ملک بھر کو گیس سپلائی کرنے والے بلوچستان کی بچیاں چن چن کر لکڑیاں جلاتی ہیں،ڈاکٹرجہانزیب جمالدینی

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری و سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا ہے کہ ملک بھر کو گیس سپلائی کرنے والے بلوچستان کی بچیاں چن چن کر لکڑیاں جلاتی ہیں 18 ویں ترمیم کے تحت سیندک ریکوڈک اور دیگر منصوبوں کو منتقلی میں بیوروکریسی آڑے آجاتی ہے جن منصوبوں نے اربوں روپے دیئے ملک کو دولت دی آج اسی صوبے کو دو فیصد بھی نہیں ملتا ملک بھر میں 31 لاکھ کیوسک پانی سمندر میں جارہا ہے اگر سالانہ دو درمیانے درجہ کے ڈیمز بلوچستان میں بنائے جاتے تو آج صوبہ کی صورتحال مختلف ہوتی 780 کلومیٹر ساحل سمندر اور پاک افغان وفاق ایران کے ساتھ اتنے بڑے رقبے پر محیط بارڈر ایریا ہونے کے باوجود یہاں کے لوگ بھوکے اور پیاسے ہیں اگر اپنے بچے کو ایک گلاس پینے کا پانی نہ دے سکیں تو فلاحی ریاست خاک بنے گی ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایوان بالا میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ صدر مملکت ہمارے لئے قابل قدر ہیں مگر صدر کو تمام محکموں پر نظررکھنی چاہئے صدارتی خطاب میں تمام مسائل کو بیان کیا جاتا ہے یہاں غیر ترقی یافتہ علاقوں کو بنیادی ضرورت پانی بھی ہم نہیں دے سکے حالیہ دنوں میں حالات اور مری اور بگٹی علاقے اور خیبرپشتونخوا میں ایبٹ آباد میں معدنی ذخائر دریافت ہوئے صدر کو اس کا ذکر کرنا چاہئے مگر یہاں کمزوری کی یہ حالت ہے کہ صدر صاحب اس بارے ذکر ہی نہیں کرتے ہم پہلے سے ہی کہتے آرہے ہیں کہ جہاں ترقی کی ضرورت ہے وہاں ترقی ہونی چاہئے صدر کو ان مسائل کی نشاندہی کرنی چاہئے مگر ان مسائل کو جنرلائز کر دیا گیا ہمارے 10 لاکھ کیوسک پانی سمندر میں جارہا ہے جبکہ ملک بھر میں 31 لاکھ کیوسک پانی سمندر کی نظر ہورہا ہے اگر ہم اس 10 لاکھ کیوسک پانی کو محفوظ بنانے کے لئے سالانہ بنیادوں پر دو درمیانی درجے کے ڈیمز بناتے تو یہاں صورتحال مختلف ہوتی اورایگریکلچر زراعت اور لائیوسٹاک کو پنپنے کا موقع ملتا صدارتی خطاب میں یہ بنیادی چیزیں شامل ہوتی تو ہم کہہ سکتے کہ خطاب عوامی امنگوں کے مطابق تھا بلوچستان میں انڈسٹریز ہیں نہ ہی روزگار زیادتی تو یہ ہورہی ہے کہ معدنیات بلوچستان سے نکل رہی ہے لیکن وہاں کوئی انڈسٹری نہیں حب میں ایک آدھ انڈسٹری بنائی ہے وہ صرف اس لئے کہ یہ کراچی کے قریب ہے انہوں نے کہا کہ 780 کلومیٹر ساحل سمندر رکھتے ہیں لیکن دماغ میں صرف سی پیک اور گوادر ہے اگر اس ساحل سمندر کو ترقی دی جاتی تو اس سے روزگار اور دیگر مواقعے میسر آتے ایک ہی نیشنل پارک ہنگول ہے جہاں سے بھی 90 ہزار ایکڑ زمین پارکوں کو دی گئی ہے بلوچستان کی اتنی بڑی زمین ہے لیکن ان عقل کے معقید لوگوں کو یہ خیال نہیں آیا ہماری سوچ صرف ایف 16 لاہور یا کراچی تک ہے ژوب سے تفتان تک پاک افغان اور پاک ایران کے ساتھ اتنے بڑے رقبے پر بارڈر ایریا ہونے کے باوجود ہمارے لوگ بھوکے پیاسے ہیں اگر بارڈر ٹریڈ سے استفادہ کیا جاتا تو صورتحال مختلف ہوتی یہ تکلیف پاکستان کے 44 فیصد لوگوں کی ہیں وفاقی حکومت کا ایک اہم منصوبہ پلانٹیشن کا ہے جس پرہم انہیں داد دیتے ہیں لیکن یہاں تو پرانے صنوبر کے درخت کاٹے جارہے ہیں پلانٹیشن منصوبے سے متعلق بتایا گیا کہ 22 لاکھ درخت لگائے گئے ہیں مگر جب میں نے معلومات کی تو 22 درخت بھی نہیں لگے تھے اعلان اہم تھا کاش حکومت اس پر عمل بھی کرتی انہوں نے کہا کہ ہمیں ڈوب مرنے کا مقام ہے جب ہم اپنے بچے کو ایک گلاس پینے کا صاف پانی نہ دے سکیں اور کیونکہ فلاحی ریاست بن رہی ہے ڈیرہ بگٹی سے پورے ملک تک گیس کی سپلائی ہوگئی مگر آج بھی وہاں بچیاں چن چن کر لکڑیاں جلاتی ہیں صدر صاحب یہاں آکر کہتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے بلوچستان دولت دے رہا ہے معدنیات سے پورا ملک مستفید ہورہا ہے لیکن اس کا دو فیصد حصہ بھی بلوچستان تک نہیں پہنچا 18 ویں ترمیم کے تحت ریکوڈک سیندک اور دیگر منصوبے بلوچستان کو دینے ہیں لیکن اس میں بھی بیوروکریسی آڑے آرہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں