کُرونا وائرس ،پنجگور اور قیادت کا بحران۔
عبیداللہ بلوچ
چین کے شہر ووہان سے پھیلے والے کُرونا وائرس نے بنی نو انسان کو تاریخ کے خوفناک دو راہے پر کھڑا کر دیا ہے ۔اب تک کی تمام ایجاد شدہ ادویات اس وائرس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ پا رہے ہیں ۔ماہرین صرف احتیاطی تدابیر کو بچاؤ کا واحد ذریعہ بتا رہے ۔چین نے لاک ڈاؤن کے ذریعے وائرس کو یوہان تک محدود کرکے قابو پانے کی حکمت عملی پر عمل کرنے کی کوشش کی لیکن دیکھتے دیکھتے وائرس دنیا کی بیشتر ممالک میں پھیل گیا ۔ معیشت کا بٹھہ بیٹھ گیا تمام ملک اپنے سرحدوں میں سمٹ گئے ۔لوگ گھروں تک محدود ہوگئے۔اچانک ہمارے پڑوسی ملک ایران میں وائرس نے اپنے پنجے گاڑ دیئے۔جب خطرہ ہمارے سر پہ پہنچ گیا تو ہماری روایتی نااہلی اور غفلت عیاں ہوا۔ایران میں پھنسے ہزاروں زائرین تفتان کے راستے واپس آنے لگے تو بلوچستان گورنمنٹ نے قرنطینہ کے نام پر انہیں خیموں اور کنٹینر میں رکھنا شروع کیا ۔پندرہ دن رکھ کر ان لوگوں کواپنے اپنے صوبوں کو روانہ کیا گیا وہاں جاکر ٹیسٹ کرنے پر کئییں کے کُرونا رپورٹ مثبت آئے پھر وہی روایتی الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہوا سارا ملبہ بلوچستان حکومت پر آگیا۔ہون تو یہ چاہئیے تھا کہ حکومت کو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سیکھ کر دانشمندی سے اس وباء سے مقابلہ کرنا چاہئیے تھا لیکن لگتا ہے کہ یہاں سیکھنے کا روایت ہی مقفود بس غلطیاں ہی دہرائی جاتی ہیں۔
حکومت نے ملک بھر میں لاک ڈاؤن اور سرحدیں بند کرنے کا اعلان کر رکھا ہے لیکن پاک ایران سرحد پر قانونی آمدورفت اور تجارت بند ہونے کے باوجود روزانہ سینکڑوں تیل بردار گاڑیوں میں ہزاروں لوگ پنجگور کے تحصیل پروم کے مقام پرسرحد دونوں جانب آتے جاتے ہیں ۔ان لوگوں میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جنکا تعلق ایران کے کُرونا متاثرہ علاقوں سے ہوتا ہے۔ایسا صرف لوگوں کے ہوس زر کی وجہ سے ہورہا ہے وہ قیامت سے ایک دن پہلے پیسہ جمع کرنا چاہتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ شاید اجل کا فرشتہ سرحدی محافظ ہے جس کو رشوت دیکر ٹال دینگے ۔یہ سب انتظامی گرفت اور اجتماعی نہ ہونے کی وجہ سے ہورہا ہے۔ انتظامیہ کہیں ہے کہ نہیں ہے کی کیفیت سے دوچار ہے۔انتظامی سربراہ ڈپٹی کمشنر ہے ۔ڈپٹی کمشنر معاملات کو سمجھنے اور گرفت میں لانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک بلا وجہ انکا تبادلہ ہوا لگتا کہ وباء کے دنوں میں صوبائی حکومت کے پاس کافی وقت ہے جو آفسران کے تبادلوں پر سرف ہورہا ہے ۔دوسرے ڈپٹی کمشنر نے چارج سنبھالا ہی تھا کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے پہلا حکمنامہ ہیں منسوخ کردیا تادم تحریر پتہ نہیں کہ پنجگور کا ڈی سی کون ہے۔بلوچستان کو بازیچہ اطفال بنا دیا گیا ہے روز ایک تماشہ ہورہا ہوتا ہے۔انتظامیہ میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جن کا دعوی ہےکہ سرحد مکمل بند ہےکاروبار اپنی جگہ کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار رہا۔اب کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟
اب رہی بات اجتماعی شعور کی اس کی نمائندگی سیاسی جماعتوں ،مذہبی رہنماؤں اور سول سوسائٹی پاس ہے۔سیاسی پارٹیوں کو اس وبا ء کے دنوں ڈھونڈنا کارے دار د ہے۔کچھ نے اعلانیہ اور کچھ نے غیر اعلانیہ اپنے آپ کو لاک ڈاؤن کیا ہوا ہے۔مذہبی طبقہ اپنے عقائد کو وباء کے بد اثرات سے بچانے کی کوشش میں مصروف عمل ہے۔سوسائٹی ابھی طفل ہے گھٹنوں کے بل چل رہاہے ان سے شاہ سواری کا توقع رکھنا ہی عبث ہے۔