مولانا عرض محمد بلوچ سے مولانا عبدالحق بلوچ تک

یلان زامرانی
بلوچ قومپرست حلقوں کا ہمیشہ سے یہی شکوہ وشکایت ہے کہ بلوچ علماء کرام ہمیشہ قومی وسیاسی معاملات اور مشکلات میں بلوچ عوام کا ساتھ نہیں دیتے اور ناہی بلوچستان میں ہونے والے مظالم اور زیادتیوں کی مذمت کرتے ہیں اور ناہی بلوچستان میں ہونے والے مظالم پر زبان کھول کر بولتے ہیں لہذا وہ قوم کے دشمن ہیں اور بلوچستان میں ہونے والے مظالم پر براہ راست ریاست کے ہمنوا اور ہم قدم ہیں.
ایک حدتک تو یہ بات ٹھیک ہے کیونکہ جب آپ خود بھوک سے مررہے ہیں،جب آپ خود جبر ومظالم کاشکارہیں،جب خود آپ کیلئے زندگی تنگ ہے،وسائل سے مالا مال سرزمین کے مالک ہونے والے کے باوجود آپکی حالت یہ ہے کہ آپ بھوکے پیاسے لنگڑے اور پادشپاد ہیں. زندگی گزارنے کی تمام بنیادی ضروریات اور سہولیات سے آپ محروم ہیں. جوان بیٹے پیٹ بھرنے کیلئے رزق کی تلاش میں خلیجی ممالک کے صحرا وریگستانوں میں کربلاء کے شہیدوں کی طرح پیاسے دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں اور آپ ان سب کو دیکھ کر نظر انداز کریں یپھر انہیں کشمیر اور فلسطین پر ہونے والے مظالم کی داستان سنائیں تو پھر ضرور آپ کو یہ طعنہ سننے پڑیں گے.
برحال بلوچستان کی محرومیوں اور یہاں کے وسائل کی لوٹ بے دریغ لوٹ مار سے ہر کس ناکس کو معلوم ہے.اور یہ ایک حقیقت ہے کہ کمزور قوم کو ہمیشہ اپنی فکر رہتی ہے کہ وہ مزید کچل نہ جائے اور مزید اسے نہ پیسا جائے.
یہی وہ احساس ہے یہی وہ فکر ہے جسے شروع دن سے علماء کرام نے محسوس کیاہے اور کبھی انہوں نے قومی معاملات سے اپنے آپکو الگ تلگ نہیں کیاہے.
مولانا عرض محمد بلوچ سے لیکر مولانا محمد عمر سے بلکہ بلوچی زبان وادب سے لیکر سیاسی ودینی معاملات میں ہروقت بلوچ قوم کی رہنمائی کیلئے علماء کرام نے اپنا کردار اداکیاہے ہاں علماء کرام پر چونکہ دیگر زمہ داریاں بھی ہوتی ہیں وہ عوام کےدینی واخلاقی تربیت کوبھی اپنا فریضہ اور اہم زمہ داری سمجھتے ہیں اسی لیے کوتاہیوں کے باوجود انہوں نے ہروقت رہنمائی کیلئے اپنے آپکو پیش کیاہے.
میرے ایک قلمکار دوست بتاتے ہیں کہ جب نواب اکبرخان بگٹی کو سابق فوجی آمر پرویز مشرف نے تراتانی کے سنگلاخ پہاڑوں میں پیرانسالی کے عمر میں اپنی طاقت کے نشہ میں دھت ہوکر شہید کیا تو بلوچ سیاست میں سرگرم عمل نوجوانوں کی تنظیم بی ایس او نے ایک سیمینار تربت کے پارک ہوٹل میں "نواب بگٹی کی شہادت کے بعد ہماری قومی زمہ داریاں "کے عنوان پر رکھاتھا تو اس میں ایک مقرر ہمارے عظیم دینی،سیاسی اور مدبر ومفکر مولاناعبدالحق بلوچ تھے.جب دیگر مقررین نے خطاب کیا تو آخر میں مولانا عبدالحق بلوچ کو اسٹیج پر خطاب کرنے کی دعوت دی گئی.
مولانا عبدالحق بلوچ نے اپنے مخصوص علمی انداز اور نرم لہجے میں نوجوانوں کو تاریخی نصیحت کرتے ہوئے بی ایس او کے جوانوں سے کہاکہ ” نوجوانو میں دیکھ رہاہوں کہ آپ بہت جزباتی ہیں،اور جانتاہوں کہ اس جزبات کے اسباب کیاہیں لیکن وقت اور حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم جزبات سے نہیں بلکہ سنجیدگی اور معاملہ فہمی اور سوچ وبچار سے کام لیں اور آگے بڑھنے کی کوشش کریں،کیونکہ جزباتی سے انسان کو بہت کچھ کھونا پڑتاہے” برحال پھر حالات نے جو رخ اختیار کیا وہ سب نے دیکھا اسی جزبات نے کئی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنی سیلاب رواں میں ڈبو لیا اور تعلیمی نظام سے لیکر سیاسی میدان تک کا جو حشر ہوا اس کا خمیازہ ہم نسل درنسل بھگتیں گے.
مولانا عبدالحق بلوچ ایک آئیڈیل تھے،انکی ذات سے لیکر بات تک ایک سادگی جھلکتی تھی.
نگاہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز
یہی رخت سفر میر کارواں کیلئے
وہ ناصرف قومی وسیاسی معاملات میں نوجوانوں کو عقل سے کام لینے کی تلقین کرتے تھے بلکہ وہ مذہبی جزبات کو ابھارنے اور مفادات کیلئے استعمال کرنے والوں کیخلاف تھے.
انکی علمی گفتگو اور مفکرانہ انداز کو سن کر ہر شخص پر سحر طاری ہوجاتی.
انکی زبان سے نکلی ہر لفظ میں ایک وسیع اور گہرا معنیٰ ملتا. وہ آیات قرآنی اور احادیث رسول (ص) کو جامعانہ انداز میں بیان کرتے تھے.
جب ملک کے عظیم دینی و تعلیمی درسگاہ جامعہ دارالعلوم کراچی میں انہوں نے تعلیم کی غرض سے داخلہ لیا تو طلباء کو انگریزی و ریاضی پڑھانے لگا جس پر وہاں کی انتظامیہ نے اسے منع کیا کہ انگریزی کو پڑھ کر شاید طلباء انگریز کلچر وثقافت سے متاثر نہ ہوجائیں لیکن آج اسی دارالعلوم کراچی میں طلباء کو میٹرک سے لیکر بی اے تک دینی ودنیاوی تعلیم دی جاتی ہے.
جب بھی مارچ کا مہینہ گردش کرکے آتاہے تو ماضی کے بند دریچے کھلنے لگتے ہیں اور نگاہیں اشکبار ہوتی ہیں کہ بلوچستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں اب قحط الرجال کاسماں ساہے. اب محفلوں میں کوئی ایسامقرر سننے کو نہیں ملتاجو عقل ودانشمندی سے قدم اٹھانے کی تلقین کرے اور مفادات سے بالاتر ہوکر نئی نسل کی فلاح وبہبود کیلئے سوچے.برحال کیاکریں کہ موت وحیات اللہ تعالی کے ہاتھ میں جب وہ جب چاہیے اپنی مرضی سے زندگی دیتاہے اور جب چاہیے انسان کی سانس روک دیتاہے اسی لیے تو ہم کہتے ہیں کہ جسم بھی اللہ نے دی ہے اور مرضی بھی اللہ تعالی کاہے بندہ عاجز وکمزور ہے.
16مارچ 2010کو مولانا عبدالحق بلوچ ہم سے بچھڑ گئے.
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا.
اس قحط الرجال کے دور میں گزشتہ دنوں مکران کا ایک اور علمی چراغ بجھ گیا عظیم عالم دین مولانا عبدالغفور دامنی رحمہ اللہ بھی داغ مفارقت دے کر چلے گئے. اللہ تعالی ان تمام شخصیات کی مغفرت فرمائے اور انکے فرزندان کو انہی کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاکرے. آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں