پاکستان کا اصل مسئلہ کیا؟

روز اول سے یہ بحث جاری ہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ کیا ہے؟سوال کی ہیئت سے ظاہر ہوتا ہے کہ پوچھنے والا بحث کو سمیٹنا چاہتا ہے،اس نے پہلے ہی سوالات کی فہرست ممکنہ حد تک مختصر کر دی ہے،اس کے سامنے دو سوال ہیں: اول: سیاسی؟؛ دوم: معاشی؟نقلابی سیاسی دانشوروں کا خیال ہے کہ سیاست معیشت کے تابع ہوتی ہے۔گویا وہ بھی اسی نتیجے پر پہنچے کہ کوئی معاشرہ ہو یا ریاست،سوال صرف سیاسی اور معاشی دواقسام کے ہوتے ہیں،اور دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ معاشرہ یاریاست ان دو ستونوں پر ایستادہ ہے۔یہ دو ستون جتنے مستحکم ہوں گے،معاشرہ یا ریاست اتنے ہی مضبوط اور تواناہوں گے۔کسی ایک کوترجیح نہیں دے سکتے، دونوں کو بیک وقت یکساں نوعیت کی توجہ اور دیکھ بھال درکا رہے۔ اچھی سیاست،اچھا ماحو ل فراہم کرتی ہے اور اچھے ماحول میں معیشت پھلتی، پھولتی ہے۔مضبوط معیشت کے نتیجے میں عوام کی فلاح و بہبود کے مواقع بڑھتے ہیں۔ مضبوط معیشت کے بغیر عوام بہتر خوراک،معیاری تعلیم،ضروری علاج معالجہ، اور انسان دوست ماحول کی فراہمی محض ایک نعرہ کی حیثیت رکھتی ہے،عملی روپ دھارنا ممکن نہیں۔پاکستان کرہئ ارض پر موجود195ممالک کی برادری میں شامل ایک آزاد اور خود مختارملک ہے جو دیگر190ممالک کی طرح ویٹو پاور رکھنے والے ملکوں (امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور جرمنی)کے رحم و کرم پر ہیں۔یہ شکایت ترکی کے صدر طیب اردوان نے 2018میں اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں در ج کرائی۔ملائیشیا اور پاکستان نے اس کی باضابطہ تائید کی، بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر تینوں ملکوں نے اپنا انٹرنیشنل ادارہ برائے فروغ اسلامی معلومات یا اینٹی اسلاموفوبیا اقدامات بنانے کا اعلان بھی کر دیا۔یہ منصوبہ اس لئے نہ بن سکا کہ عالمی طاقتوں نے پاکستان کی معاشی کمزوری کے پیش نظر دباؤ ڈالا۔وہ ملک اور معاشرہ اپنے بنیادی حقوق کے آواز بھی بلند نہیں کرسکتا جس کی معیشت کمزور ہو۔کمزور معیشت کوبہتر بنانے کے لئے انتہائی دانشمندی سے آگے بڑھنا ضروری ہوتا ہے۔ دوسروں کی مجبوریوں کا تخمینہ لگا کر اپنی مجبوریوں کا تبادلہ کرنے کی خاموش حکمت عملی اختیار کرنا لازمی ہوتا ہے۔چین نے کسی قسم کی جنگی مہم جوئی سے بچتے ہوئے حالات کا بھرپور سنجیدگی سے معروضی انداز میں تجزیہ کیا اور اپنے وقار کا سودا کئے بغیر معاشی کمزوری سے نکلنے کی راہ اپنائی۔ آج عالمی مارکیٹ میں سب سے بڑا شیئر چین کے پاس ہے۔امریکہ جیساترقی یافتہ ملک اکلوتی عالمی قوت کا اعزازرکھنے کے باوجود چین کے سامنے بے بس نظر آتا ہے۔روس نے سامراج سے دوبدو لڑنے کی حکمت عملی اپنائی،نتیجتاًخود معاشی مسائل میں گھر گیا۔افغانستان میں افواج کو بھیجنا مہنگا پڑا، اپنا ملک ٹوٹ گیا۔چین اس دوران مضبوط معاشی قوت بن چکا تھا،روس سے 200ارب ڈالر کی قدرتی گیس خریدنے کا معاہدہ کیا،پیشگی ادائیگی کی۔اس معاہدے نے روس کو اپنی معاشی مشکلات دور کرنے میں مدد دی۔ پاکستان کے ساتھ بھی چین نے سی پیک نامی معاہدہ کیا،جو روز اول سے آج تک صیغہئ راز میں ہونے کے باعث ماہرین معیشت کی نگاہوں میں پراسرار ہے۔ماہرین میں سے بعض اسے ملکی مفاد میں اچھا اور بعض براسمجھتے ہیں۔دونوں کے پاس دلائل ہیں۔حقائق سامنے نہ ہونے کے باعث عوام کچھ کہنے یا نہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں۔ پاکستانی حکومت شائد سامراجی مخالفت کے سبب تمام تفصیلات بتانا مناسب نہیں سمجھتی۔یا ممکن ہے چین نے خاموش رہنے کا مشورہ دیاہو۔لیکن دنیا میں کوئی چیز ہمیشہ خفیہ نہیں رہتی۔بدلتے ہوئے معاشی اور سیاسی مفادات فریقین میں سے کسی ایک کوبولنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ابھی سی پیک دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا ہے۔ متعدد مراحل میں مکمل ہوگا۔تکمیل کے بعد ہی عوام اندازہ لگا سکیں گے کہ ریاستی مفادات کس حد تک محفوظ رہے اور کہاں پاکستانی دستخط کرنے والوں سیندک اور ریکوڈک کاپر اینڈ گولڈ پروجیکٹس کی طرح اپنی آنکھیں بند اور جیبیں /تجوریاں کھلی رکھیں؟جب حقائق سامنے آنے میں کتنی دہائیاں لگیں؟ اس وقت جو زندہ ہوں گے، مناسب تجزیہ کریں گے، مناسب رد عمل کا اظہار کریں گے۔فی الحال ہمارے حکمران ایک ایسی احمقانہ جنگ لڑنے میں مصروف ہیں جس کا انجام بظاہر اچھا دکھائی نہیں دیتا۔ ابھی تک انتخابی قوانین اور انتخابی نتائج جیسے بچگانہ مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔قانون سازادارے کے معزز اراکین کو یہ بھی معلوم نہیں کہ بیلٹ پیپر پر مہر کہاں لگانی ہے۔3مارچ کو قومی اسمبلی کے انتخابی عمل میں 7ووٹ مسترد ہوتے ہیں،امیدوار یوسف رضا گیلانی جیت جاتے ہیں۔ اپوزیشن کی نظر میں یہ جمہوریت کی جیت تھی۔12مارچ کو ایک بار پھر7ووٹ مسترد ہوتے ہیں اور یوسف رضا گیلانی ہار جاتے ہیں،اس بارحکومت کہتی ہے: یہ جمہوریت کی جیت ہے۔عام آدمی حیران ہے، جمہوریت دونوں جگہ جیتی اور دونوں جگہ ہاری ہے۔حالانکہ امدوار ایک ہے، مسترد ہونے والے ووٹوں کی تعداد بھی یکساں ہے۔جس پارلیمنٹ کو 22/23کروڑ عوام کو غربت، بیماری، جہالت،بیروزگاری اور پسماندگی سے نکالنے کی حکمت عملی طے کرنا تھی وہ کیسے مشغلوں میں مصروف ہے؟ کیا یہ رویہ ان کے شایان شان ہے؟اس فضول بحث میں الجھ کرکیا وہ اپنے بچوں کا مستقبل روشن بنا رہے ہیں؟ جو ریاستیں اپنے مستقبل سے آنکھیں بند کرلیتی ہیں،تاریخ ان کا فیصلہ خود سناتی ہے۔یاد رہے کہ پاکستان حکومت اپوزیشن،بیوروکریسی (سول اور ملٹری دونوں) اور عوام کی مشترکہ میراث ہے۔ سب نے مل کر اس کی حفاظت نہ کی توانہونی ہو کر رہتی ہے۔ صرف دعاؤں سے مشکلات دور ہوسکتیں تو شامی بچوں کی بے گوروکفن لاشیں دنیا نہ دیکھتی۔یمن میں بھوک اور بے بسی کا راج نہ ہوتا۔سعودی عرب کے حکمران اپنی مقدس سرزمین پر آنے سے زائرین کو نہ روکتے۔پاکستانی کرتا دھرتاؤں کواپنی فکری اصلاح کرنا ہوگی،اور اپنے اعمال درست کرنا ہوں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں