جہانگیر ترین کا راہیں جدا کرنے کا اشارا
جہانگیر ترین سمیت سب جانتے کہ پی ٹی آئی کو پنجاب اور وفاق میں معمولی سی برتری حاصل ہے،ایوان میں عددی کثرت بھی حاصل نہیں۔اتحادیوں کو ساتھ ملا کر حکومت تشکیل دی ہے۔اگر چند اراکین اسمبلی پی ٹی آئی سے الگ ہو جائیں تو یہ معمولی سی اکثریت نہیں رہے گی۔یہاں تک بڑی سیدھی سی بات دکھائی دیتی ہے۔راجہ ریاض سمیت پی ٹی آئی کے9اراکین قومی اسمبلی اور 21اراکین صوبائی اسمبلی جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دوروزپہلے جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر ایک اجلاس میں آئندہ لائحہ پر گفتگو کے دوران بعض اراکین نے کہا ہمیں صرف عدالتوں میں پیشیوں پر اکتفا نہیں کرنا چاہیئے بلکہ اپنی پارلیمانی قوت کا بھرپور مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی تجویز بھی دی گئی۔ 21اپریل کو،یوم وفاتِ اقبال کی مناسبت سے جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر افطار ڈنر میں مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔کہا جارہا ہے کہ آئندہ اجلاس میں 40اراکین کی شرکت متوقع ہے۔رکن قومی اسمبلی راجہ ریاض نے وزیر اعظم عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ 40ارکان کی بات مان لیں، جہانگیر ترین سے ناانصافی بند کی جائے،ہم ابھی تک تحریک انصاف کے پرچم تلے کھڑے ہیں لیکن انصاف نہ ملا تو راہیں جدا ہو جائیں گی۔بیک ڈور چینل سے وزیر اعظم اور جہانگیر ترین کے درمیان صلح کرانے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے۔گویا ایک بار پھر عوام کو یاد دلیا جائے گا کہ ”سیاست“ کے سینے میں دل نہیں ہوتا، ذاتی، خاندانی اور گروہی مفادات ہوتے ہیں۔حکومت میں شمولیت کے پس پردہ اپنے مفادات کا بہتر انداز میں حصول کارفرماہوتا ہے، عوامی مسائل حل کرنے کا نعرہ ووٹ لینے اور حکومت سازی کے بعد فراموش کر دیا جاتا ہے۔یہ تاریخی سچائی بار بار سامنے آتی ہے،مگر عام آدمی کی مجبوری ہے کہ وہ پاکستان کے مہنگے (ترین) انتخابات کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا۔ڈسکہ حلقہ75 کے ضمنی انتخابات سامنے رکھے جائیں تویاد آجائے گا اس میں 360پولنگ اسٹیشن تھے۔ بظاہر یہ کام مشکل نظر آتا ہے لیکن اگر عوام تہیہ کر لیں کہ آئندہ انتخابات میں پرانے چہروں کو عبرت ناک شکست دینا ہے تو یہ کام ناممکن نہیں۔چند خاندانوں کی لوٹ مار سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کرنا ممکن ہے۔محلے کی بنیادوں پر متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے ذہین، محنتی اور مخلص نوجوان فیصلہ کر لیں کہ جن خاندانوں نے باربار دھوکہ دیاہے، صرف اپنی تجوریاں بھری ہیں۔جن پر جائز آمدنی سے زائد اثاثہ جات بنانے کے مقدمات چل رہے ہیں، ان کے حمایت یافتہ کسی امیدوار کو ووٹ نہیں دینا،اور نہ ہی ان سے سماجی روابط رکھنا ہیں۔اس دو فیصد لوٹ مارکرنے والی ذہنیت سے جا ن چھڑائی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے غریب عوام دنیا بھر کے حالات سے واقف ہیں۔نیزہمسایہ ملک چین نے زندگی کے تمام شعبوں (زراعت، صنعت و حرفت،سائنس و ٹیکنالوجی اور تجارت) میں حیران کن ترقی اور معاشی فتوحات حالیہ تاریخ کا زندہ واقعہ ہے۔کورونا کی وباء پر قابو پایا ہے، پاکستا ن میں کورونا ویکسین چین نے فراہم کئے ہیں، یورپی ممالک ابھی تک اپنی پریشانی میں الجھے ہوئے ہیں۔پاکستان میں کورونا کی تیسری لہر برطانیہ سے یہاں پہنچی ہے۔پاکستان کو قدرت نے قیمتی معدنی وسائل سے نوازا ہے،زرخیز زمین عطا کی ہے، سارا سال بہنے والے دریا اس دھرتی پر موجود ہیں،700کلومیٹر طویل ساحل اور وسیع سمندر ہے۔ مگر ہمارے لالچی حکمرانوں نے چند ٹکوں کے عوض کئی دہائیوں سے اسے غیر ملکی ٹرالروں کے حوالے کر رکھا ہے اور وہ پاکستان کے سمندری وسائل (غذائیت سے بھرپورمچھلی، جھینگا وغیرہ)ممنوعہ جال wire netاستعما ل کر کے مقامی ماہی گیروں کے ہاتھ سے روٹی کا نوالہ چھین رہے ہیں،مردہ مچھلیاں /کچرا سمندر میں پھینک دیتے ہیں اس سے سمندری حیات کی زندگی میں خطرے میں ہے۔اس لوٹ مار کو روکا جائے تو پاکستان اربوں ڈالر زرمبادلہ کما سکتا ہے۔سندھ، بلوچستان اور وفاق کے ذمہ دار محکمے اپنی آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں۔ انتخابی عمل کو سادہ،سستا اور آسان بنانے کی ضرورت ہے۔شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لئے قانون سازی درکار ہے کی جائے۔موجودہ قوانین دھاندلی زدہ انتخابات میں مددگار ہیں۔چند خاندانوں کو ایوان میں پہنچانے کی ذمہ داری انہی لنگڑے لولے اور فرسودہ قوانین پر عائد ہوتی ہے۔درجنوں پریذائڈ نگ افسران نتائج بتائے بغیر کسی خفیہ مقام پر رات بسر کرتے ہیں اور اگلے روز ناقابل اعتبار نتائج کے ساتھ نمودار ہو جاتے ہیں۔جہانگیر ترین اور ان کے ہم نوا حکومت کو خوفزدہ کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک لانے کے بعد انہیں (قومی اور پنجاب اسمبلی) میں اپنی اکثریت ثابت کرنا ہوگی۔ سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف لائی جانے والی تحریک عدم اعتماد پرانی بات نہیں،سب کو یاد ہوگی۔مستعفی ہونے کی باتیں بچگانہ ہیں۔پی ڈی ایم ٹوٹ گئی،اپنے اراکین کواسمبلیوں سے مستعفی نہیں کراسکی۔پی ٹی آئی کے رہنمااسدعمر کی رائے میں وزن ہے کہ جہانگیر ترین حکومت کے لئے خطرہ نہیں، انہیں قانون کا سامنا کرنا چاہیئے، قانون سب کے لئے برابر ہے۔عام آدمی حیران ہے کہ ایک جانب جہانگیر ترین عمران خان سے پرانی دوستی کا دعویٰ کرتے ہیں،اور اس کے ساتھ ہی وہ اتنے بے خبر ہیں کہ عمران خان کو روایتی سیاست دان سمجھتے ہیں۔موجودہ پنجاب اسمبلی اسی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی حکومت میں سینیٹ کی سیٹوں پر خاموشی سے مک مکا کرلیتی ہے،کیا وہ دوسری بار اسی فہم وفراست کا مظاہرہ نہیں کر سکتی؟برصغیر کے نابغہئ روزگار شاعرمرزا غالب نے بہت پہلے بھانپ لیا تھا:
”ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ/دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کھلا“
جہانگیر ترین بھی ایک بازی گر کی حیثیت سے وہی کچھ کرتے رہے ہیں جس کی جانب غالب نے اپنے شعر میں انکشاف کیا ہے۔ابھی بقول شاعر میخانے کا منظر نہیں بدلا،جام و سبو سب پرانے ہیں، ابھی تبدیلی نہیں آئی،۔۔ ”تبدیلی آئی رے“۔۔ والی نظم لکھنے اور سنانے والا شخص گورنر ہاؤس میں گورنر بن کر بیٹھا ہے، گورنر ہاؤس یونیورسٹی نہیں بنا۔جہانگیر ترین عدالتوں پر اعتماد کریں،انہوں نے جائز آمدنی سے زائد اثاثے نہیں بنائے تووہ باعزت بری ہوجائیں گے۔آخر موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین اسی نیب سے اپنے بیگناہ ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی درخواست جمع کرا چکے ہیں،یکم جون کو ان اپیلوں کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کرے گی۔ وابستہ رہ شجر سے،امید بہار رکھ!


