پتھروں پے چل کے آسکو تو میرے گھر کے سامنے کوئی کہکشاں نہیں.

تحریر: خالق بلوچ
انسان پیدائشی طور قدرت کی طرف سے انتہائی زہین پیدا ہوتا ہے. بچوں کو ہی لیجئے ان میں قدرت اور اپنے آس پاس کی مظاہر کو جاننے کی کتنی تجسس ہوتی ہے اور وہ ہر چیز کو منطقی بنیادوں پر پرکھنے, جاننے اور سمجھنے کے لیے اکثر سوال کرتے رہتے ہیں. یہ کیا چیز ہے, یہ اس طرح کیوں ہوتا ہے اور مختلف سوالات ان کے ذہن میں ابھرتے ہیں مگر جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے جاتے ہیں ان کی یہ تجسس اور سوال کرنے کی عادت ختم ہوتی جاتی ہے کیونکہ قدرت کی طرف سے جو ذہانت انسان لیکر پیدا ہوتا ہے اس ذہانت کو معاشرے کے مختلف ادارے یعنی خاندان, سکول, مذہبی ادارے, استاد, کالج, یونیورسٹی اور دوست تباہ کرتے رہتے ہیں اور معاشرے کی مختلف عقائد, نظریات, سوچ, اور غیر منطقی رسومات و تعصبات سے ان کا ذہن بھر دیا جاتا ہے جس سے وہ مزید فہم و ادراک حاصل کرنے کی بجاے قدرت کی طرف سے عطاء کردہ ذہانت بھی کھو دیتے ہیں اور ساری زندگی معاشرے کے غیر منطقی رسومات اور سوال نہ اُٹھانے کے عادی بن جاتے ہیں اور معاشرہ بھی سوچنے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے تاکہ متروک, غیر سائنسی, غیر منطقی ثقافتیں زندہ رہیں اور نوجوان نسل ان سے باغی نہ ہو. یہی وجہ ہے کہ بعض معاشروں میں صدیوں بعد ہی کوئی ایک عظیم مفکر پیدا ہوکر جدید افکار, نظریات اور فلسفہ دیتا ہے. مسلمان معاشروں میں خلافت عباسیہ دور کی انہدام کے بعد مسلمانوں کے سوچنے پر جو قدغن لگایا گیا اس کی وجہ سے آج تک کوئی عظیم مفکر, نظریہ دان پیدا نہ ہوسکا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے. پاکستان میں تبدیلی کے نعرے لگا کر تو بہت سارے جماعتیں اقتدار حاصل کرلیتی ہیں مگر ان کے پاس ٹھوس نظریہ, معاشی, سیاسی, انتظامی منصوبہ و پروگرام نہ ہونیکی وجہ سے وہ اقتدار پر بیٹھ تو جاتے ہیں مگر ایک منظم نظریاتی پروگرام نہ ہونیکی وجہ سے ان کا حشر پاکستان پیپلز پارٹی, تحریک انصاف, نیپ, اے این پی اور نیشنل پارٹی جیسی ہوجاتی ہے.
عہد حاضر میں بھی اگر آپ نظر دوڑائیں تو ہر طرف طاقت حاصل کرنے کی سیاست آپ کو نظر آئے گی, آج بھی ملک کی بڑی سیاسی پارٹیوں سے لے کر قوم پرست جماعتوں و مذہبی پارٹیوں کے پاس کوئی واضح لائحہ عمل اور ٹھوس نظریاتی فکر و پروگرام آپ کو نظر نہیں آے گی جسے وہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد عملی جامعہ پہنا کر ملک و عوام کو موجودہ بحرانی کیفیت سے نکال کر ترقی, خوشحالی کی راہ پر گامزن کرسکیں. روایتی Left کی جماعتوں میں بدترین ٹوٹ پھوٹ, اختلافات اور ناکام سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے وہ پاکستان کی سیاست میں عرصہ دراز سے کوئی موثر اور متاثر کن کردار ادا نہیں کرپارہے جس کی وجہ سے وہ عوام, نوجوانوں, خواتین, مختلف محکوم قومیتوں, کسانوں اور مزدور و طلباء میں پزیرائی حاصل کرنے میں ناکام ہیں. لیکن عوام اپنے حقیقی مسائل کو حل کرنے والی کسی جماعت کی تلاش میں ہیں. اور عوام اپنی اس جستجو و تلاش میں کبھی پیپلزپارٹی تو کبھی تحریک انصاف کو تبدیلی کی جماعت سمجھ کر ان کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں مگر عوام کے ساتھ ہر وقت ان جماعتوں نے دھوکا اور دغا کیا ہے. عوام کی طاقت سے اقتدار میں آنے والی مقبول جماعتیں مفاد پرستی کا شکار بن کر نظام پر مسلط قوتوں یعنی سرمایہ داروں, جاکیرداروں, سول و فوجی بیوروکریسی, عالمی استحصالی قوتوں کا آلہ کار بن کر ان کے مفادات کا تحفظ کرنے میں لگ جاتے ہیں. لیکن عوام کو ایک بہترین قیادت و نظریاتی تبدیلی کی جماعت کا ہمیشہ تلاش رہتی ہے. حکمران اپنے گماشتہ سیاسی جماعتوں کو ایک نئے انداز میں پیش کرکے ان کو عوام کا مسیحا بنا کر پیش کرنے کی سعی کرتے ہیں تاکہ پھر ان کو اقتدار میں لاکر استحصال, ظلم اور جبر کے نظام کو عوام ہر مسلط رکھا جاسکے.
ملک کے معروضی حالات میں جہاں معیشت, سیاست, سفارت کاری, نظام حکومت, سماجی بے چینی اور حکومتی ناکامی بدترین شکل میں اُبھر کر سامنے آرہا ہو تو کچھ لوگ آمریتوں کے نغمے گا کر ان کو ملکی بگڑتے حالات کا حل کے طور ہر پیش کررہے ہیں. لیکن یہ ملک ایوب خان کی دس سالہ آمریت سے لے کر پرویز مشرف کی ایک دہائی کے لگ بھگ مارشل لاء کو اس ملک کے عوام بخوبی آزما چکے ہیں اب عوام کو ایک ایسی سیاسی قیادت اور جماعت کی تلاش ہے جو حکمران طبقے کا گماشتہ بن کر اس متروک نظام کو گھسیٹنے کے بجاے عوام کے اصل ایشوز کو لے کر آگے بڑھے اور درجہ زیل منشور کو اپنا کر عوام کے سامنے سرمایہ داروں, جاگیرداروں اور سرداروں و نوابوں و ملاوں کی مذہبی جماعتوں کے مقابلے ایک حقیقی عوامی قیادت کا متبادل پیش کرے تاکہ یہاں کہ کروڑوں انسان جس خواب کی تعبیر کے لے انگریز سے لڑکر جو آزادی حاصل کی وہ شرمندہ تعبیر ہو;

  1. ملک میں فوری طور پر زرعی اصلاحات نافذ کرکے جاگیردارنہ نظام کا خاتمہ کرے.
  2. پاکستان کو ایک سیکولر, زمہ دار اور روشن خیال ملک بنانے کا اعلان کرے.
  3. پارلیمنٹ اور انتظامیہ کو الگ کرکے وفاق میں براہ راست عوام کے ووٹوں سے صدارتی نظام اور صوبوں میں گورنر کو براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب کیا جاے.
  4. ایٹمی و دیگر مہلک ہتھیاروں کو تلف کرکے دفاعی اخراجات کو انسانی و صنعتی ترقی پر خرچ کیا جاے.
  5. تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہر مبنی خارجہ پالیسی تشکیل دی جاے.
  6. امریکہ, سعودی عربیہ, ترکی و دیگر ممالک کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کو بند کیا جاے.
  7. تمام صوبوں و پسماندہ علاقوں میں مشترکہ ترقیاتی منصوبے شروع کئے جائیں اور ترقی کی غیر مساویانہ عمل کو ختم کیا جاے.
  8. تمام تعلیمی و صحت کے اداروں کو قومی تحویل میں لے کر ان اداروں کو تجارتی بنیادوں پر چلانے پر پابندی عائد کی جاے.
  9. کرپشن ثابت ہونے پر سزائے موت کا قانون لاگو کیا جاے.
  10. سول بیوروکریسی, عدالتوں میں ججز کی تقرری غیر جانبدارنہ اور خود مختیار کمیشن کے امتحانات کے زریعے کیا جاے جہاں دیانت داری, حوصلہ, جرأت جیسے صلاحیتوں کے حامل افراد کو ترجیح دی جاے.
  11. بلدیاتی اداروں کو مالی و انتظامی اختیارات دیکر بیوروکریسی کے اختیارات میں کمی کی جاے. اور بلدیاتی اداروں میں خواتین, کسان, مزدور طبقے, طلباء کو موثر نمائندگی دی جاے.
  12. سرمایہ داری نظام کا خاتمہ کرکے ایک منصوبہ بند معیشت قائم کیا جاے اور پیداوار ی قوتوں کو قومی تحویل میں لے کر محنت کشوں کی شراکت داری کی نظام کے تحت چلایا جاے.
  13. دولت کے ارتکاز پر ٹیکس نافذ کیا جاے.
  14. مذہبی, سیاسی, اظہار رائے کی آزادی, انفرادی آزادی اور صنفی امتیاز کا خاتمہ ہو
  15. بنیادی انسانی حقوق کا ازسرنو تعین اور ان آزادیوں کی تحفظ کے لے ٹھوس ریاستی ضمانت دی جاے. قانون کی برتری اور و حکمرانی کو یقینی بنایا جاے.
  16. ایک نئے دستور کی تشکیل جس میں 1940 کی قراردادوں کے عین مطابق وفاق کے پاس کرنسی, خارجہ پالیسی, دفاع اور ٹیلی کمیونیکیشن کے اختیارات ہوں. باقی سارے اختیارات صوبوں اور بلدیاتی اداروں کو منتقل کیا جاے.
  17. مفت تعلیم, صحت کی سہولت اور روزگار کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہو.
  18. عدلیہ مکمل آزاد اور انگریز کے بنائے تمام قوانین کو تبدیل شدہ حالات کے مطابق دوبارہ ازسرنو ترتیب دیا جاے.
  19. یکسر تعلیمی نظام اور ایک نصاب سب کے لے بنایا جاے. ریاضی, فزکس, کیمسٹری, باءیالوجی و دیگر سائینسی علوم کی تعلیم لازم قرار دی جاے.
  20. انسانی حقوق کا تحفظ, جمہوری روایات کی ہاسداری, قانون کی حکمرانی اور اقرباء پروری و جرائم کا خاتمہ ریاست کی بنیادی رہنماء اصول ہونگے.
  21. پاکستان ایک فلاحی, جمہوری, سیکولر اور زمہ دار ریاست ہوگی جو خطے اور پوری دنیا میں امن اور انسانی ترقی و خوشحالی کو فروغ دے گی.
  22. قومی پیداوار کا وسیع حصہ تعلیم, صحت, سائینسی تحقیقات, انسانی ترقی اور صنعتی ترقی ہر صرف کیا جاے گا.
  23. طلباء یونین سازی پر عائد پابندی ختم کیا جاے گا.
  24. پارلیمنٹ, عدلیہ, ملازمتوں, سیاسی اداروں اور زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کو برابری کے حقوق دیئے جائیں گے.
  25. تمام قومی زبانوں, ثقافت اور تہزیبوں کا تحفظ ریاست کی زمہ داری ہوگی.
  26. عالمی مالیاتی اداروں کو قرض کی واپسی ضبط کی جاے جو کہ پہلے ہی اس ملک سے اپنے دیے ہوئے قرض کی اصل رقم سے کہیں گنا رقم سود کی مد میں ہم سے وصول کرچکے ہیں.
    پاکستان کے عوام ساری روایتی قیادت کو آزمانے کے بعد اب نوجوانوں, دانشوروں, طلباء, مزدور, کسانوں, خواتین اور محنت کش غریبوں پر مشتمل ایک قیادت اور پارٹی بناکر پاکستان کو ایک ایسی ریاست بنادیں جو حقیقی معنوں میں اپنے شہریوں کے لے ماں کے جیسی ہو اور ایسی قیادت غریبوں کے اپنے صفوں سے ابھر کر سامنے آے گی نہ کہ موجودہ استحصالی طبقوں سے.

اپنا تبصرہ بھیجیں