اور۔۔۔ اب بات جاپہنچی!

(رپورٹ /عزیز لاسی)
اور۔۔۔ اب بات جا پہنچی ہے کرونا وائرس کی وباء سے ہلاکتوں کی تعداد 26تک،جبکہ مشتبہ مریضوں کی تعداد 15709اورمصدقہ تعداد 2033بتائی جارہی ہے اور یہ تعداد بھی ان شہروں سے آرہی ہے جہاں کرونا وائرس کے ٹیسٹ کرانے کی سہولیات دستیاب ہیں جبکہ جن شہروں میں ابھی تک اسطرح کی کوئی سہولت نہیں وہاں کا ریکارڈ خاموش ہے ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس خود اپنے آپ کو محفوظ رکھنے سے محروم ہونے کی دہائی دے رہے ہیں
صوبے میں وفاداری بشرط استواری کی مثالیں قائم کرنے والوں نے وفاق کے حکم پر ایران باڈر کھول کر اب وفاق سے موجودہ صورتحال میں تعاون نہ ہونے کے گلے شکوے شروع کر دیئے ہیں تو دوسری طرف صوبے میں سرکاری افسران کے تبادلے وتقرریوں کا میوزیکل چیئر شو بھی روایتی انداز میں جاری رکھا ہو اہے
کرونا لاک ڈاؤن سے گھروں میں رہتے ہوئے لوگ بھی اب اُکتاگئے ہیں بلکہ فاقوں سے پریشان ہوگئے کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا اور غیر ضروری طور پر گھروں سے نکلنا شروع ہوگئے ہیں حالانکہ کاروبار ٹھپ پڑا ہوا ہے روزگار نہ ہونے کے برابر ہے لیکن وفاق نے شہروں کے درمیان گڈز ٹرانسپورٹ کھولنے کی اجازت دیکر نہ صرف شہروں میں اشیائے خوردونوش کی ترسیل بحال کرنے کا حکم دیکر ایک اچھا قدم اٹھایا جسکا فائدہ عوام اور ٹرانسپورٹرز کو ہونے کے ساتھ ٹرکوں اور کنٹینرز میں لوگوں کو بھی بھر کر دوسرے شہروں تک پہنچانے سمیت ممنوعہ اشیاء کی اسمگلنگ میں ملوث عناصر کے بھی دروازے کھول دیئے ہیں جسکے کیسز بھی رپورٹ ہورہے ہیں اور گزشتہ کئی دنوں سے اسکرین سے غائب بھائیوں کی ساحلی پاسداروں کے حق میں ایک رپورٹ بھی ٹیلی وژن پر نظر آئی اسکرین سے غائب سرکاری میڈیا بھی رات دیر سے وٹس اپ گروپوں سے لسبیلہ انتظامیہ کے کرونا سے بچاؤ کی خبریں جمع کر کے مقامی صحافیوں کی توسط سے اخبارات کی زینت بنانے لگا ہے
لسبیلہ انتظامیہ نے شہرمیں لاک ڈاؤن کو جسطرح موثر بنانے کیلئے اقدامات اٹھارکھے ہیں لیکن اسکے باوجود بعض اوقات دکانوں اور سڑکوں پر لوگوں کا رش ہوہی جاتا ہے تاہم انتظامیہ اور پولیس اپنی بھر پور کوششیں کر رہی ہے کہ لوگوں کو غیر ضروری طور پر بازاروں میں آنے سے روکا جائے جبکہ دوسری جانب اب بھی کئی فیکٹریاں چل رہی ہیں اور وہاں پر ہجوم کو روکنا مشکل ہوچکا ہے کیونکہ مزدوروں جس طرح سے کام کر رہے ہیں اور کھانے کے وقت انکا جمع ہوجانا کرونا وائرس سے بچاؤ کے سوشل ڈسٹینس کی نفی کر رہا ہے،
کرونا وائرس سے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر سمیت صوبائی حکومت کی طرف سے موجودہ صورتحال میں جو افراد اور خاندان متاثر ہوئے ہیں کیلئے امدادی پیکج کے حوالے سے جو پیچیدگیاں اور اضطراب پایا جارہا ہے اس متعلق لسبیلہ انتظامیہ نے براہ راست میڈیا سے کوئی بھی بات شیئر کرنے اور لوگوں تک سچ اور حقائق پہنچانے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے اور نی کوئی انفارمیشن ڈیسک بنایا گیا ہے جو کہ انتظامیہ کی حالت زارہو۔۔۔ شاید۔۔۔!
امدادی پیکج کو لیکر بعض حلقوں کی طرف سے سیاسی مخالفین پر تنقید کے تیر برسائے جارہے ہیں اور سوشل میڈیا پر سیاسی جذبات کا اظہار کر کے عام لوگوں میں اشتعال پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس لیئے ضروری ہے کہ انتظامیہ تمام معاملات کو واشگاف الفاظ میں بیان کرے اور مشکل کی اس گھڑی میں عام لوگوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے والے عوام میں اشتعال کے بجائے ان میں آگاہی پر اپنی توانائیاں خرچ کر سکیں،
گزشتہ روز کامریڈ فقیر کی پریس ریلیز نظر سے گزری جس میں انھوں نے حکومت سے التجا ء کی ہے کہ تفتان بارڈرسے داخل ہونے والوں کو اگر ہیلی کاپٹر کے ذریعے انکے اپنے اپنے علاقوں میں قائم قرنطینہ میں پہنچادیا جاتا تو وائرس کے پھیلنے کے خدشات کو کم کیا جاسکتا تھا کامریڈ کی تجویز تو بجا ہے لیکن ہیلی کاپٹر تو برف باری کے مزرے لینے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے مگر کرونا کے مشتبہ اور مصدقہ مریضوں کو لیکر اسے کرونازدہ تو نہیں کیا جاسکتا تھا اور بلا یہ رسک کیسے لیا جاتا؟
اسوقت جہاں ملک بھر کی طرح حب میں بھی موجودہ صورتحال سے متاثرہ افراد حکومتی امداد کے منتظر ہیں اسی طرح سے پرائیویٹ اسکولز انتظامیہ کی جانب سے بچوں کی چھٹیوں کی فیس کی وصولی کیلئے بھی واویلہ مچاہو اہے ایک طرف سختی سے حکم دیا ہے گیا ہے کہ چھٹیوں کی فیس ادا نہ کر کی جائے تو دوسری جانب والدین کو آئے روز فیس کی ادائیگی کیلئے پریشان کیا جارہا ہے اور موجودہ حالات میں بھاری فیسوں کا بندوبست کرنا بھی والدین کیلئے کسی امتحان سے کم نہیں لہٰذا اسطرف بھی حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے اور جلد کسی پالیسی کا اعلان کیا جائے جس سے پرائیوٹ انتظامیہ اور والدین دونوں مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں
حب کے بازاروں میں ویرانی ہے راشن کی دکانوں پر کبھی کھبار رش ہوجاتا ہے لوگ روزگار کے ذرائع ختم ہونے کے بعد نان شبینہ کو محتاج نظر آتے ہیں وہاں پر حب کے گٹکا خور موجیں کرتے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ حب شہر میں قائم مضر صحت گٹکا اور ماوا تیار کرنے والے کارخانوں میں کام جاری ہے وہاں پر کرونا الرٹ لاک ڈاؤن کے کسی بھی قسم کے اثرات اور قانون کی بالادستی نظر نہیں آتی،
عوامی حلقوں کی جانب سے کرونا فنڈقائم کرنے کے حکومتی اقدام پر بھی تنقید کی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ جسطرح ڈیم فنڈ،قرض اتارو ملک سنوارو،زلزلہ فنڈ کی جو حالت کی گئی کہیں کرونا فنڈ کے ساتھ بھی ویسا حشر نہ ہو لیکن صاحب ثروت حضرات کو بھی اگر اس فنڈز سے اعتراض ہے تو وہ خود ہی میدان میں آئیں اور لوگوں کی مدد کی جائے لوگوں کے گھروں تک راشن کی ترسیل کو ممکن بنایا جائے لازماً اگر انکے پاس اپنے کاروبار کو چلانے کیلئے بہترین انتظاما ت ہیں اور اپنی پیداوار کو مارکیٹوں تک پہنچانے کے جسطرح کا نظام موجود ہے تو شہروں دیہاتوں کلیوں گوٹھوں میں لوگوں تک راشن بھی پہنچایا جاسکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں