عنوان: انسانیت کا پیامبر۔ڈاکٹر

تحریر: خالد بشیر

‘میں اللہ اور یہاں پر موجود تمام لوگوں کے سامنے اس بات کا حلف اُٹھاتا ہوں/ اُٹھاتی ہوں کہ میں اپنے تمام اساتذہ کو عزت و احترام دوں گا /دوں گی۔ میں اپنے کام کو پوری ایمان داری اور لگن سے کروں گا / کروں گی۔ میری پہلی ترجیح میرے مریض کی صحت ہوگی اس میں کسی بھی مذہب، قومیت، نسل یا کسی بھی سیاسی یا سماجی تحریک کو اپنی ڈیوٹی اور مریض کے درمیان نہیں لاؤں گا / لاؤں گی۔ میں وعدہ کرتا ہوں / کرتی ہوں کہ اپنا یہ کام آزادی اور وقار سے سر انجام دوں گا / دوں گی۔‘

یہ وہ حلف ہے جو طب کی تعلیم حاصل کرنے سے پہلے میڈیکل طلباء اٹھاتے ہیں۔ مریضوں کے علاج و معالجے میں کوئی تفریق تو کجا یہ مسیحا صفت لوگ تو اپنی خوشی، غمی کو بالائے طاق رکھ کر انسانیت کی خدمت کا مقدس فریضہ انجام دیتے ہیں۔

محاذ ہو یا دہشتگرد حملے کے بعد ہسپتالوں میں نافذ کی گئی ایمرجنسی، یہ طبیب درد کی دوا کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ عظیم پیشہ قربانیاں بھی عظیم مانگتا ہے، ذاتی خوشی و غمی تو ایک طرف قومی دن یا مذہبی تہوار کی چھٹیوں کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔ اسپرٹ اور دوائیوں کی بو میں کبھی پوری پوری رات جاگ کر گزاری جاتی ہے تو کبھی کسی بھی ہنگامی صورت میں گھر پر گہری نیند سے جاگ کر فوراً ہسپتال پہنچنا پڑتا ہے۔

نومبر 2019 میں چین کے شہر ووہان سے نمودار ہونے والا خوفناک وبائی مرض کرونا وائرس جس نے چین ،اٹلی ،امریکہ و دیگر ترقی یافتہ ممالک کے شعبہ صحت کی کارکردگی پر جہاں بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے اور ہر طرف قیامت برپا کی ہے جنہوں نے اپنی تمام تر ٹیکنالوجی کے حربے استعمال کئے اور تا حال اس سے نمٹنے کے لئے سر توڑ کوششں کر رہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد لاکھوں میں جب کہ ہلاکتوں کی تعداد چونتیس ہزار سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ اٹلی جیسے ترقی پذیر ملک میں دس ہزار افراد کی اموات پوری دنیا کے لئے ریڈ الرٹ کی صورت حال پیش کر رہی ہے۔ اس وبائی مرض سے نمٹنے کے لئے کیوبا کہ حکومت نے اپنے پروفیشنل ڈاکٹرز کو اٹلی بھیج دیا ہے جہاں وہ عوام کے علاج معالجے میں پیش پیش ہیں۔

ترقی پذیر ملک پاکستان کےوفاقی و صوبائی حکومتوں نے تعلیم اور صحت کے شعبوں پر سرے سے ہی کام نہیں کیا اور اس کا سب سے زیادہ شکار مظلوم و محکوم عوام کا صوبہ بلوچستان ہے جہاں حکومت اور پورا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور اس کا خمیازہ پورا طبی عملہ اور غریب عوام بھگت رہا ہے۔

بلوچستان میں مرکز کے علاوہ کسی بھی علاقے میں ابتدائی طبی امداد کے سہولیات بھی موجود نہیں ہے
جسکی وجہ سے کینسر جیسی موذی مرض ،دوران زچگی اور ٹریفک حادثات سے اموات کے واقع ہونے کی شرح ملک کے دیگر صوبوں سے زیادہ ہے۔محکمہ صحت کی افسر شاہی ڈاکٹرز کو ڈیوٹی سر انجام نہ دینے کی پاداش میں سولی پر لٹکانے کی دھمکی دے رہے ہیں جو کہ قابل مذمت ہے جبکہ دوسری طرف یہی سول بیوروکریسی اور نااہل حکمران کرونا وائرس کے خلاف لڑنے کیلئے میڈیکل اسٹاف کو درکار احتیاطی تدابیر کے حوالے سے ضروری آلات فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔

جب صوبہ کے فرنٹ لائن ہیروز جن میں ڈاکٹرز، نرسز، پیرا میڈیکل اسٹاف ،سیکورٹی گارڈ اور مختلف کام سر انجام دینے والے عملہ کو اس وبائی مرض سے لڑنے کے لئے بنیادی سہولیات مہیا نہیں کی گئی تو عوام کا اللہ ہی حافظ ہے۔ کرپشن اور غلط و غیر سنجیدہ پالیسیوں کے پیش نظر اب تک کے اطلاعات کے مطابق 9 ڈاکٹرز اور ایک ہیلتھ ورکر کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔ میڈیسن وارڈ سے ایک ڈاکٹر کا ٹیسٹ مثبت آنے پر اٹھارہ مزید ڈاکٹر قرنطینہ میں گئے ہیں تاکہ مزید وہ آنے والے مریضوں سے دور رہیں اور اس وباء کو پھیلانے ذریعہ نہ بنیں۔ اب صرف چار ڈاکٹر پورے میڈیسن وارڈ میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

پورے بلوچستان میں صرف ایک پی سی آر (PCR) مشین کی موجودگی اور شہری حدود میں موجود شیخ زید ہسپتال میں قرنطینہ سینٹر کا قیام جو خیمہ بستیوں سے زیادہ کچھ نہیں ہیں جہاں افراد کو غیر انسانی حالات میں محصور کیا گیا ہے جس سے وائرس کے مزید تباہی مچانے کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں جو اس غیر سنجیدہ اور نااہل حکومت کے شعبہ صحت میں کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حکومت کی غیر سنجیدگی کو عوام کے سامنے لانے کے لئے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کئی عرصے سے دھرنا ،ہڑتال اور او پی ڈی بند کرنے کی صورت میں شعبہ صحت کی کارکردگی کو عوام کے سامنے لانے کے لئے کوشاں ہے اور موجودہ صورت حال حکومتی کارکردگی کو عوام کے سامنے لانے میں مؤثر ثابت ہوا ہے اور ہم ان ہی ینگ ڈاکٹرز کو قصائی اور کن کن القاب سے پکار کر ناانصافی برت رہے تھے جو آج اس لڑائی میں فرنٹ لائن پہ میرے اور آپکے لئے موجود ہیں۔

لیکن ہم بڑی آسانی سے ڈاکٹروں کو بجائے مسیحا کہنے کے قصائی کہہ کر پکارتے رہیں۔ میڈیا پہ خبر چلتی ہے کہ ڈاکٹروں کی مبینہ غفلت کی وجہ سے یہ کام ہو گیا۔ کبھی ان چیزوں کا سوچا ہے جو یہ ڈاکٹر لوگوں کی بھلائی کے لیے کرتے ہیں۔ جو دن رات اللہ ان کو ہزاروں زندگیاں بچانے کا ذریعہ بناتے ہیں کبھی ان کو میڈیا پہ خبر بنایا ہے؟ جب تک ہم کسی دوسرے کی جگہ پر کھڑے ہو کر نہیں سوچتے ہم سمجھ ہی نہیں سکتے دوسروں کی زندگی کو، ان کی قربانیوں کو۔

حکومت وقت سے گزارش ہے کہ خدارا وہ تمام فنڈ جو عالمی ادارہ صحت اور چائنا کی طرف سے آئے ہیں ان کو صاف و شفاف طریقے سے استعمال میں لائیں۔ عوام کے خدمت پر مامور ڈاکٹرز ، نرسز، پیرا میڈیکل اسٹاف اور تمام عملہ کو آپ کے سیلوٹ اور سفید جھنڈے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وبائی مرض سے لڑنے والے طبی عملہ کو پرسنل پروٹیکٹیو ایکوپمنٹس ( PPE) مہیا کریں جس کے بغیر کام کرنا خودکشی کے مترادف ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 344 ریگولر پوسٹس کے ٹیسٹ اور انٹرویو کمیشن کے ماتحت ایمر جنسی بنیاد پر کرائیں جائیں اور ایڈہاک پر تعینات 500 ڈاکٹرز کو بھی ایمرجنسی طور پر ریگولر کیا جائے تاکہ ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی تعداد میں اضافہ ہو۔

ان سب غیر سنجیدگی و شعبہ صحت کی غفلت و ناکامی کے باوجود ڈاکٹرز کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں کیونکہ وہ اپنے شعبے کے فرائض کو بخوبی جانتے ہیں اور اس سے بڑھ کر مظلوم و محکوم عوام کا درد محسوس کر سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں