معصوم شامی بچے ایلان کی ہلاکت کے ذمہ داروں کوسزا
ترکی کی عدالت نے جنگ زدہ شام سے(2015 میں) محفوظ مقام تک لے جانے کا لالچ معصوم بچے ایلان کے والدین سمیت درجنوں افراد کو کینیڈا پہنچانے کا جھانسہ دے کر کشتی میں سوار کیا تھا لیکن کھلے سمندر میں طوفان کی زد میں آتے ہی خود تو سمندر میں کود کر فرار ہوگئے مگر مسافروں کوطوفانی موجوں میں بے یارومددگار چھوڑ گئے تھے۔اس کے نتیجے میں کشتی میں سوار تما م مسافر ڈوب کر ہلاک ہوگئے تھے۔مرنے والوں میں تین سالہ معصوم ایلان کردی بھی شامل تھا اس کی لاش کو لہروں نے ترکی کے ساحل پر پہنچادیا جہاں سیکیورٹی اہلکارنے ننھے فرشتے کی ریت پر پڑی لاش پر سے گزرتی لہروں کی ویڈیو وائرل کردی۔اس دل دہلا دینے والے منظر نے انسانیت کو افسردہ کر دیا۔ہر درد مند انسان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔اللہ کی آیت کے مطابق معصوم ایلان کردی کے قتل کو ترکی کی عدالت نے پوری انسانیت کا قتل قرار دیا اور اس کے قاتلوں کا نہ صرف کھوج لگایا بلکہ تمام شواہد اکٹھے کئے، اور ان کی مدد سے تینوں کو عدالت نے 125،125 سال قید کی سزا سنائی۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق تینوں مجرموں کو قید کے دوران کسی مرحلے پر بھی پیرول پر رہا نہیں کیا جائے گا۔کاش پاکستان کی پولیس بھی قصور اور ایبٹ آباد سمیت ملک کے تمام شہروں میں جنسی درندوں کے ظلم کا شکار ہورکرقتل ہونے والے معصوم بچوں کے قاتلوں کا ترک پولیس کی طرح تعاقب کرتی ٹھوس شواہد عدالت میں پیش کرکے بے رحم قاتلوں کو ایسی ہی کڑی سزادلواتی۔مگر پنجاب کے شہر قصورکے متعلقہ تھانے کا انچارج انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے مظلوم بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والو ں کے ساتھ کھڑا رہا، اور والدین کی ویڈیو مجرموں کو فراہم کرتا رہا تاکہ سائلین کی زبان بند کرائی جائے۔خیبر پختونخوا اسمبلی کے اسپیکر نے ایوان کو بتایا ہے کہ ایبٹ آباد کے ایک تھانے میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 250 کیسز رجسٹر ہوئے ہیں۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ جرم ایک وبا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔اس کی بڑی وجہ سزا نہ دینا ہے۔ صرف زینب کے قاتل کو سزا دینا کافی نہیں،ہر قاتل کو جرم کی سزا دی جائے۔پولیس اس جرم کو جرم نہیں سمجھتی۔عدالتیں مجرموں کو قبل از گرفتاری ضمانت دیتی ہیں اس اقدام کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں اس کا فائدہ مجرم کو پہنچتا ہے وہ متأثرین کے سامنے اکڑتا ہوا گھومتا ہے،اکثر اوقات متاثرین سے کہتا ہے پولیس نے میرا کیا بگاڑ لیا؟پولیس اس رویہ سے واقف ہے مگر سچ یہی ہے کہ ہمیشہ اس کا جھکاؤ مجرم کے ساتھ ہوتا ہے۔ مظلوم تنہا کھڑا نظر آتاہے۔جب پورا معاشرہ کرپشن سے سمجھوتا کر لے تو قانون کی حکمرانی ختم ہو جاتی ہے۔بدقسمتی سے بعض ججز بھی کالی بھیڑوں کی شکل میں عدالتوں بیٹھے ہیں۔ارشد ملک کو ارتکاب جرم کی سزا نہیں دی جارہی ملک عبدالقیوم جرم ثابت ہونے کے بعد بھی اٹارنی جنرل کے عہدے پر مدتوں فائز رہے۔ماڈل ٹاؤن (لاہور) تھانے کی پولیس نے میڈیا کی موجودگی میں نہتی خواتین سینئر شہریوں پر ڈنڈے اور گولیاں برسائیں ان کے کرتوت 22کروڑ عوام نے ٹی وی پر اپنی آنکھوں سے دیکھے۔6سال ہونے کو ہیں کسی مجرم کو پھول کی چھڑی بھی نہیں ماری گئی مولانا طاہر القادری نے ماڈل ٹاؤن (لاہور) کی مجرمانہ کارروائی کے ذمہ دار افسر کی اعلیٰ عہدے پر کی جانے والی تعیناتی پر حکومت کو مبارک باد پیش کی ہے۔کیا اسے مدینے کی ریاست کہا جا سکتا ہے؟ کون جواب دے گا؟ کس سے داد رسی کی توقع کی جائے؟ گویا ابھی تک قانون مجرموں کے ساتھ کھڑا ہے، مظلوم تھانوں کچہریوں میں رل رہے ہیں۔ ساہیوال میں بچوں اور عورتوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔مقتولین کے خلاف مقدمات قائم کئے گئے۔گولیاں برسانے والے بری ہوگئے۔ہمارے زخم ترک پولیس اور عدلیہ کی قابل رشک کارروائی دیکھ کر تازہ ہو گئے ہیں۔ہر پاکستانی کی دلی خواہش ہے کہ پاکستان کی پولیس بھی ہر معصوم بچے کے قاتلوں کا تعاقب کرے اور عدالتیں مجرموں کو سزا سناتے وقت یہ لکھنا نہ بھولیں کہ قید کی سزا کے دوران مجرم کسی پیرول کا مستحق نہیں۔پاکستان کی پولیس عدالت میں مجرم کو پیش کرنے کی بجائے ہر پیشی پر یہ بیان دیتی ہے کہ مجرم تاحال مفرور ہے۔عدالتیں بھی مجرموں پر فرد جرم عائد کرنے سے قاصر ہیں۔مجرم برسوں تاخیری حربے استعمال کرتے رہتے ہیں اور فرد جرم عائد نہیں ہوتی۔ پارلیمنٹ اپوزیشن لیڈر کو ترس رہی ہے،اپوزیشن لیڈر اپنے بھائی کے ضامن بن کر لندن گئے اورخود بھی وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ان حالات میں مظلوم دل ہی دل میں جو کہہ سکتے ہیں کہہ رہے ہیں۔بعض جھولی پھیلائے بددعائیں دے رہے ہیں اور بعض زیر لب دشنام طرازی کر رہے ہیں۔تاریخ شاہد ہے صرف بددعاؤں سے دشمن کی توپوں میں کیڑے نہیں پڑتے۔عوام کو اس غیرمنصفانہ معاشرے کی اصلاح کے لئے شعوری تبدیلی کا راستہ تلاش کرنا ہوگا،پہلے انفرادی سطح پرپھر دو‘ دو اور تین تین مل کر سوچیں پاکستانی بچوں کے قاتلوں کو سزا دلوانے کے لئے کون سا دروازہ کھٹکھٹایا جائے؟