اللہ کی رحمت بہانہ ڈھونڈتی ہے
تحریر: علیشبا بگٹی
ایک بزرگ جو بڑے محدث بھی تھے، جنہوں نے ساری عمر حدیث کی خدمت میں گزاری، جب ان کا انتقال ہوگیا تو کسی نے خواب میں ان کی زیارت کی، اور ان سے پوچھا کہ حضرت! اللہ تعالیٰ نے کیسا معاملہ فرمایا؟ جواب میں انہوں نے فرمایا کہ بڑا عجیب معاملہ ہوا، وہ یہ کہ ہم نے تو ساری عمر علم اور حدیث کی خدمت میں گزار دی، اور درس و تدریس، تصنیف ، وعظ و خطابت میں گزاری، تو ہمارا خیال یہ تھا کہ ان اعمال پر اجر ملے گا، لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے کچھ اور ہی معاملہ فرمایا، اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کہ ہمیں تمہارا ایک عمل بہت پسند آیا، وہ یہ کہ ایک دن تم حدیث شریف لکھ رہے تھے، جب تم نے اپنا قلم دوات میں ڈبو کر نکالا تو اس وقت ایک پیاسی مکھی آکر اس قلم کی نوک پر بیٹھ گئی اور سیاہی چوسنے لگی، تمہیں اس مکھی پر تر س آگیا، تم نے سوچا کہ یہ مکھی اللہ کی مخلوق ہے اور پیاسی ہے، یہ سیاہی پی لے تو پھر میں قلم سے کام کروں،چنانچہ اتنی دیر کے لیے تم نے اپنا قلم روک لیا اور اس وقت تک قلم سے کچھ نہیں لکھا جب تک وہ مکھی اس قلم پر بیٹھ کر سیاہی چوستی رہی، یہ عمل تم نے خالص میری رضامندی کی خاطر کیا، اس لیے اس عمل کی بدولت ہم نے تمہاری مغفرت فرما دی، اور جنت الفردوس عطا کردی۔
دیکھئے! ہم تو یہ سوچ کے بیٹھے ہیں کہ ارکان اسلام کلمہ، نماز، روزہ، زکوٰة، حج ادا کرنا، تہجد پڑھنا، وعظ کرنا، تصنیف کرنا وغیرہ یہ بڑے بڑے اعمال ہیں، لیکن وہاں ایک پیاسی مکھی کو سیاہی پلانے کا عمل قبول کیا جارہا ہے، اور دوسرے بڑے اعمال کا کوئی تذکرہ نہیں۔ حالانکہ اگر غور کیا جائے تو جتنی دیر قلم روک کر رکھا، اگر اس وقت قلم نہ روکتے تو حدیث شریف ہی کا کوئی لفظ لکھتے، لیکن اللہ کی مخلوق پر شفقت کی بدولت اللہ نے مغفرت فرما دی، اگر وہ اس عمل کو معمولی سمجھ کر چھوڑ دیتے تو یہ فضیلت حاصل نہ ہوتی۔ لہٰذا کچھ پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کونسا عمل مقبول ہوجائے، وہاں قیمت عمل کے حجم، سائز اور گنتی کی نہیں ہے، بلکہ وہاں عمل کے وزن کی قیمت ہے، اور یہ وزن اخلاص سے پیدا ہوتا ہے، اگر آپ نے بہت سے اعمال کیے، لیکن ان میں اخلاص نہیں تھا تو گنتی کے اعتبار سے تو وہ اعمال زیادہ تھے، لیکن فائدہ کچھ نہیں، دوسری طرف اگر عمل چھوٹا سا ہو، لیکن اس میں اخلاص ہو تو وہ عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑا بن جاتا ہے، لہٰذا جس وقت دل میں کسی نیکی کا ارادہ پیدا ہو رہا ہے تو اس وقت دل میں اخلاص بھی موجود ہے، اگر اس وقت وہ عمل کرلو گے تو ا±مید ہے کہ وہ ان شاءاللہ مقبول ہوجائے گا۔“
رحمت حاصل کرنے کا بالکل سادہ سا فلسفہ ہے تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا، رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کی ہوتی ہے یہ رحمت ہماری تلاش میں ہوتی ہے کہ کوئی آئے کوئی آگے بڑھے اسے یہ رحمت مل جائے جو انسانوں جانداروں سے نیکی اور اللہ کی بندگی سے ملتی ہے پرندوں کو پانی پلانے سے اپنے اندر کے منفی رویوں کو ترک کرنے تک، رحمت ملتی ہے، مگر یہ رحمت بھی مقدر والوں کو ملتی ہے۔
آپ نے واقعہ بیان فرمایا کہ ایک شخص کی پوری زندگی گناہوں میں گزرتی رہی، موت کا وقت آیا تو اس نے اپنی اولاد کو وصیت کی کہ میرا انتقال ہوجائے تو مجھے جلا دینا، اور میری راکھ ہوا میں سمندر کے پاس بکھیر دینا، مجھے ڈر ہے کہ اللہ نے مجھے پکڑا تو ایسا عذاب دے گا جیسا کسی کو نہ دے گا، بالآخر اس کی موت کے بعد اہلِ خانہ نے وصیت کے مطابق کیا، اللہ تعالیٰ نے اس کے منتشر اجزاءجمع فرما دیے اور اپنے دربار میں حاضر کیا اور فرمایا: تم نے جو وصیت کی تھی اس کی وجہ کیا تھی؟ وہ بولا: اے اللہ: صرف آپ کے خوف کی وجہ سے یہ سن کر اللہ کی رحمت کو جوش آیا اور اللہ نے اس مجرم کی مغفرت فرمادی۔
آپ سے بنی اسرائیل کے ایک عابد کا واقعہ منقول ہے کہ وہ عابد ساٹھ سال تک اپنے حجرے میں عبادت میں مشغول رہا، ایک دن کسی ضروت سے باہر نکلا ، تو ایک عورت پر اس کی نگاہ پڑگئی، وہ عابد اس عورت کے حسن پر فریفتہ ہوگیا اور اس سے زنا میں مبتلا ہوگیا، اب اسے بے حد ندامت ہوئی، توبہ کرتا رہا، اس کے پاس دو روٹیاں تھیں، بھوک لگی تو کھانے چلا، اچانک ایک سائل آگیا، اس نے ایثار کیا اور وہ روٹیاں اس سائل کو دے دیں، کچھ عرصے بعد اس کا انتقال ہوگیا، اس کی ساٹھ سالہ عبادتیں زنا کے اس عمل کے مقابلے میں کم زور ثابت ہوئیں، وہ بےحد بے قرار ہوا، مگر آخر میں یہ ہوا کہ اس نے سائل کو دو روٹیاں جو دی تھیں، اللہ کو اس نیکی پر پیار آگیا اور اسی عمل نے اس کی مغفرت کرادی۔
احادیث میں جگہ جگہ ذکر آیا ہے کہ ایک بدکار عورت کو صرف پیاسے کتے کو پانی پلانے کے عمل پر اللہ کی طرف سے مغفرت عطا فرمادی گئی، روایات میں آتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ رب العزت دو بندوں کو بلائیں گے اور ان سے فرمائیں گے کہ تم نے دنیا میں بے شمار گناہ کیے ہیں، اب تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے، جاﺅ! جہنم میں جاﺅ، اس حکم کو سن کر ان میں سے ایک بہت تیزی سے جہنم کی طرف چل پڑے گا، دوسرا دھیرے دھیرے چلے گا اور بار بار مڑ کر اللہ کو دیکھے گا، اللہ تعالیٰ ان دونوں کو واپس بلائیں گے اور پہلے شخص سے سوال کریں گے کہ میں نے تم کو جہنم میں جانے کے لیے کہا، تم تیزی سے چل پڑے، اس کی کیا وجہ تھی؟ وہ بولے گا: اے میرے رب! میں نے دنیا میں آپ کا ہر حکم توڑا، اب آپ نے یہ آخری حکم دیا تو میں نے سوچا کہ اب یہ حکم نہیں توڑوں گا، اس لیے میں تیزی سے چل پڑا، اللہ دوسرے سے فرمائیں گے: تم بار بار پیچھے مڑ کر کیوں دیکھ رہے تھے؟ وہ عرض کرے گا: آپ کی رحمت کی امید میں، بس یہ سن کر اللہ تعالیٰ دونوں سے راضی ہوجائیں گے اور جنت کا فیصلہ فرمادیں گے۔
امام رازی لکھتے ہیں:”ایک دفعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک قبر پر سے گزرا ہوا، آپ نے (بطور کشف) دیکھا کہ عذاب کے فرشتے میت کو عذاب دے رہے ہیں، آپ آگے چلے گئے، اپنے کام سے فارغ ہوکر جب آپ دوبارہ یہاں سے گزرے تو اس قبر پر رحمت کے فرشتے دیکھے جن کے ساتھ نور کے طبق ہیں، آپ کو اس پر تعجب ہوا، آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی، اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی، اے عیسیٰ! یہ بندہ گناہ گار تھا اور جب سے مرا تھا، عذاب میں گرفتار تھا، یہ مرتے وقت اپنی بیوی چھوڑ گیا تھا، اس عورت نے ایک فرزند جنا اور اس کی پرورش کی، یہاں تک کہ بڑا ہوا، اس کے بعد اس عورت نے اس فرزند کو مکتب میں بھیجا، استاذ نے اسے ”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم“ پڑھائی، پس مجھے اپنے بندے سے حیا آئی کہ میں اسے آگ کا عذاب دوں زمین کے اندر ، اور اس کا فرزند میرا نام لیتا ہے زمین کے اوپر۔“
اللہ کی رحمت بے حد و بے پناہ ہے، وہ نیکیوں کے ارادے ہی پر اجر عطا کردیتا ہے،وہ ایک نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا بخشتا ہے، اور اخلاص کے تناسب سے یہ ثواب بڑھاتا جاتا ہے، حتیٰ کہ سات سو گنا تک پہنچا دیتا ہے، پھر اس کی رحمت موجزن ہو تو جسے چاہتا ہے اس سے بھی کہیں زیادہ عطا فرماتا ہے، حدیث قدسی میں ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:”میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں، میں اپنے بند ے کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے، اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے، تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھے مجمع میں یاد کرتا ہے تو میں اس سے زیادہ بہتر مجمع میں اسے یاد کرتا ہوں، جو مجھ سے ایک بالشت قریب آتا ہے، میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں، جو مجھ سے ایک ہاتھ قریب آتا ہے، میں اس سے دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں، جو میرے پاس چلتا ہوا آتا ہے، میں اس کے پاس دوڑتا ہوا آتا ہوں،جو شخص پوری روئے زمین کے برابر گناہ لے کر میرے پاس آئے گا، اگر وہ شرک سے بچتا رہا تو میں اپنی رحمت و مغفرت کی مکمل بارش اس پر برسا دوں گا۔“
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا دامنِ مراد اللہ کی رحمتوں سے مالا مال کرنے کی فکر کریں، اپنی غفلتوں سے باز آئیں، اپنے رب کو منانے کی کوشش کریں اور ایمان کی پختگی کے ساتھ اپنے دلوں میں اللہ کا خوف پیدا کریں۔
آپ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو پیدا فرمایا تو اپنے دست قدرت سے اپنی ذات کے لئے لکھ دیا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔“
اللہ ربّ العزت نے اپنے گناہگار بندوں کو اپنی رحمت سے مایوس ہونے سے منع فرمایا ہے: قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ” آپ فرما دیجئے: اے میرے وہ بندو!! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے! تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے، وہ یقیناً بڑا بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہے۔“(الزمر:۵۳)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے پاس سو رحمتیں ہیں ا±س نے ا±ن میں سے ایک رحمت جن، انسانوں، حیوانات اور حشرات الارض کے درمیان نازل کی ہے جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر شفقت و رحم کرتے ہیں اور ا±سی سے وحشی جانور اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ننانوے رحمتیں (اپنے پاس) محفوظ رکھی ہیں، جن کے سبب قیامت کے دن وہ اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔“
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے حضور نبی اکرم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: ”یارسول اللہ! روزِ قیامت مخلوق سے کون حساب لے گا؟ آپ نے فرمایا: اللہ۔ وہ کہنے لگا: کیا واقعی اللہ (خود حساب لے گا)؟ فرمایا: ہاں! خود اللہ حساب لے گا۔ یہ سن کر وہ کہنے لگا: رب کعبہ کی قسم! پھر تو ہم نجات پا گئے۔ آپ نے فرمایا: اے اعرابی! وہ کیسے؟ اس نے کہا: وہ اس طرح کہ (اللہ سب سے کریم ہے اور) جب کوئی کریم (شخص) کسی پر غالب آتا ہے تو وہ ا±سے معاف کر دیتا ہے۔“