باہر وباء کا خود ہے گھر میں بلاکی بھُوک ، کس موت مروں میں ذرارائے دیجئے۔۔۔!

(رپورٹ/عزیز لاسی)
یہ مصرہ گزشتہ روز ایک مزدور کو اپنی مزدوری کے اوزار پر سرپکڑے تصویر کے ساتھ پڑھا یقینا ردرد دل والوں کو الفاظو کی گہرائی کا اندازہ ہوا ہوگا اور شایداُ ن پر کوئی اثرنہ ہوا ہوگا جو اس مصیبت کی گھڑی میں بھی اپنی انا کی تشنگی مٹانے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن مورخ اگر وہ کرونا کے کہرسے بچاتو ضرور لکھے گا کہ مشکل کی گھڑی میں کھڑا سچ کون کہتا رہا اور کون حقائق کو مسخ کرتا رہا اور مورخ یہ بھی ضرور لکھے گا کہ باپ پارٹی کے قیام کے وقت رائے ونڈ شریف محل بلاول ہاؤس اور بنی گالہ نہ جانے کے عہدو پیمان کر کے بلوچستان کے حقوق کیلئے پارٹی کے قیام کی قسم کھائی پھر بنی گالہ سے ناطہ جوڑ کر ہر مشکل میں اسلام آباد کا ساتھ نبھا کر حالیہ کرونا بحران میں وفاق کی بے وفائی۔۔۔۔!
گزشتہ کالم میں لوٹ کھوسٹ کرپشن کا ذکر تھا کہ اتفاق سے ملک میں آٹے او ر چینی بحران کے ذمہ داران کی رپورٹ بھی منظر عام پر آگئی۔اب دیکھتے ہیں کہ حکومت عوام سے آٹا اور چینی چُرانے والوں کیلئے کس سزا کاانتخاب کرتی ہے یاحالیہ بحران میں مددگار وں کی فہرست میں شامل کر کے عام معافی کا اعلان کردیا جاتا ہے پچھلے دو دنوں سے حکومت کی طرف سے ضلع لسبیلہ میں حالیہ بحران سے متاثر ین کا مذاق اُڑانے کیلئے پورے ڈسٹرکٹ لسبیلہ کیلئے 500راشن بیگز کو لیکر جو شور ہورہا ہے اسکے حقائق سے بھی پردہ ہٹنے لگاہے کہ انتظامیہ نے امداد کی تقسیم میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے حکومت کی طرف سے دی گئی امداد میں سے حب کے متاثرین کے حصے میں صرف100بیگز آئے اسکے علاوہ 300بیگزوہ بھی شامل ہیں جو کہ حب کے صنعتی مالکان کی مشترکہ تنظیم لسبیلہ ایوان صنعت وتجارت کی جانب سے دیئے گئے 1000راشن بیگز میں سے تھے اسطرح سے یہ 400بیگز کس طرح کے متاثرین کے گھر تک پہنچائے گئے یہ ایک معمہ ہے اور اس بارے میں رکن قومی اسمبلی محمد اسلم بھوتانی کا بھی سخت ردعمل سامنے آیا ہے اسکے علاوہ عوامی حلقوں اور معززین شہر بھی اس تقسیم پر نالاں نظر آرہے ہیں
کرونا وائرس لاک ڈاؤن میں پھنسے شہریوں اور متوسط طبقہ کو ریلیف میں تاخیر پر گزشتہ دنوں حب کے سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں نے ایک آل پارٹیز اجلاس بلا کر حکومتی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور لوگوں کی مدد کیلئے متعلقہ حکام سے رابطہ کیلئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی لہٰذا اس کمیٹی کو متحرک ہو کر اپنے کام کا آغاز کردینا چاہئے ورنہ ایسا نہ ہوحکومتی امداد کے انتظار اور آمد رمضان المبارک کے انتظار میں صاحب ثروت مالدار حضرات اپنے مال وزر کی زکواۃ نکالیں گے تب تک حالات اسقدر گھمبیر ہو جائیں کہ نہ کوئی زکواۃ لینے والا ہو اور نہ ہی کوئی حکومتی امداد کا منتظر باقی رہے لہٰذا مزید تاخیر نقصان سے خالی نہ ہوگی ہماری لالچ اور حرس کی حد تو یہاں پہنچ چکی ہے کہ حالات کی نزاکت کو دیکھ جو نمازی مسجد میں اذان کیلئے لاؤڈ اسپیکر کا کھڑکا سُن کر وضو کرنا شروع کردیتے یا اپنی پوجا پاٹ میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑتے انھوں نے آٹا گھی،چینی مہنگی کردی،گوشت کے دام بڑھا دیئے سبزیاں اور فروٹ مہنگے کر دیئے ان دنوں پبلک ٹرانسپورٹ پر شہروں میں داخلے پر پابندی عائد ہے لیکن داروہوٹل کے مقام پر ایک ” لالہ “ نجی کار سروس کے ذریعے فی کس مسافر 5000سے7000روپے حب سے کوئٹہ اور قریبی شہرو ں تک پہنچانے کے کام میں مصروف ہے
کرونا وائرس کو لیکر پچھلے دنوں مذہب اور مسلک کے بارے میں حوالے سننے کو ملے لیکن ہمیں اسوقت صرف ایک قوم بن کر اس مہلک وباء کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے کرونا کو مذہب اور مسلک سے منسلک کرنا عقلمندی نہیں کیونکہ کرونا ایک نادیدہ دشمن ہے جو کہ کسی مذہب اور مسلک کو نہیں دیکھتا اُسے جہاں آسانی سے موقع ملتا ہے وہ حملہ آور ہو جاتا ہے،
ہمارے ملک اور پاکستانی قوم میں ذہانت اور ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہمارے سائنسدان اور ماہر ڈاکٹرز اسوقت کرونا کو نیست ونابود بنانے کیلئے اپنی کاوشیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور واقعی ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس کی کاوشیں قابل قدر ہیں وہ نامساعد حالات میں بھی اگلے مورچوں پر یہ جنگ لڑرہے ہیں انہیں صرف سلام سلوٹ اور گارڈآف آرنر پیش کرنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ انکی قدر وقیمت کے مطابق اس بحران سے نکلنے کے بعد بھی عزت افزائی ہونی چاہئے ایسانہ ہو کہ پھروہ اپنے حقوق کیلئے سڑکوں کا رخ کریں اور ان پر ڈنڈے برسائے جائیں جسطرح کراچی میں سندھ کے اساتذہ کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا لہٰذا ٹیلنٹ کی قدر ہونی چاہئے اسطرح سے بالکل نہیں کہ لیڈا کے ایک آفیسر کی بھرتی میں بلوچستان کے ٹیلنٹ کا قتل ہوا
بہرحال بات کہاں کی تھی اور کہاں جاپہنچی! موجودہ صورتحال میں امدادی پیکج اور سرکاری سطح پر اجناس کی طلب اور کھپت کو پورا کرنے کے بارے میں جب اعداد وشمار کیلئے سرکاری دفتروں سے معلوم کیا جاتاہے تو وہاں سے حکمران جماعت کے لیڈوں کا پتہ سمجھایا جاتا ہے کیا سرکار اور سیاست میں اسقدر ایک پیج پر آچکے ہیں؟
موجودہ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اُسوقت ہوا کہ جب بعض نجی نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پر PPPسندھ کی ایک خاص شخصیت شرمیلا فاروقی کی اپنے گھر پر کھانا بناتے وقت کی وڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ مچھلی بنانے کی ترکیب میں مرغی کا ذکر کر بیٹھی کیونکہ اس قسم کے لوگوں نے شاید کبھی اپنے ہاتھ سے کھانا پکایا ہی نہ ہوسرکار کے پیسوں پر عیش کرنے والوں نے ہمیشہ فائیو اسٹار ہوٹلز اور فاسٹ فوڈ کی دکانوں سے ہی کھانا منگواکر کھایا ہے اور اب جب لاک ڈاؤن ہے اور کرونا کے خوف سے انھوں نے اپنے نوکروں کو بھی دور رکھا ہوا ہے تو ایساضرورہوگا،ورنہ سابق صدر مشرف نے جب نواز شریف کا تختہ اُلٹ کر تخت راج پر قبضہ کیا تھا اور ملک میں افراتفری کا عالم تھا تو بھی کراچی کے پوش علاقوں کے مکین دو پہر دو ڈھائی بجے نیند سے بیدار ہوتے تھے اور فاسٹ فوڈ کی دکانوں سے کھانا منگواتے تھے یعنی کہ اشرافیہ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑاتھا لیکن کرونا نے اشرافیہ کو بھی جام کردیا ہے جام تو ہوگئی ہے موجودہ حالات میں عالمی معیشت کی زد میں پاکستان کی معیشت بھی اور خاص طور پر اسلام آباد کے روئیے نے بلوچستان کو بھی جام کردیا ہے اب یہ سلسلہ کب تک جام رہتا ہے اللہ ہی جانے۔۔۔۔! آج کیلئے اتناہی۔۔۔!

اپنا تبصرہ بھیجیں