بلوچستان، کوئلہ کانوں میں حادثات تھم نہ سکیں، 2025 کے آغاز میں 15 کان کنوں کی اموات

رپورٹ : بسم اللہ جان

2025 کے پہلے مہینے میں ہی بلوچستان میں کوئلے کے کانوں میں حادثات شروع ہوچکے ہیں اب تک تین مختلف حادثات میں 15 کان کن جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا حادثہ 9 جنوری کی شام کوئٹہ کے نواحی علاقے سپین کاریز کے قریب واقع سنجدی کے پہاڑی میں ایک کان میں پیش آیا جہاں متھین کے گیس کے باعث دھماکے کی وجہ سے 12 کان کنوں کی اموات ہوئیں۔ سنجدی کوئٹہ شہر سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے مسافت پر ہے اس پہاڑی سلسلے میں کوئلے کے متعدد اور مائنز بھی پائے جاتے ہیں۔

جاں بحق مزدوروں میں 10 کا تعلق خیبر پختونخواہ کے ضلع شانگلہ، ایک سوات اور ایک کا بلوچستان سے تھا۔

محکمہ مائنز کے ریسکیو ٹریننگ آفسر محمد اکرم کے مطابق جمعرات کی شب 5 بج کر 45 منٹ پر سنجدی کول فیلڈ کی یونائیٹیڈ کوئلہ کان میں فائر ڈیمپ کی وجہ سے ایک زوردار دھماکا ہوا جس کے باعث کان مکمل بیٹھ گئی اور بارہ کان کن چار ہزار فٹ کی گہرائی میں پھنس گئے دھماکے کی شدت سے کان میں ہوا، بجلی اور راستے متاثر ہوئیں ریسکیو آپریشن میں تاخیری کی وجہ صرف وینٹی لیشن کی کلیئرنس تھی جس میں دو سے تین دن لگیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ” چار دن بعد جب ہم لاشوں کی قریب پہنچے تو وہ گل سڑ گئی تھیں” ۔

گزشتہ سال جون کے مہینے میں بھی ایسی مائن میں ایک حادثہ پیش آیا جس میں 11مزدور جاں بحق ہوگئے تھیں

ضلع شانگلہ کے ایک کان کن نے انتخاب کو بتایا کہ یہاں ہر مائنز ماہانہ کروڑوں کے حساب سے کما رہا ہے لیکن روڈوں کی حالت آپ نے دیکھی ہے کان کنوں کو ریسکیو کرنے کیلئے جو لوگ آرہے تھیں ان کیلئے بھی یہاں آنا مشکل پڑ گیا

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے کان کن نے کوئلہ کان میں غیر یقینی کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ صبح جب ہم کان میں اترتے ہیں تو کلمہ پڑھتے ہیں اور رات کو جب واپس نکلتے ہیں تو پھر کلمہ پڑھتے ہیں کہ آج کا دن تو خیر سے گزر گیا۔ انہوں نے علاقے کے بی ایچ یو میں صحت کے بنیادی سہولیات نہ ہونے کی بھی شکایت کی ۔

مقامی سیاسی ورکر نصیب اللہ اچکزئی نے اس واقعے کو سوفیصد غفلت قرار دیا ـ "یہاں انسپکشن کا نظام نہ ہونےکی برابرہے اس علاقے سے بہت زیادہ مقدار میں کوئلہ نکلتا ہے اور یہاں صرف ایک انسپکٹر ہےوہ بھی بیمار ہے چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہوگا تو ایسے واقعات کےروک تھام ممکن ہوسکےگا”۔ جاعہ وقوع پر موجود محکمہ مائنز کے آفیسر سے جب ہم نے پوچھا تو اس کا کہنا تھا کہ ہمارے ٹیم نے ایک مہینے پہلے اس مائن کا معائنہ کیا اور انکو ہدایات بھی دیں یہ حادثہ ‘قدرتی’ طور پر پیش آیا۔

تاہم محکمہ مائنز نے کان مالک کیخلاف ہنہ تھانے میں حادثےکا ایف آئی آر درج کردی۔ چیف مائنز انسپکٹر بلوچستان عبدالغنی نے ایک بیان میں کہا کہ منگل کے روزکوئلہ کان سے آخری کان کن کی لاش نکا لنےکے بعد کان کو سیل کرکے تحقیقات کے لیے کورٹ آف انکوائری تشکیل دے دیں ۔ وزیر معدنیات و خزانہ شعیب نوشیروانی نےکہا کہ کوئی مائن کمپنی کے مالک قانون اور انسانی زندگیوں سے بڑا نہیں ۔

وزیراعلی بلوچستان نے بھی سنجدی کان حادثے میں نامزد ملزمان کی فوری گرفتاری اور انسپکٹر کی معطلی کا حکم دیا ہے ۔ سرفراز بگٹی نے محکمہ مائنز کی معائنہ ٹیموں کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے کہا ‘ یہ ناقابل قبول ہے کہ ا من وامان کے باعث انسپکٹرز کانوں تک نہیں جا سکتے’ ۔

کان کنوں کی لاشوں کو ایمبولینس کے بجائے ویگنوں کی چھت پر باندھ کر ان کے آبائی گاوں منتقل کردیا گیا

بلوچستان کے محکمہ معدنیات کے ریکارڈ کے مطا بق کوئلہ کانوں میں 2024کے دوران ہونے والے 48حادثات میں 82کان کن لقمہ اجل بن گئے اور 60سے زائد زخمی ہوئے۔ صرف دکی میں اکتوبر کے مہینے میں 20کے قریب کان کنوں کو نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا۔ جبکہ یونائیٹڈ ورکرز فیڈریشن بلوچستان کے جنرل سیکریٹری پیر محمد کاکڑ کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ سال کی کانوں میں ہونے والے حادثات میں 170 مزدور جان کی بازی ہار گئے۔

سنجدی کول فیلڈ کی یونائیٹیڈ کوئلہ مائن میں کان کنوں کی لاشیں نکالنے کیلئے ریسکیو ٹیمیں مصروف ہیں ۔ فوٹو: محمد سمیع

کوئلے کان حادثے میں جاں بحق کان کنوں کو کمپنی 5 لاکھ اورحکومت 8 لاکھ روپےبطور معاوضہ دیتی ہے۔ایک کان کن کا دعویٰ ہے کہ معاوضے کےپیسے بھی ان کو باآسانی نہیں  ملتے دو تین مہینے تو اسکے پیچھے بھاگنا پڑتاہے جس کیلئےمختلف دفتروں میں ‘رشوت’ بھی دینی پڑتی ہے ۔ اکثر کان کنوں کو ڈیتھ گرانٹ اس و جہ سے نہیں ملتےکیونکہ وہ یو بی آئی رجسٹر ڈ نہیں ہوتیں۔

پیر محمد کاکڑ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد 2 لاکھ 50 ہزار سے زائد ہے تاہم ان میں سے بڑی تعداد حکومت کے پاس رجسٹرڈ نہیں جس کے باعث ان مزدوروں کو قانونی تحفظ اور حقوق فراہم کرنے میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔

کوئلہ مائنز میں پے در پے حادثات کی وجوہا ت کیا ہے ؟

ایک کان کن نے نام ظاہرنہ کر نے کی شرط پرانتخاب کو بتایا کےکوئلہ کان کو اندر سے مضبو ط بنانے کیلئے جو لکڑی استعمال ہوتی ہے اس کی بجائے مارکیٹ سے سستی لکڑی لاکر لگائی جاتی ہےجو جلدی ٹوٹتی ہےجس کی وجہ سے کان مہندم ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں

لیبریونین کے جنرل سیکڑیٹری میرقادر بخش کوئلہ کان میں حادثات کی وجہ مزدوروں کی نااہلی سمجھتاہے ڈیٹا کے مطابق 35سال سے کم عمر کان کن یعنی نوجوان ہی زیادہ تر حادثات کے شکا رہوتےہیںان کو کان کےبارے میں آگاہی کم ہوتی ہے ۔انہوں نے بالا حکام کو تجاویز دیتے ہو ئے کہا کہ کان کنوں کو صحیح ٹریننگ دینی چاہیے۔مائنز انسپکٹرز کی تعداد بڑھائی جائےجو مائنز کے مسلسل انسپکشن کر سکیں ۔حکومت ہیلی کاپٹر کی فراہمی کویقینی بنائیں تاکہ ایمرجنسی کے وقت کان کنوں کوبروقت ریسکیوکیا جاسکیں ۔

پیر محمد کاکڑ کے مطابق کوئلہ کان میں حفاظتی انتظامات اور مزدوروں کی تربیت یافتہ نہ ہونے کی وجہ سےاکثر اوقات کان میں حادثات پیش آتے ہیں ۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کان کنوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے موثر حکمت عملی اپنائی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں