستوں سے جاتے ہیں۔ضلع قلعہ عبداللہ کی تقریبادو سو کلومیٹر سرحد افغانستان سے لگتی ہے جس پر ہر چار سے پانچ کلومیٹر پر فورسز کی چیک پوسٹیں موجود ہیں اور اب تو آہنی باڑ بھی لگائی گئی ہے وہاں سے بھی کسی کا آنا جانا اب آسان نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں