بلوچستان سے بلوچستان تک،پہلی قسط
تحریر: عبدالقیوم بزدار
قارئین !!اگرمیں دعوی کروں کہ ڈیرہ جات اور بالائی سندھ بلوچستان کے حصے ہیں توہچ مضائقہ نیست کیونکہ بلوچ اگراپنی تاریخ سے واقف ہوتے تو یہ علاقے پنجاب ،کے پی کے اورسندھ میں نہ ہوتے بلکہ بلوچستان میں ہوتے وائے قسمت !!تعلیم یافتہ نوجوان اورباشعورسیاسی کارکنان مادروطن کی تاریخ سے ناواقفیت کی وجہ سے اس قومی مسئلے کے ہرپہلواورزاویے کاصحیح ادراک کرنے میں ناکام رہے جس کی وجہ سے جذباتی نعروں اورپکارکی شدت میں تو آضافہ ہوا لیکن ٹھوس پیش رفت نہ ہوسکی اس لیے خاکسار نے حتی الوسعٰ کوشش کی کہ بغض وکینہ سے بالاتر کچھ تاریخی مستند روایات کا سہارا لے کرعوام وخواص”بلوچستان سے بلوچستان تک “ تک پہنچانے کی کوشش کی بلاشبہ !یہ کوشش ایک نحیف کوشش توہوسکتی ہے لیکن مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کا ایک بریک تھرو ثابت ہوسکیں گی اس لیے قارئین ! جب ہم اس تاریخی حقیقت کوسمجھنے کے لیے تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کرتے ہیں توہمیں معلوم ہوتاہے کہ یہ تمام(بلوچ) علاقے جوآج سندھ ، سرحداورپنجاب میں واقع ہے کل تک یعنی انگریزکی قبضہ گیریت سے پہلے بلوچ کانفیڈرنسی سے منسلک تھے یا نیم خودمختارعلاقہ جات و ریاستیں تھیں قارئین !دلچسپ امریہ ہے کہ اسلامی انسائیکلوپیڈیا ہمارے اس دعوی کی تائید کرتا ہے کہ ”بلوچستان شمال کی طرف فارس کے علاقے کرمان اورباشگرد سے ہوتے ہوئے سندھ اورپنجاب کے مغربی سرحدوں تک واقع ہے “اس بارے انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا میں رقم طرازہے ” شمال میں دریائے گومل ( D I Khan),جنوب میں بحیرہ عرب ( کراچی ،گوادار) تک اورمغرب میں ایران کے سرحدی علاقو ں سے لے کر کوہ سلیمان (ڈی جی خان ،راجن پور) تک کاعلاقہ بلوچستان کہلاتاہے“اس کے علاوہ بہت سے مؤرخین اور سفرنامہ نگار بلوچستان کی سرحدوں کے متعلق ہمارے مؤقف کومن وعن تسلیم کرتے ہیں جیساکہ ڈاکٹرعنایت بلوچ اپنی کتاب ”عظیم تربلوچستان کے مسائل “میں لکھتے ہیں ”ایک دفعہ برطانوی وفد نے خان قلات سے پوچھا کہ بلوچستان کی حدوداربعہ کیا ہے تواس نے لطیف پیرائے میں جواب دیا میرے اباواجداد میرنصیرخان نے اس سوال کاجواب توپہلے دیا کہ میں آپ کی معلومات اوردلچسپی کے لیے دوبارہ دہراناچاہتاہوں کہ اس خطے میں ہروہ علاقہ جہاں بلوچ آباد ہے بلوچستا ن کہلاتاہے“بعینہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ( مندرجہ بالا بلوچ ) علاقوں میں بلوچوں کی اکثریت ہے اوردراصل بلوچوں کی موجودگی کی وجہ سے یہ علاقہ بلوچستان کہلاتاہے ورنہ بلوچ نیستان اورتواورمسلمان سفرنامہ نگار ابن بطوطہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سلاطین دہلی کے زمانے میں ملتان صوبے کاآخری حد دریائےسندھ کامشرقی کنارہ تھا یعنی تیرہویں صدی میں بھی ڈیرہ غازی خان ملتان صوبے کا حصہ نہیں تھا اورنہ ہی لاہورکا بلکہ اس وقت بھی اس علاقے میں بلوچ آبادتھے بعدکے سالوں میں مزیدبلوچ قبائل آئے اورآبادکاری کی اسی طرح خلاصتہ تواریخ ازسبحان رائے اورانڈیاآف اورنگزیب میں اندراج ہے کہ ملتان سے پانچ کوس کے فاصلے پر بلوچوں کاملک یعنی ڈیرہ غازی خان ہے
اوپرتحریرکیےگئے تاریخی حوالہ جات کا خلاصہ چندسطروں میں یوں بیان کیاجاسکتاہے کہ مشرق میں دریائے حب،کیرتھر اورسندھودریا بلوچستان کابرصغیرسے فطری سرحدہے شمال میں دریائے گومل اورکوہ سلیمان بلوچوں اورپشتونوں کے درمیان سرحدہے اورمغرب میں دشت لٹ اوردشت کاویر بلوچوں اورفارسیوں کے درمیان سرحدجداکرتی ہےالغرضیکہ سیستان سے لے کر دریائے سندھ تک کاعلاقہ رقبے میں پاکستان کا ۵۴ فیصدبنتاہے یااس سےاوپربلوچ کی ملکیت ہے جہاں تہذیبی ارتقا مسلسل حرکت پذیر ہے اورانگریزوں کی طرح یہاں کے کالے حکمران ”پھوٹ ڈالواورحکومت کرو“کی پالیسی پر عمل پیراہے اوریہاں سامراجی ہتھکنڈو ں کو پہلےسے زیادہ استعمال میں لایاجارہاہے جسکی وجہ سے بلوچستان بھرمیں بے چینی اور اضطرابی کیفیت پائی جاتی ہے افسوس صدافسوس!!نااہلی اوراقرباپروری کی وجہ سے پوراملک ٹوٹ پھوٹ کاشکارہے اورتادم تحریرساری وجاری ہے