شہرِ روغَان

تحریر : دینار بلوچ

بلوچستان میں صدیوں پرانی ثقافتیں اور درجنوں آثارِ قدیمہ موجود ہیں۔ آثار قدیمہ کی بات ہو تو جنگی قلعوں ، محلات ، پرانی عمارتوں اور قدیم قبرستانوں کا خیال زہن میں آتا ہے لیکن غاروں کی پ±راسرار بستی بھی قدیم ہوسکتی ہے جن میں سے ایک ”شہرِ روغان“ ہے۔ پہاڑ تراشنے والوں کا قصہ قران پاک میں سنا تھا مگر یہ خبر نہ تھی کہ بلوچستان میں بھی غاروں کی ایک پ±راسرار بستی ہے جہاں ایک زمانے میں انجان لوگ بستے تھے۔ ہوسکتا ہے آپ میں سے کچھ لوگ اس طلسماتی شہر سے واقفیت نہ رکھتے ہو۔ اس شہر میں ہم آدم خور جنوں کے خوفناک وحشی پن کے ساتھ ساتھ حسین و جمیل شہزادیوں کی قید اور ان کے عشق و محبت طلسم ہوش ربا داستانیں دیکھیں گے۔ شہرِ روغان جوکہ اور بھی ک? ناموں سے منصوب ہے جیسے ما?ی گوندرانی ، ما?ی پیر ، غاروں کی بستی ایسے اور بھی ک?ی ناموں سے جاناجاتا ہے۔ یہ بستی لسبیلہ شہر سے چند کلو میٹر مین آر سی ڈی شاہراہ سے مشرق کی جانب واقع ہے۔ یہاں ایک گوندرانی نامی عورت ہوا کرتی تھی اور یہ شہر بھی اسی عورت کے نام سے منصوب ہے۔

یہ بستی ایک وادی کے عین درمیان واقع ہے جیسے ہی آپ وہاں پہنچ جاتے ہے تو سیکنڑوں غاریں آپ کے استقبال کے لی? موجود ہوتے ہیں۔ یہ غاریں قدرتی نہیں بلکہ۔۔۔۔۔۔۔ انسانی ہاتھوں کے شاہکار ہیں۔ ان غاروں کو کس نے نایا ، کب بنایا ان غاروں کو بنانے کے کیا وجوہات تھیں اس حوالے سے تاریخ بالکل خاموش ہے۔ تاہم آرکیولوجسٹ کا کہنا ہے کہ یہ غار تیرا سو سال پرانے ہیں جن میں پندرہ سو کے قریب غاریں تھین لیکن اب عدم توجہ کی وجہ سے پانچ سو غاریں بچ چکے ہیں۔ان غاروں یا پہاڑوں میں بنے گھروں کی تاریخ یا آثار قدیمہ کی کو?ی شناخت نہیں ملتی لہٰذا اس بارے میں مقامی سطح پر مختلف کہانیاں یا قصہ گوئی پائی جاتی ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بدھ مت کے ماننے والوں کی ایک بستی تھی جو تقریبًٍا ساتویں صدی میں یہاں آباد ہو?۔ یہ بدھ مت کے ماننے والوں کا ایک جیتا جاگتا شہر تھا۔ بدھ مت مذہب اس خطے میں کبھی اپنے عروج پہ بھی رہا ہے لہٰذا دوسرے کہانیوں نسبت (جو آگے ہم بیان کرینگے) اس بات میں وزن ہے کہ یہاں بدھسٹ تھے۔

دوسرے ان غاروں کی تعمیر جس میں برآمدے ، مرکزی کمرہ حتٰی کہ چراغ رکھنے کی جگہ بھی دکھا?ی دیتی ہے جو کہ انسانی ہاتھ کے عمل کی تصدیق کرتی ہے۔اس کے علاوہ انفرادی غاروں کی بناوٹ میں بھی کافی فرق پایا جاتا ہے۔ کچھ غار بڑے اور کشادہ ہیں جن میں اشیاءکو زخیرہ کرنے کیلئے گودام بھی موجود ہیں جو شاید امرا? یا بڑے بدھ بھگشوں کے ہوں گے۔ بہت سے غار سرنگوں کے زریعے آپس میں ملے ہوئی ہیں جو کہ ان کے خاندان کی رہائش کو ظاہر کرتے ہیں اور یہ غاریں گارے نما مٹی ، مختلف سائز کے گول پتھروں اور نمکیات کا مجموعہ ہیں ۔ صدیوں سے یہاں آباد بدھ مت کے پیروکار یہاں سے کب چلے گئے اور ان کے یہاں سے ہجرت کرنے کے کیا وجوہات تھیں تاریخ اس بارے میں بالکل خاموش ہے۔ کوئی موسمی آفت ، بیرونی حملہ آور ، قحط یا دوسری اور کونسی غالب وجہ بنی بنی اس شہر کے ختم ہونے میں اس بارے میں ابھی تک حتمی تحقیق موجود نہیں۔

ایک اور کہانی کے مطابق یہاں ان غاروں میں بدروحیں اور شیطانی قوتیں رہتیں تھیں۔ یہ قوتیں انسانی گوشت اور خون کے دلدادہ تھیں اور آس پاس کی بستیوں سے انسانوں کو پکڑ کر لے جاتے تھیں یورے شہر میں ان شیطانی قوتوں کا خوف پھیلا ہوا تھا۔ اسی علاقے میں ایک گوندارنی نامی عورت بھی رہتی تھی اس نے جب یہ ظلم دیکھا تو اس نے ان بدروحوں اور شیطانی قوتوں سے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔اس جنگ میں گوندرانی نے فتح حاصل کرلی اور شیطانی قوتوں کا صفایا کرلیا تب سے یہ جگہ اسی عورت کے نام سے منصوب ہے گوندرانی کی مزار بھی وہی موجود ہے۔

ایک اور قصے کے مطابق یہاں ان غاروں میں صدیوں سے جنات رہتے تھیں اور وہ اس وادی میں داخل ہونے والے لوگوں پہ حملہ کردیتے تھے سینہ بسینہ چلنے والے علم کے مطابق یہاں انسانوں کی ایک بستی تھی اور ان کے بادشاہ کی ایک بیٹی تھی جس کا نام شہزادی بدیع الجمال تھا۔شہر روغان کے جنات اس جمال رخ شہزادی پہ عاشق ہو گئے اور اسے ا±ٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے، شہزادی کی واپسی کے لی? بےشمار مہمات ہو?یں اور کئی مارے گئے آخر ایک بہادر شہزادہ جس کا نام سیف الملوک تھا اور وہ اس مہم میں کامیاب ٹھہرا۔ اسی شہزادہ سیف الملوک ک? دنوں تک جنات سے جنگ کی اور بلآخر اس بڑے جن کو بھی تہہ تیغ کردیا جس کا سایہ شہزادی پہ تھا۔ اور یوں شہزادی بھی آزاد ہوگ?ی ۔ مقامی لوگوں کے مطابق اس مقام پر اب تک بھی جنات کا قبضہ ہے رات کو یہاں کوئی بھی ٹھہرنے کی ہمت نہیں کرسکتا۔ مائی پیر کے مزار پر بیٹھی عورت سے معلوم کرنے پر پتا چلا کہ یہ بات حقیقت ہے کہ یہاں جنات کا اب تک بھی قبضہ ہے اکثر اوقات رات کے وقت وہ اپنے موجود ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ حقیت کیا ہے کو?ی پتا نہیں کیوں کہ مقامی طور پر کسی بھی قسم کی سہولت یا اس بارے میں تحریری معلاماتی کتابچہ نا پید ہے۔ لیکن حکومت کی ایسی بدانتظامی ، لاپرواہی اور نالائقی دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ یہ رومانوی شہر پھر سے بد روحوں اور شیطانی قوتوں کے سائے میں ہے۔

اس پ±راسرار غاروں کی بستی کے حوالے سے بلوچستان یونیورسٹی کی شعبہ تاریخ کے محقق وحید رزاق نے ویلے کو بتایا کہ ان غاروں کی تاریخ پر اب تک کو?ی بھی تحقیق نہیں کی گئی ہے لہٰذا وثوق سے یہ کہنا ممکن نہیں کہ یہ غار کتنے قدیم ہے۔

ہمارا ملک بلوچستان ایسے ہزاروں تاریخی مقامات سے بھرا پڑا ہے جس کے بارے میں معلومات اور توجہ کی اہم ضرورت ہے بلوچستان تاریخی ورثہ میں الگ مقام رکھتا ہے۔ مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ یہ ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ بلوچستان کے ورثہ کو نہ صرف محفوظ رکھا جائے بلکہ پوری دنیا تک پہنچایا جائے

اپنا تبصرہ بھیجیں