اور۔۔۔۔ اب بات جاپہنچی !

(رپورٹ/عزیز لاسی)
لو ٹ کھسوٹ رشوت ستانی،سیلاب زلزلہ،وباء کرپشن،اقرباء پروری،سکھاشاہی اور حقوق کی جنگ یہ سب وہ حقائق اور وبائیں ہیں جنکا سامنا قوم کر رہی ہے اس نفسا نفسی کے عالم میں ہر شخص شارٹ کٹ سے راتوں رات امیر بننے کی دوڑ میں غلط کو بھی درست قرار دینے کی دلیلیں دیتا پھر رہا ہے سرکاری ادارے ہوں یا پھر نجی دفاتر کوئی بھی کام خاطر توازہ اور مٹھی گرم کئے بغیر نہیں ہوتا حالانکہ صیح کام کو بھی ٹیڑے راستے سے کرنے کے گُر سکھائے جاتے ہیں ماضی میں ایک ادارے میں جھاڑو پونچھے کے فنڈز بھی وزراء کی دعوتوں پر خرچ کرنے کے مناظر دیکھے شاید اب بھی ہو رہا ہو،افسر شاہی کی اقرباء پروری اور نوکر شاہی کی سکھاشاہی کی بھی مثالیں موجود ہیں کرپشن کی بیخ کنی کرنے والے اداروں کی زد میں رہنے والوں کو مزید خدمات کی سرانجام دہی پر دیکھا،دودھ کی چوکیداری بلی کو سونپنے کی باتیں سننے اور دیکھنے کو ملیں ایک طرف گڈ گورننس تو دوسری جانب اپنوں کو نوازنے کا تسلسل بھی،،،،،،!
موجودہ صورتحال میں تمام سرکاری اداروں کو انکے ملازمین کو تنخواہیں وقت سے قبل ادا کرنے کی ہدایت ہے لیکن بلوچستان کے بڑے صنعتی شہر حب کی صنعتوں کے خدمت گار اتھارٹی لیڈا کے ملازمین آج بھی پچھلے ماہ کی تنخواہوں کیلئے سراپااحتجاج ہیں افسر شاہی اور اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کے باورچی خانوں سے صبح کے ناشتے اور دوپہر و رات کے کھانے کی خوشبوئیں آرہی ہیں لیکن کرونا وائرس الرٹ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بیروزگار ہونے والوں کے گھروں کے باورچی خانوں کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں اور بچی ہوئی روٹی کے ٹکڑوں پر جو چونٹیاں گزارا کرتی تھیں اب انھوں نے بھی نقل مکانی کرنا شروع کردی ہے شہر میں پیشہ وربھکاری جو کہ اللہ کے نام پر 20/10روپے کی صدالگاتے تھے اب وہ بھی کہتے ہیں صاحب بچے بھوکے ہیں ہمیں آٹا دلاؤ۔۔۔۔!
آج کل کے حالات میں بچارے سفید پوش اور باضمیر شہری جو کہ روزانہ اُجرت پر باعزت طریقے سے اپنے خاندانوں کی کفالت کر رہے تھے وہ کہاں جائیں کسی کے سامنے فریاد کرنے اور ہاتھ پھیلانے کیلئے اُنکا ضمیر اجازت نہیں دے رہا لہٰذا ان حالات میں انکی خاموش طریقے سے امداد کرنا ہر صاحب ثروت شخص کا فریضہ ہے حکومت کا امدادی پیکج کب تک آتا ہے کوئی ٹائم فرہم مقرر نہیں ان دنوں تو سوشل میڈیا پر حکومتی پیکج کو لیکر ایک طرح کی جنگ چھڑی ہوئی ہے اس پر سب سے پہلے 90کی دہائی کے حب کے غازی مولانا ساسولی نے سوشل میڈیا پر صدائے کاحتجاج بلند کیا اور گزشتہ روز بآخر انکا وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ سے رابطہ ہوا اور انہیں طارق بلوچ نے یقین دہانی کرائی کہ وزیر اعلیٰ جام کمال خان صاحب امدادی پیکج تشکیل دے رہے ہیں دوسری جانب مولانا صاحب کی عقابی نظروں سے حب کے وائن شاپ بھی بچ نہ سکے اور انکی نشاندہی پر مقامی انتظامیہ نے نوٹس لیکر شراب خانوں کو بھی بند کرادیا اُنکا مطالبہ جائز تھا کہ لوگ نان شبینہ کو محتاج ہو رہے ہیں اُدھر مے خور موجیں اڑارہے ہیں لیکن اب بھی حب میں قائم شراب کی فیکٹری۔۔۔! 90کی دہائی میں جب مولانا ساسولی بھی آتش جوان تھے اور اب شاید آتش فشاں ہو گئے ہوں بہر حال وہ اپنا کام کر رہے ہیں،،،،،،،!
جہاں تک بات رہے موجودہ صورتحال جس میں حکومت نے مزید14دنوں کی توسیع کا اعلان کیا ہے اس دوران ضرورت مند خاندانوں میں راشن کی تقسیم تو گڈانی کے نوجوانوں نے ہمت مرداں مدد خدا کی مثل کے مترادف قدم اٹھایا اور اپنی جدوجہد میں کامیاب ہوئے اور گڈانی کے ایک شپ بریکر سلام انٹرنیشنل انٹرپرائز نے گڈانی کے لوگوں کی مدد کیلئے راشن مہیا کیا ہے لہٰذا سلام انٹر نیشنل کی پیروی کرتے ہوئے دیکر شپ بریکرز کو بھی آگے آنا چاہئے گوکہ موجودہ صورتحال سے قبل ہی ڈالر اور پاکستانی روپے کی اونچ نیچ کے دوران اُنکا کاروبار ٹھپ پڑا ہے لیکن پھر بھی سیٹھ لوگ ہیں انھوں نے جس سرزمین سے کما کر کاروبار کو وسعت دی تو اس سرزمین کے لوگوں پر اگر مشکل وقت آیا ہے تو اُنکی مدد کرنا بھی انکے فرائض میں شامل ہونا چاہئے حب میں بڑے بڑے صنعتی گروپ موجود ہیں صرف لسبیلہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری پر سب کچھ چھوڑدینا مناسب نہیں صنعتی شعبے میں بڑے بڑے نام رکھنے والے سیٹھ حضرات کو بھی آگے آنا چاہئے حب میں کام کرنے والی مختلف سیاسی جماعتوں اور تنظیموں نے بھی اپنے طور پر مدد وامداد کا کام شروع کررکھا ہے اور یہ ایک اچھا اقدام ہے کہ وہ بغیر کسی تشہیر اور فوٹو سیشن کے لوگوں کی امداد کر رہے ہیں،
اور۔۔۔ اب بات جاپہنچی ہے بلوچستان کے ایوان تک کرونا وائرس کے پہنچنے کی،،،،! گزشتہ روز سوشل میڈیا پر بلوچستان کے ایک صوبائی وزیر اور ایک سیکرٹری صاحب کے درمیان تلخ کلامی سے بات آگے بڑھنے کی خبر وائرل ہو ئی جو کہ افسوس کی بات ہے کہ ایک سیکرٹری منتخب عوامی نمائندے کا فون تک اٹینڈ نہیں کرتا تو پھر اس سے نچلی سطح کی بیورو کریسی کا عوام کے ساتھ رویہ کس طرح کا ہوگا کیا یہ سب گڈگورننس کا قصور ہے یا پھر حکومت اور بیوروکریسی کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج ہے
ہمارے معاشرے میں المیہ یہ ہے کہ اگر سچ کہو اور سچائی کا آئینہ دکھاؤ تو جان کے دشمنوں میں اور زبان بندی کرنے والوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اور یہی سلسلہ راقم الحروف کے ساتھ بھی ہے لیکن حق اور سچ کو چھپا کر اپنے ضمیر پر بوجھ بھی برداشت نہیں ہو رہا اس بات کا پہلے بھی ذکر کیا جاچکا ہے کہ اب تک کرونا وائرس کے جو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں وہ ان علاقوں سے ہیں جہاں پر ٹیسٹ کی سہولیات دستیاب ہیں اب اگر حب کے سب سے بڑے اسپتال میں کسی ایکسیڈنٹ کے زخمی کا خون روکنے کیلئے کاٹن اور بینڈج‘پٹی‘اور ڈاکٹراور پیرامیڈیکس کو ہاتھ صاف کرنے کیلئے اسپرٹ تک دستیاب نہ ہو تو کرونا کی بات ہی چھوڑدیں نا
موجودہ صورتحال کی وجہ سے نہ صرف شہروں میں محنت مزدوری کرنے والا طبقہ پریشان ہے بلکہ دیہاتوں میں کھپتی باڑی اور کاشکاری کرنے والے کسان اور زمیندار بھی حالات کی گھمبیر ات کی لپیٹ میں ہیں فصلیں تیار ہیں پھل اُتارنے اور کٹائی کرنے والے نہیں،جو فضل اُتر چکی ہے مثال کے طور پر ٹماٹر اور بیگن وغیرہ اُسکی مارکیٹ نہیں مل رہی ٹماٹر 300روپے کلو فروخت ہورہا تھا اور اب لسبیلہ کا ٹماٹر تیار ہو کر مارکیٹ میں جانے لگا تو فی کریٹ 200سے بھی کم قیمت پر آگیا سوچنے کی بات یہ ہے کہ جن کاشتکاروں نے لاکھوں روپے خرچ کئے ہونگے فصل کی تیاری پر اور اب انہیں انکا مُل نہ ملے تو انکے نقصان کا اندازہ انکے غمگین چہروں کی دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کو چاہئے وہ صوبائی ہو یا وفاقی دونوں کو نہ صرف شہروں میں موجودہ صورتحال سے متاثرہونے والوں کی مدد کیلئے پیکج تشکیل دینا چاہئے بلکہ غریب کسان ہاریوں اور کاشتکاروں اور زمینداروں کی حالت پر رحم کرنا چاہئے اور صرف گفتار کے غازی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی حکمران ہونے کا ثبوت دیکر ریاست مدینہ کی مثال قائم کی جائے

اپنا تبصرہ بھیجیں