چاند تنازعہ کے بغیرآغاز رمضان

یہ واقعہ کئی دہائیوں کے بعد دیکھنے کو ملا ہے کہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں چاند کے معاملے میں دورائے سامنے نہیں آئیں،سب نے پہلا روزہ ایک ہی دن رکھا۔مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس پشاور میں منعقد ہوا، مفتی پوپلزئی نے قاسم مسجد میں الگ چاند دیکھنے کا بندوبست نہیں کیا تھانہ ہی ان کے ایک سے زائد مریدین نے سعودی عرب میں نظر آنے والا چاند اپنی مخصوص (ماورائے انسانی قوت)”بصارت“سے پاکستان کی زمین پر دیکھنے کی خدا کو حاظر و ناظر جان کر شہادت دی۔جبکہ چاند گرہن ہو یا سورج گرہن کے لئے لاکھوں برسوں سے اسی فارمولے کے مطابق انہی اوقات میں جو قدرت نے طے کیا ہواہے اور اسی قانون ِ گردش کے تحت لگتا ہے اور ختم ہوتا ہے۔لیکن چاند ایک مسلک کے لوگوں کو نظر آنے اور دوسرے مسلک کے ماننے والوں کو نظر نہ آنے کا تنازعہ سال میں صرف دو بار(رمضان اور شوال کے) چاندپر ہی دیکھا جاتاہے، باقی 10 مہینوں کے چاند خاموشی سے اپناگھٹنے بڑھنے اور نمودار ہونے کا قدرتی عمل جاری رکھتا ہے۔ کسی عالم، مفتی اور آیت اللہ (یا مرکزی و صوبائی رویت ہلال کمیٹی)کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ توقع کی جانی چاہیئے کہ پاکستان کے علماء بھی چند سال آزمانے کے بعدچاند کے سائنسی کیلنڈر کو اسی طرح تسلیم کر لیں گے جیسے انہوں نے ایکسرے اور الٹراساؤنڈ کے نتائج کو تسلیم کرلیاہے۔البتہ اس واقعے کی خوشی پاکستان کے مسلمان ایک مذہبی تنظیم کے رہنما کی گرفتاری کے رد عمل میں ہونے والے احتجاج کے باعث نہیں منا سکے۔ملک بھر میں اچانک دھرنے دیئے گئے اور اس تنظیم کے رہنماؤں سے وفاقی حکومت متعد بار تحریری معاہدے کر چکی ہے، جس میں فرانس کے سفیر کی ملک بدری اور پاکستانی سفیر کی فرانس سے واپسی جیسا حساس مطالبہ بھی شامل ہے۔عمران خان کی حکومت نے بھی چند ہفتے قبل ایک معاہدہ کیا تھا جس پر اپریل میں عمل در آمد ہونا طے پایا تھا۔بدقسمتی سے معاہدے پر عمل سے پہلے ہی گرفتاری ہوئی اور پھر سڑکوں پر لبیک کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان تصادم ہوگیا،2 پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے اور 340زخمی ہونے کی اطلاع وزارت داخلہ کی جانب سے دی گئیں۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت نے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت تحریک لبیک پاکستان پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔مظاہرین کارویہ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے مطابق انتہائی متشددانہ تھا۔انہوں نے ایمبولنسز کوبھی روکا، اسپتالوں میں آکسیجن کی کمی ہونے کا خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔سب جانتے ہیں کورونا کے مریض آکسیجن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔پولیس اہلکاروں کو اغوا کرکے مطالبات کی منظوری کے لئے دباؤ ڈالا گیا۔ریاست کی رٹ کو جب اس طرح چیلنج کیا جائے تو ریاست قانونی راستہ اختیار کرتی ہے۔افسوس اور دکھ کا مقام ہے کہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان میں مذہب کے نام پر ہر قسم کی لاقانونیت کو فروغ کے مواقع بار بار میسر آئے۔اس منفی رجحان کو روز اول روک دیاجاتاتو گزشتہ دو تین دنوں میں جو مناظر دیکھنے کوملے ان کی نوبت ہی نہ آتی۔کسی تنظیم کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت غیر قانونی قرار دینا مسئلے کا عارضی حل ہے،کل یہی فکر کسی اور نام سے سامنے آجائے گی۔اس کا مستقل حل تلاش کیا جائے۔پاکستان کے آئین میں 11باراسلام کا تعارف(یاdefinition) ”قرآن اور سنت“درج ہے۔لیکن اسی آئین کے آرٹیکل 227میں Explanationکی شکل میں ”قرآن اور سنت“کی ترجمانی کا اختیار فرقوں کو منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ قرآن فرقوں کو اَللہ کا عذاب قرار دیتا ہے(سورۃ الانعام آیت65اور آیت159)اور ”سنت“ کی کوئی جامع،واضح،شفاف اور حتمی تعریف آئین میں موجود نہیں اور نہ ہی دینی کتب میں یہ بتایا گیا ہے کہ ”سنت“ سے مراد کونسا قول یا واقعہ مانا جا سکتا ہے اور اس کی جانچ پڑتال کیسے کی جائے؟صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ۔۔جو کچھ محمد(ﷺ) نے کہا، یا کیا، یا دوسروں کو کرتے دیکھا اور روکا نہیں،وہ سب ”سنت“ ہے۔۔سوالیہ ہے یہ کیسے ثابت کیا جائے گا کہ جو کچھ ”سنت“ کے نام پر پیش کیا جارہا ہے وہ واقعی محمد(ﷺ) کا قول ہے یا فعل ہے؟اس کا آسان ترین طریقہ یہ ہونا چاہیئے کہ زیر بحث قول یا فعل کو قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں دیکھ لیاجائے،اگر قرآن کی تعلیمات کے مطابق ہے تو اس قول یا فعل کو محمد(ﷺ) کی سنت تسلیم کرلیا جائے، اس کے برعکس ہو تویہ قول یا فعل محمد (ﷺ) کی سنت نہیں ہو سکتا۔اسے کہنے والے کا ذاتی خیال،عقیدہ یاقول مانا جائے۔اسے دین اسلام کا حصہ نہ مانا جائے۔جامع اور واضح تعریف وضع کئے بغیر ہر مسجد کو یہ اختیار نہ دیا جائے کہ وہ سنت کی من مانی تعریف کے ذریعے قرآن کی آیات کے برعکس لوگوں کو اشتعال دلا کر پرامن شہریوں کی جان و املاک تباہ کرنے کا گھناؤنا جرم کرتا پھرے۔ہر مسلم کو ہر لمحہ یاد رہے کہ سورۃ المائدہ کی آیت 32:”جس نے ایک بیگناہ شخص کو قتل کیا اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کیا“،اَللہ کا واضح قانون ہے۔کوئی مسلمان کسی دوسرے شخص کو قتل کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔حکومت اگر اس لا قانونیت پر مبنی غیر قرآنی رجحان کا دیرپا اور مستقل حل چاہتی ہے تو اسے آئین کے پیش لفظ معہ آرٹیکل2Aکی پہلی سطر: Whereas sovereinghty over the entire Universe belongs to Almighty Allah alone, and the authority exercised by the people of Pakistan within the limits prescribed by Him is a sacred trust;)
کو اس کے letter and spiritکے مطابق تسلیم کرانے کے لئے آئین کے آرٹیکل 227 میں موجود Explanationکو پارلیمنٹ کی مدد سے حذف کرنا ہوگا۔پارلیمنٹ جب تک یہ آئینی تصحیح نہیں کرتی اس وقت تک اسی قسم کی مذہبی تنظیمیں اسی طرح پاکستانی معاشرے کے لئے ایک خطرہ اور عذاب بنی رہیں گی۔معصوم شہری اسپتال نہیں پہنچ سکیں گے،متعصب اورمشتعل مظاہرین کے قہر کا شکار ہوکر سڑکوں پر مرتے رہیں گے۔اس مسئلے کا دیرپا اور مستقل حل تلاش کیا جائے۔جو تحفظ اپنے شہریوں کو آئین دے سکتا ہے،وہ ایکٹ ہرگز نہیں دے سکتا۔دانشمندی کا تقاضہ ہے عارضی لیپا پوتی کی بجائے مستقل اور دیرپا حل تلاش کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں