باضابطہ مذاکرات سے قبل قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں: منظور پشتین

حکومت اور پی ٹی ایم کے درمیان باضابطہ مذاکرات کے آغاز سے قبل اعتماد سازی کے اقدامات پر غور ہو رہا ہے۔
پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین کا کہنا ہے کہ ان کے قیدیوں کی رہائی جیسے اعتماد سازی کے اقدامات کے بعد حکومت کے ساتھ ان کے باضابطہ مذاکرات جلد شروع ہوسکتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ اسلام آباد میں ایک خصوصی انٹرویو میں منظور پشتن کا کہنا تھا کہ ابھی ان کے صرف رابطے اور ملاقاتیں ہوئی ہیں باضابطہ مذاکرات ابھی شروع نہیں ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم نے حکومت سے باضابطہ مذاکرات سے قبل اعتماد سازی کے لیے چند مطالبات سامنے رکھے ہیں جن میں ان کے قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا: ’بنوں میں ہمارے چند دوست ہیں وہ جیل میں ہیں۔ اس طرح اسلام آباد میں ہمارے ایک دوست مولانا اعجاز غائب ہیں اور چند دیگر لوگ ہیں۔ عجیب لگے گا کہ دوست قید میں ہوں جو ایسی ایف آئی آرز کے نتیجے میں قید ہوں جن کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ جھوٹی ہیں اور دوسری جانب ہم مذاکرات کر رہے ہوں۔‘

منظور پشین اپنی ٹریڈ مارک روایتی میرون ٹوپی پہنے کہنے لگے کہ دوستوں کی رہائی کے بعد باضابطہ مذاکرات شروع ہوسکتے ہیں۔ ’ابھی رابطے میں ہیں۔ ہماری اور حکومتی مذاکراتی کمیٹیوں کے مذاکرات ہوئے ہیں۔ امید ہے باضابطہ مذاکرات بھی جلد شروع ہو جائیں گے۔‘

اس سوال پر کہ قیدیوں کی رہائی کے مطالبے پر حکومت کا کیا ردعمل تھا، نوجوان پختون رہنما نے کہا کہ حکومت تو کہتی ہے کہ وہ ان مسائل کے حل کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہی ہے۔

مذاکرات کے آغاز میں کتنا وقت لگ سکتا ہے؟ اس بارے میں منظور پشتین نے کہا کہ فل الحال اندازہ لگانا مشکل ہے۔
ان کے مطابق: ’انہوں نے مذاکرات کی پیش کش کی جو ہم نے قبول کی ہے۔ یہ سلسلہ ابھی ٹوٹا نہیں ہے اگرچہ اتنا تیز بھی نہیں ہے۔‘

پشتون تحفظ موومنٹ ماضی میں بھی کئی مرتبہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کرچکی ہے جو کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگئے تھے۔
منظور کا الزام ہے کہ اس کی وجہ حکومت کی غیرسنجیدگی تھی۔ ’ہم اپنی جدوجہد سے پر امید ہیں۔ ہم اپنے پختونخوا وطن میں امن کے لیے کوششیں کرتے رہیں گے۔ انشا اللہ اس کے اچھے نتائج ہوں گے ہمیں اپنی جدوجہد پر یقین ہے۔‘

2018 میں بھی حکومت کے ساتھ مذاکرات ہوئے تھے لیکن اس وقت پی ٹی ایم کے بعض کارکنوں کی مار پیٹ اور ان کے خلاف پرچے کاٹے کی وجہ سے رک گئے۔ اسی طرح 2019 میں پی ٹی ایم دوبارہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھی تو وزیرستان میں خڑ کمر چیک پوسٹ کا واقعہ پیش آگیا اور یہ سلسلہ ایک مرتبہ پھر رک گیا تھا۔

ماضی میں پی ٹی ایم کو شکایت رہی کہ حکومتی مذاکراتی ٹیم بااختیار نہیں تھی، کیا اس مرتبہ کیا صورت حال مختلف ہے؟ اس کے جواب میں منظور پشتین کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت اس حوالے سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتے لیکن انہیں توقع ہے کہ مذاکرات سے قبل انہوں نے ہمارے مطالبات کا جائزہ ضرور لیا ہوگا اور انہیں کیسے حل کرنا ہے۔

ایک سوال، کہ پی ٹی ایم کافی عرصے سے بظاہر خاموش دکھائی دے رہی ہے، اس کی کیا وجہ ہے، پر منظور کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی اور انہوں نے کہا اس کی بڑی وجہ کرونا (کورونا) کی وبا تھی۔

’ہم نے تحفظ کی خاطر تمام سرگرمیاں روک دی تھیں۔ تاہم تین چار روز قبل ہم نے وانا، جنوبی وزیرستان میں ایک بڑا جلسہ منعقد کیا جس میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ خاموشی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے نہیں بلکہ کووڈ 19 کی وجہ سے تھی۔‘

اطلاعات ہیں کہ پشتون تحفظ موومنٹ نے یہ وقت تنظیم سازی پر صرف کیا ہے۔ تنظیم کا پہلا آئین بھی تیاری کی مراحل میں ہے جبکہ اس کے تنظیمی ڈھانچے میں بھی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔

منظور پشتین نے کہا کہ وہ تنظیم کو مزید مضبوط بنانے اور ایسے ادارے قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جو عوام کی خدمت کرسکیں۔ ’ہم عوام کی امن لانے اور ان کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے مدد دے سکیں۔ ہم پی ٹی ایم کے سیاسی نظریے کو مزید مضبوط بنانے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں