گوادر کو کس نے ناکام کیا؟

تحریر: انور ساجدی
نام نہاد سی پیک کے میگا سٹی گوادر کے فیل ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟ یہ بلوچستان کا بچہ بچہ جانتا ہے لیکن حکمرانوں نے ساری دنیا میں گوادر کی جو جعلی تصویر پیش کی اوورسیز پاکستانیوں نے بلڈرز کے جھانسے میں آکر گوادر کے پلاٹوں پر کھربوں روپے کی سرمایہ کاری کی۔چند سال پہلے جب آپ راولپنڈی کینٹ اور صدر کے علاقے میں جاتے تھے تو وہاں پر سینکڑوں ایسے پینا فلیکس اور بورڈ تھے جن پر گوادر کو دبئی، سنگاپور اور شنگھائی کے برابر شہرکی حیثیت سے ظاہر کیا گیا تھا۔مشرف دور کے وزیراعظم شوکت عزیز نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ گوادر ہمارا انٹرنیشنل فنانس ایکسچینج ہے اس لئے وہاں پر جو کچھ ہو اس کے بارے میں منفی پروپیگنڈا نہیں کرنا چاہیے۔اس دن سے آج تک برسوں بیت گئے گوادر کی واحد ترقی ایک سڑک” میرین ڈرائیو“ ہے جوحالیہ بارشوں میں باقی سڑکوں کی طرح ڈوب گئی جبکہ ایک اور دلکش پروجیکٹ ایک کرکٹ اسٹیڈیم ہے جس کی عالمی تشہیر کی گئی غالباً اس اسٹیڈیم کا حال بھی میرین ڈرائیو جیسا ہوگا اور یہ بھی زیرآب آیا ہوگا۔چار دن ہوئے گوادر اور مکران کے دیگر علاقے طوفانی بارشوں کی زد میں ہیں لیکن پی ڈی ایم اے نے شہر کوبچانے اور گھروں کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔نتیجہ یہ ہے کہ گوادر ہولناک منظر پیش کر رہا ہے۔ عام لوگوں کے گھر سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ بجلی بند ہے۔راستے بند ہیں۔مارکیٹیںبند ہیں جس کی وجہ سے وہاں پر بھوک افلاس اور بے چارگی کا راج ہے۔ 48گھنٹوں تک لوگوں کے لئے کوئی ریلیف ورک نہیں کیا گیا۔چھوٹے چھوٹے بچے کھانا اور دودھ کے لئے بلبلا رہے ہیں۔وہاں پر پاکستان کے باقی شہروں کی طرح این جی اوز بھی سرگرم نہیں ہیں۔وہاں پر صوبائی اسمبلی کی سیٹ جماعت اسلامی جیت گئی ہے لیکن اس جماعت کی الخدمت ابھی تک وہاں پر نہیں پہنچی ہے۔یہ کڑا وقت تو گزر جائے گا لیکن تلخ یادیں باقی رہ جائیں گی۔
گوادر کا منصوبہ کیا تھا اور کیا ہوگا یہ نوشتہ دیوار ہے۔جنرل مشرف نے پورٹ بنایا اورمنت سماجت کر کے سنگاپور کے حوالے کردیا لیکن کسی قسم کی سہولتیں موجود نہیں تھیں تو پورٹ نے کیا چلنا تھا۔بعدازاں پورٹ کا بوجھ چین پر ڈال دیا گیا۔پورٹ کی تعمیر بھی اسی نے کی تھی غلطی یہ ہوگئی کہ چین نے قرون وسطیٰ کا پورٹ سمجھ کر اس کی ناقص تعمیر کی۔بڑا شورمچایا گیا کہ گوادر سی پیک کا جھومر ہے۔پورٹ چین نے بنایا۔سی پیک بھی اس کا منصوبہ ہے لہٰذا یہ منصوبے بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھیں گے تاوقتیکہ یہ پورٹ دبئی اور دیگر علاقائی بندرگاہوں کو چیلنج کرےگا لیکن زمینی حقائق کچھ اور دکھائی دینے لگے۔اس دوران گوادر کی زمینوں کی بندربانٹ ہوئی۔ملک کے دیگر علاقوں کے لوگوں نے لاکھوں پلاٹ خریدے کئی جعلی بلڈرز بھی آئے جنہوں نے عوام کو بڑے بڑے خواب دکھائے۔مختصرعرصے میں سرکاری اداروں نے کم از کم ساحلی پٹی کے ڈیڑھ لاکھ ایکڑ اپنے نام کرلئے۔ پروپیگنڈا کیاگیا کہ چین ایک جدید ترین ائیرپورٹ بھی تعمیر کر رہا ہے۔بظاہر اس ائیرپورٹ کی تعمیر بھی مکمل ہوگئی ہے لیکن افتتاح سے پہلے حالیہ بارشوں نے اس کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔یہ زیرآب ائیرپورٹ استعمال کے قابل نہیں ہے۔
گوادر کی ناکامی کی وجوہات میں سرفہرست حکمرانوں کی بدنیتی تھی۔2008 میں برسراقتدار آنے کے بعد زرداری نے بڑے ہاتھ پیرمارے۔چین کو قائل کیا کہ پورٹ چلانے کی ذمہ داری وہی لے لے۔ چین راضی تو ہوا۔ 57 ارب ڈالر سی پیک کےلئے مختص بھی کئے لیکن 2013 میں جب سی پیک ن لیگ کے ہاتھ لگا تو پلاننگ کے وزیر رانا احسن اقبال نے جھاڑو پھیر دیا۔گوادر کو باقی ملک سے ملانے کےلئے سڑکوں کی تعمیر کے بجائے پنجاب میں تین مزید موٹرویز سی پیک میں شامل کر دئیے۔دو ارب ڈالر کی کثیر رقم سے لاہور میں اورنج ٹرین منصوبہ مکمل کیا گیا۔لاہور راولپنڈی اور ملتان میں ایک ارب ڈالر کی لاگت سے میٹرو بسوں کا منصوبہ بنایا گیا۔گویا سی پیک کا منصوبہ چین کو سمندر تک رسائی کے لئے نہیں بنایا گیا تھا بلکہ پنجاب کی رسائی کے لئے بنایا گیاتھا۔اسی دوران نوازشریف نے پنجاب میں کوئلہ سے چلنے والے بجلی کے تین کارخانے بھی لگائے جو آج کل ناکارہ ہو کر بند ہیں۔اسی طرح ہمارے پنجاب کے حکمرانوں نے جان بوجھ کر اپنے ایک صوبہ اور اپنے عظیم دوست چین کو بیک وقت دھوکہ دیا۔جہاں تک احسن اقبال کا تعلق ہے تو ان کے گھر سے رات کو جموں کی لائٹس نظر آتی ہیں لگتا ہے کہ ان کا دل اوردماغ سیالکوٹ،نارووال اور جموں میں پھنسا ہوا ہے اور وہ دل سے پاکستان کے دیگر صوبوں اور علاقوں کو پاکستان نہیں سمجھتے۔اگر ایسا ہوتا تو وہ مغربی روٹ کو سی پیک کا حصہ بناتے اور کراچی کے میگا سٹی کے لئے کوئی منصوبہ منظور کرتے لیکن موصوف نے پنجاب سے باہر دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔اس بار جو وہ دوسری بار پلاننگ کا منصب سنبھال لیں گے تو ہوسکتا ہے انہیں بلوچستان اور سندھ پر ترس آ جائے۔پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران جب شہبازشریف وزیراعظم بنے تو ماڈل ٹاﺅن لاہور میں اپنے گھر میں ہمارے وفد کی ملاقات ہوئی۔وہ پوری گفتگو میں لاہور اور پنجاب کی باتیں کرتے رہے۔آخرکار ایک صحافی نے کہا کہ جناب اس وقت آپ پنجاب کے وزیراعلیٰ نہیں پاکستان کے وزیراعظم ہیں لہٰذا اپنی نظر کو وسعت دیجیے۔
گوادر کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ تو حکمرانوں کی بدنیتی تھی بلکہ لاہور اور اسلام آباد میں برملا کہا جا تا تھا کہ گوادر زمین کا واحد ٹکڑا ہے جسے پاکستان نے ڈالر دے کر خریدا ہے لہٰذا ہمارا حق ہے کہ گوادر وفاق کی ملکیت ہو اور وفاقی علاقہ ہو یعنی نیت یہ تھی کہ جب تک گوادر فیڈرل ٹیریٹری نہ ہو اس وقت تک اسے ترقی دینا بے کار ہے۔یہ بھی سنا تھا کہ چین نے گوادر شہر کا ماسٹر پلان تیار کیا ہے لیکن بعدازاں چین نے حالات سے مایوس ہوکر اس ماسٹر پلان کو غیرفعال کردیا۔
گوادر کی ناکامی کی دوسری بڑی وجہ توقع سے زیادہ مزاحمت تھی ۔بلوچستان کے عوام نے بالعموم اور مکران کے عوام نے اپنی دھرتی کی حفاظت اور ایسے منصوبوں کی سخت مزاحمت کی جن کا مقصد ڈیموگرافی تبدیلی لانا تھا۔اس سخت ترین مزاحمت نے حکمرانوں کے بیشتر منصوبے ناکام بنا دئیے۔ان منصوبوں کا اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ بلوچستان کو پہلے دوزونز میں تقسیم کیا جائے یعنی نارتھ زون اور ساﺅتھ بلوچستان۔اس مقصد کےلئے قلات میں باقاعدہ ایک بڑا بورڈ بھی نصب کیا گیا تھا جس پر لکھا تھا کہ ”ویلکم ٹو ساﺅتھ بلوچستان“۔پہلے مرحلے میں فرنٹیئر کور کو نارتھ اور ساﺅتھ زون میں تقسیم کیا گیا لیکن اس منصوبے پر عمل درآمد کی نوبت ابھی تک نہیں آئی۔حاکمان بالا کو اندازہ تک نہیں کہ کہ اگر بلوچستان کو تقسیم کیا گیا تو لوگ کیا قدم اٹھائیں گے؟
معلوم نہیں کہ گوادر پورٹ کا کیا مستقبل اور کیا انجام ہوگا لیکن ہماری زندگیوں میں یہ امکان نہیں کہ یہ ایک کارآمد پورٹ کا کردار ادا کرسکے کیونکہ آثار بتا رہے ہیں کہ چین افغانستان چلا گیا ہے اور اس نے تاجکستان کا ایک علاقہ لے کر اپنے جنوبی علاقوں کو طویل سرنگ کے ذریعے افغانستان سے ملا دیا ہے۔ اسے ”واخان کاریڈور“کہا جاتا ہے۔چین دنیاکی پہلی بڑی پاور ہے جس نے طالبان حکومت کو تسلیم کر کے سفارتی تعلقات قائم کرلئے ہیں۔چین اس بھارتی تعمیرکردہ روٹ کو ترقی دے گا جوہرات سے چاہ بہار تک جاتا ہے۔اس کے علاوہ چین نے تیل گیس اور معدنیات کی تلاش کے کئی درجن معاہدوں پر بھی دستخط کئے ہیں۔ایف بی آر کے سابق چیئرمین اور اقتصادی ماہر شبر زیدی کا دعویٰ ہے کہ چین نے سی پیک سے ہاتھ کھینچ لئے ہیں وہ چھوٹے موٹے قرضے بھی دے گا لیکن اربوں ڈالر کی امداد اور قرضے نہیں دے گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ باجوہ سر نے اپنے ہی دور میں امریکہ کو ایک بار پھر مائی باپ مان لیا تھا اور کہا تھا کہ کوئی بھی ملک ہماری اس طرح مدد نہیں کرسکتا جس طرح امریکہ کرتا ہے۔اسی دوران عمران خان نے سی پیک کو منجمد کر کے چین کو بتا دیا تھا کہ ہم مکمل طور پر آپ کے کیمپ میں نہیں آئیں گے۔اس فیصلہ کے بعد امریکہ نے دفاعی پرزہ جات کی فراہمی شروع کر دی تھی۔اب جبکہ اسرائیل نے ہزاروں فلسطینی مار دئیے ہیں اور جس طرح پاکستان نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے اس کا صلہ بھی امریکہ آئی ایم ایف کے مزید قرضوں اور دیگر امداد کی صورت میں دے گا۔البتہ حاکمان بالا نے 8 فروری کے عام انتخابات میں جو غلطیاں کی ہیں انہیں کچھ نہ کچھ سدھارنے کی ضرورت ہے کیونکہ امریکہ یورپی یونین اور اقوام متحدہ ان انتخابات کی شفافیت کو نہیں مانتے۔ہمارے اسکرپٹ رائٹر نے انتخابات کو جو کلائمیکس دیا ہے وہ انتہائی بھونڈا اور ناقابل اعتبار ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تمام اراکین پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین ایک دوسرے کو مینڈیٹ چور اور ووٹ چور قرار دیتے ہیں بلکہ اس کا عملی مظاہرہ قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں ہوا۔شدید نعرے بازی کے دوران ایک پی ٹی آئی رکن نے نوازشریف کی طرف ماسک اچھال دیا جو شہبازشریف کے کاندھے پر چپک گیا۔پی ٹی آئی کے آتشیں برانڈ لیڈر شیرافضل مروت نے برملا کہا ہے کہ ہم اسمبلیوں کو چلنے نہیں دیں گے روز احتجاج اور ہنگامہ آرائی کریں گے جب تک ہمارا مینڈیٹ ہمیں نہیں مل جاتا ہم اسمبلی کے اندر اور باہر چپ نہیں رہیں گے۔اگر روز ہنگامے ہوں گے تو میاں نوازشریف کی طرح کے کئی لوگ قومی اسمبلی کا رخ ہی نہیں کریں گے۔اگر شیر افضل کا اختیار ہو تو وہ ماسک کے بجائے مخالفین پر جوتے اچھالا کریں گے۔
تحریک انصاف نے اپنے رہنماﺅں اور اراکین اسمبلی کی جو تربیت کی ہے وہ پارلیمانی نہیں ہے جبکہ تہذیب تو ان کو چھو کر بھی نہیں گزری۔معلوم نہیں کہ حاکمان بالا کو ایسے نتائج مرتب کرنے سے کیا ملا اور ان کے اصل مقاصد کیا ہیں؟ کیا وہ بہت جلد ایک اور انجینئرڈ الیکشن کا بندوبست کریں گے اور پہلے سے موجود سیاسی عدم استحکام کو مزید بڑھاوا دیں گے۔
اس صورت حال میں ڈوبتی معیشت کا کیا بنے گا اور عوام کی حالت زار کیا ہوگی یہ سوچنے کی بات ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں