پڑوس میں جنگ کا خطرہ

تحریر: انور ساجدی
پاکستان کے پڑوس میں اور بلوچ ساحل کے آمنے سامنے جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں۔اسرائیل پرایران کے جوابی حملوں کے بعد خطرہ ہے کہ اسرائیل ایران کو طاقت کے ساتھ جواب دے گا تاہم سردست اسرائیل کی یہ کوشش ناکام ہوگئی ہے کہ امریکہ بھی جنگ میں ملوث ہو جائے۔صدر بائیڈن جو خود اپنے ملک میں الیکشن کی جنگ لڑ رہے ہیں اور جنہیں سخت ترین حالات کا سامنا ہے اسرائیل کے ساتھ عملی جنگ سے گریزاں ہیں۔ ایران نے اسرائیل کے مختلف ٹھکانوں کو ڈرون اور میزائلوں سے جو نشانہ بنایا وہ دراصل فرینڈلی فائر کی حیثیت رکھتے ہیں۔اکثر ایرانی میزائل خاص ٹھکانوں پر نہیں گرے بلکہ ادھر ادھر گرے۔ اس کے باوجود خطے میں ایران کا رعب قائم ہوگیا ہے اور اس نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ امریکہ سمیت کسی بھی ملک کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ ایرانی حملوں سے یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ اسرائیل اب ناقابل تسخیر نہیں رہا۔فضائی حملوں سے قبل ایران نے بحر بلوچ میں آبنائے ہرمز کے قریب ایک اسرائیلی جہازکو بھی اپنے قبضے میں لے لیا تھا اس واقعہ کا حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ جہاز کے عملے میں دو پاکستانی بھی شامل ہیں جن کی رہائی کے لئے پاکستانی حکومت کوشش کر رہی ہے۔ پاکستان دعا مانگے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی نہ بڑھے اور نوبت جنگ تک نہ آئے اگر خلیج متاثر ہوا تو شاخ نازک کے طور پر پاکستان زیادہ متاثر ہو گا ۔ مثال کے طور پر اگر ایران نے آبنائے ہرمز سے تیل کے جہازوں کی گزرگاہ بند کر دی تو ساری دنیا اور بالخصوص مشرقی ایشیا ہندوستان سخت متاثر ہوں گے۔آبنائے ہرمز سے دنیا کا کل20 فیصد تیل گزرتا ہے جب بلوچستان متحد تھا تو آبنائے ہرمز کے حوالے سے بندرعباس تک کا علاقہ صوبہ ”ہرمزگان“ کہلاتا تھا۔ایران نے ڈیموگرافی تبدیلی کے ذریعے صوبوں کے نام تبدیل کر دئیے ہیں اور کافی سارے علاقے بلوچستان سے علیحدہ کر کے اس کے نام کے ساتھ سیستان کا لاحقہ بھی لگا دیا ہے۔اس کی کوشش ہے کہ جلد یا بدیر بلوچستان کا نام کاٹ کر صوبے کا نام صرف سیستان رکھ دیا جائے۔

اسرائیل کے خلاف ایران کی کارروائی کے بعد صرف شام،یمن،حماس اور حزب اللہ نے اس کی حمایت کر دی ہے جبکہ سعودی عرب کی قیادت میں امریکی اتحاد نے اس کی مذمت کر دی ہے جبکہ اردن کے فوجی اڈوں سے اڑنے والے اینٹی میزائل سسٹم نے ایرانی میزائلوں کو نشانہ بنایا۔اگر امریکہ کو ضرورت پڑی تو وہ بحرین،کویت ،یو اے ای اورقطر کے اڈے بھی ایران کے خلاف استعمال کر سکتا ہے تاہم خلیجی ممالک جنگ سے خوفزدہ ہیں کیونکہ ایران خطے کی سب سے بڑی طاقت ہے اگر خلیجی چھوٹے ممالک نے اسرائیل کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا تو ایران انہیں ملیامیٹ کر سکتا ہے یہ جو بلند بالا عمارتیں اور خوشحالی ہے یہ پل بھر میں زمین بوس ہو جائیں گی۔یورپی ممالک مسلسل اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ فلسطین اور اسرائیل کا قضیہ اگر جاری رہا تو یہ تیسری جنگ عظیم کا باعث بن سکتا ہے۔ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادی ہوں گے جبکہ دوسری جانب روس،ایران، شمالی کوریا،شام اور عراق ہوں گے البتہ چین منافقانہ درمیانی پالیسی اختیار کرے گا۔روس کے صدر پوتن نے یوکرین کی جنگ کی وجہ سے کافی عرصہ پہلے دھمکی دی تھی کہ اگر امریکہ نے مشرقی یورپ میں ایٹمی میزائل نصب کر دئیے تو روس ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے پر مجبور ہوگا۔گو کہ بظاہر یہ ناممکن نظر آتا ہے کہ کوئی بھی ملک ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کرے کیونکہ اس سے ساری دنیا تباہ ہو جائے گی اس وقت سات ممالک اعلان شدہ ایٹمی قوت ہیں یعنی امریکہ، روس، چین،برطانیہ،فرانس،انڈیا اور پاکستان جبکہ اسرائیل بھی ایک خفیہ ایٹمی قوت ہے اس نے اپنے ہتھیاروں کا کولڈ ٹیسٹ کر لیا ہے چونکہ وہ بہت چھوٹا ملک ہے اس لئے وہ کھلے عام تجربات نہیں کرسکتا۔اسرائیل اتنا چھوٹا ہے کہ اس پر ایٹمی حملہ نہیں ہوسکتا کیونکہ اس سے دیگر پڑوسی ممالک بھی تباہ ہو جائیں گے البتہ امریکہ اور اسرائیل ایران کو ایٹمی حملوں کا نشانہ بنا سکتے ہیں کیونکہ ایران بہت وسیع و عریض علاقہ ہے۔ کافی سال پہلے اسرائیل نے ایران کے ایٹمی سائٹس کو نشانہ بنایا تھا لیکن یہ زیرزمین سائٹس محفوظ رہے تھے۔حالیہ جنگ کے دوران وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ دو اسرائیل مخالف ملک ایران اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت سے اسرائیل کو خطرہ ہے حالانکہ پاکستان کی ریاست اور حکومت اسرائیل کے مخالف نہیں ہیں ان کی مخالفت محض زبانی کلامی ہے صرف بھٹو نے اسرائیل کی مخالفت کی تھی اور 1973 کی جنگ میں پاکستانی پائلٹوں نے باقاعدہ حصہ لیا تھا۔بھٹو کے بعد جب عالم اسلام کے عظیم سپہ سالار مرد مومن ضیاءالحق کی قیادت میں افغان جنگ لڑی گئی تھی تو اسرائیل کی بے شمار نفری اسلام آباد میں مقیم تھی اور روس کے خلاف جنگ میں امریکی دستوں اور باریش مجاہدین کا ساتھ دے رہی تھی۔جنرل پرویز مشرف کے وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری نے انقرہ میں اسرائیل کے وزیرخارجہ سے باضابطہ ملاقات بھی کی تھی ۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے دور میں ایک وفد بھی اسرائیل بھیجا تھا وفد میں تحریک انصاف کے حامی امریکی شہری اور ایک پاکستانی صحافی شامل تھا۔پاکستان کی پالیسی سعودی عرب کے ساتھ وابستہ ہے اگر کل سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرے تو پاکستانی حکام بھی اس بارے میں غوروفکر کرینگے لیکن انہیں اپنے عوام کے غیض و غضب کا ڈر ہے کیونکہ پاکستانی عوام یہودیوں اور اسرائیل کے بارے میں خاصے جذباتی ہیں اور وہ اسرائیل کا نام تک سننے کے رودار نہیں ہیں حالانکہ خود پی ایل او مصر اردن تیونس متحدہ عرب امارات اور ترکی نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے۔
ایک بات واضح ہے کہ اسرائیل زیادہ دیر تک جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا حالیہ جنگ نے اس کی معیشت کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔امریکہ اب تک اسے اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کرچکا ہے اور کئی ارب ڈالر کی امداد دے چکا ہے۔معیشت کی خرابی کی وجہ سے اسرائیل کے اندرونی سیاسی حالات بھی خراب ہیں اور لوگ نیتن یاہو کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں اگر اسی دوران عام انتخابات ہوئے تو نیتن یاہو بری طرح ہار جائیں گے۔ادھر پاکستانی حکومت اور معیشت نے ابھی تک ٹیک آف نہیں کیا ہے۔ شہبازشریف کی حکومت حد درجہ کمزور،مضمحل اور ناتواں ہے۔اسے فارم47 کی کامیابی کے چیلنج کا سامنا بھی ہے جبکہ اپوزیشن نے ایک تحریک کا آغاز بھی کر دیا ہے۔اگر تحریک انصاف اور جمعیت نے بھرپور طریقے سے تحریک میں حصہ لیا تو سیاسی عدم استحکام عروج پر پہنچ جائے گا۔بلاول زرداری نے واضح طور پر کہا ہے کہ اپوزیشن پی این اے ٹو ہے۔پی این اے ون نے1977 میں ان کے نانا بھٹو کا تختہ الٹ دیا تھا۔اس تحریک کو فوج کی حمایت حاصل تھی جبکہ اس وقت شہبازحکومت کو یہ حمایت حاصل ہے۔عدم استحکام کا یہ عالم ہے کہ دو صوبوں بلوچستان اور پختونخواہ میں ابھی تک کابینہ تشکیل نہیںپاسکی۔اس کی وجہ اتحادیوں کے اندرونی اختلافات ہیں جبکہ پختونخوا میں کابینہ سازی پر تحریک انصاف کے اندر شدید اختلافات ہیں۔وہاں پر عمران خان کے جیالے امین گنڈاپور کا سافٹ وئیر تبدیل کرنے کا عمل جاری ہے۔توقع ہے کہ یہ عمل جلد مکمل ہو جائے گا جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے وہاں پر شنید کے مطابق سینئر وزارت پر اختلافات ہیں۔تقسیم کے فارمولے کے تحت یہ عہدہ ن لیگ کو ملنا ہے لیکن پیپلزپارٹی خود یہ عہدہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔کابینہ کی تشکیل میں تاخیر سے حکومتی مشینری ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے۔ بلوچستان حکومت کو امن وامان اور دہشت گردی میں اضافہ کے چیلنج کا بھی سامنا ہے۔حالانکہ طویل عرصہ سے لا اینڈ آرڈر ایک اسپیشل سبجیکٹ ہے اور تزویراتی طورپر اہم ہونے کی وجہ سے صوبائی حکومت کا عمل دخل بہت کم ہے۔بہرحال حقائق کچھ بھی ہوں ڈرائیونگ سیٹ پر جو وزیراعلیٰ تشریف فرما ہیں حالات کو ٹھیک کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔باقی دو صوبوں یعنی پنجاب اور سندھ میں اسٹریٹ کرائم قابو سے باہر ہے اس کی وجہ بے روزگاری، معاشی زبوں حالی اور اسلحہ کی فراوانی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ یہ واقعات پوسٹ انارکی کا شاخسانہ ہے۔اگر صوبائی حکومتیں اسی طرح کمزور اور بے بس رہیں تو حالات قابو سے باہرہو جائیں گے۔سندھ میں کچے کے ڈاکو پولیس کے مقابلے میں زیادہ بالادست ہیں اور کیا گیا حکومتی آپریشن کامیاب دکھائی نہیں دے رہا۔اس کے علاوہ ایک بھاری بھرکم سعودی وفد پاکستان آ رہا ہے جو سرمایہ کاری کے مختلف پہلوﺅں پر غور کر رہا ہے۔حکومت سعودیہ کو ریکوڈک پراجیکٹ پر سرمایہ کاری کی پیش کش کر چکی ہے۔دیکھیں کہ یہ منصوبہ سعودی حکومت کو قائل کر سکتا ہے کہ نہیں کیونکہ موجودہ حکومت بے حد کمزور ہے اور ایسی حکومت کے دور میں سرمایہ کاری مشکل ہے۔اوپر سے سیاسی عدم استحکام عروج پر ہے یعنی سرمایہ کاری کے لئے حالات انتہائی ناموافق ہیں۔پاکستان میں اس وقت روز کماﺅ اور کھاﺅ والی پوزیشن ہے۔کمائی بھی قرضوں ،امداد اور عطیات کی مرہون منت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں