120نیب کورٹس بارے چیف جسٹس پاکستان کا اہم حکم

اداریہ
نیب کا ادارہ پرویز مشرف کے دور میں قائم ہوا۔پلی بارگین پر کثرت استعمال کے حوالے سے نیب کی ساکھ متأثر ہوئی نہ اس کی کارکردگی پر بھی اثر پڑامسلم لیگ نون کے دور میں یہاں تک دیکھا گیا کہ وزیر اعظم نواز شریف کی زبانی ہدایت پر نیب نے شریفوں کے خلاف کارروائی کا ارادہ ترک کر دیا۔ سابق چیئرمین نیب نے پر کاٹنے اور ناخن تراشنے کی دھمکیاں ملنے کے بعد مصلحتاًخاموشی اختیار کر لی۔ان کے جانشین چیئرمین نیب جسٹس(ر)جاوید اقبال کی تمام تر کوششوں کے باوجودنیب کی کارکردگی معیار کی اس بلندی کو نہ چھو سکی جس کے بارے میں چیئرمین نیب نے ایک سے زائد مرتبہ میڈیا کے روبرو اعلان کیا تھا۔حالانکہ عدلیہ کی شناخت ہی یہ بتائی جاتی ہے کہ ”ججز نہیں بولتے ان کے فیصلے بولتے ہیں“۔تاہم ان کے دور میں شریف فیملی کے نمایاں افراداپنے خلاف نیب کے پاس ٹھوس شواہد دیکھنے کے بعدبیرونِ ملک فرار ہوگئے اور کیسز انجام تک نہیں پہنچ سکے۔ مایوس کن سست روی کا شکار ہیں۔اس صورت حال پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے اگلے روز سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا کہ ایک ہفتے کے اندر 120نئی احتساب عدالتوں میں ججز کی تعناتی کی جائے اور مقدمات کا فیصلہ 90روز میں سنایا جائے۔ انہوں اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ 20،20سال ہوچکے کرپشن کے مقدمات کے فیصلے نہیں ہوتے۔ 5عدالتیں خالی پڑی ہیں جہاں 1226 کیسز التواء کا شکار ہیں۔ زیر التواء مقدمات میں تاخیراور خالی اسامیوں پر بھرتی نہ کرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔اگر عدالتوں کو خالی رکھنا ہے تو احتساب کے قانون کا بظاہر مقصد فوت ہو جاتا ہے۔روز بروز احتساب کیسز کو فائل کیا جا رہا ہے جبکہ عدالتوں کی تعداد جمود کا شکا ر ہے۔
وزیراعظم عمران خان جب بھی میڈیا یا پارلیمنٹ کے سامنے خطاب کرتے ہیں۔نیب کیسز کے حوالے سے ایک جملہ ضرور آجاتا ہے کہ”ہم نے نیب میں کوئی بھرتی نہیں کی نہ ہی ہم نے اپوزیشن کے خلاف کیسز بنوائے ہیں جو کچھ ہو رہا ہے یہ ان کے اپنے دور کے مقدمات ہیں“۔ایسا کہتے وقت انہیں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ جب عدالتوں میں ججز نہیں ہوں گے۔1226کیسز کی سماعت نہیں ہوگی تو کرپشن کا خاتمہ کیسے ممکن ہوگا؟اس کے معنے چیف جسٹس پاکستان کے الفاظ میں صرف اور صرف یہی ہو سکتے ہیں کہ زیر التواء مقدمات کی سماعت میں ایک صدی لگ جائے گی۔موجودہ وزیر اعظم کا دعویٰ ہے کہ ان کی پارٹی کا نام پاکستان تحریک انصاف ہونے سے اس عزم کا اظہار ہوتا ہے کہ پارٹی کا موٹو ہی ملک میں انصاف کو پروموٹ کرنا ہے۔لیکن ان کے اپنے اقتدار کے دو سال میں 5احتساب عدالتوں میں ججز کی تقرری نہ ہونا اس دعوے کی نفی ہے۔اگر چیف جسٹس پاکستان اپنے صوبدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے 100سے زائد نئی احتساب عدالتیں قائم کرنے کا حکم صادر نہ کرتے تویہی ہونا تھا کہ 3سال مزید گزرجاتے اور احتساب کا عمل چیونٹی کی رفتار سے چل رہا ہوتا اور مقدمات کے ملزمان اپنا دعویٰ کرنے میں سچے سمجھے جاتے کہ ان پرجھوٹے الزامات لگائے گئے تھے۔ ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔حالانکہ کے ان اثاثے چیخ چیخ کر اعلان کر رہے ہیں کہ ہماری طرف دیکھو۔ہم ہیں ان ملزمان کی کرپشن کے منہ بولتے شواہد۔ان کے اقامے جس ملازمت کی بناء پر جاری ہوئے اس ملازمت پر ایک دن بھی انہوں نے کام ہی نہیں کیا۔اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے۔اس لئے کہ کوئی کام محض اس بنیاد پر درست نہیں قرار دیا جاستا کہ ملزم نے اس کا ذکر اپنی کسی دستاویز میں کر دیا تھا۔عام آدمی کو چھوڑ دیں۔اس کی قانونی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔مگر ملک کے نامور وکلاء آج تکاس عدالتی فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں کہ مقدمہ پانامہ کی بے نامی جائیداد کا تھا مگر سزا اقامے پر سنائی گئی ہے۔ملزمان لندن کی اسی متنازعہ جائیداد میں پورے ٹھاٹ باٹ سے رہ رہے ہیں۔قانون میں کہیں نہ کہیں سقم موجود ہے،اسے دور کیا جائے۔ بلکہ ایک وکیل نے معزز عدالت کے روبرو کہا ہے کہ اس فیصلے کو عالمی سطح پر نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔
جرائم کے خاتمے کے لئے قانون سازی پارلیمنٹ کے فرائض اور اختیارات میں شامل ہے۔عدلیہ کا کام قانون کے مطابق ملزمان کو سزا دینا ہے۔یہ کام اس وقت تیز رفتاری سے ممکن ہے جب قانون کی زبان سادہ، آسان اور ابہام سے پاک ہو۔مجرم کے بچنے کے امکانات کم سے کم ہوں۔اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ اور بشرطیکہ کااستعمال نہ کیا جائے۔دو اور دو چار کی طرح فارمولہ وضع کیا جائے۔ ملزم سے ہاں یا ناں میں جواب مانگا جائے۔کہانیاں سنانے کی اجازت نہ دی جائے۔جس جائیداد میں کوئی شخص رہائش پذیر ہے اس سے پوچھا جائے:
پہلا سوال: ”آپ یہاں کس حیثیت میں رہ رہے ہیں؟
جواب ہوگا:”مالک یا کرایہ دار ہوں“ جو حیثیت بتائے اس کی قانونی دستاویز ات مانگ لی جائیں۔کرایہ دار ہونے کی صورت میں اس کرایہ نامہ میں درج مالک جائیداد ملکیت کی دستاویزات پیش کرنے کا پابند ہو، فراہم کردے تو:
دوسراسوال پوچھا جائے:”یہ جائیداد اس نے کیسے خریدی؟“ جائز ذرائع آمدنی بتا دے،اس کا دعویٰ درست ورنہ جائیداد بحقِ سرکار ضبط کر لی جائے۔
تیسرے سوال کی نہ ضرورت ہے اور نہ ہی اس بحث کو نسیم حجازی کے تاریخی ناول میں ڈھالنے کی اجازت دی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں