تمام اسپتال بند ہیں، پرائیویٹ کلینک بھی بند ہیں، گراونڈ پر کیا ہورہا ہے۔سپریم کورٹ

سپریم کورٹ اسلام آباد میں وزارت قانون نے قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی، چیف جسٹس کورونا کی وباء پر ریمارکس دیئے کہ کوئی بندہ کام نہیں کررہا، سب فنڈز کی بات کررہے ہیں۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے انڈرٹرائل قیدیوں کی ضمانت پررہائی کے معاملے کی سماعت کررہا ہے۔کیس کی سماعت کے دوران وزارت قانون نے اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جس میں بتایا گیا کہ سیکشن 401 کے تحت انڈر ٹرائل قیدیوں کو ضمانت نہیں دی جاسکتی۔رپورٹ کے مطابق آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت صدر پاکستان کے پاس اختیارہے کہ وہ ضمانت کی اجازت دیں، تاہم آرٹیکل 45 کے تحت صدر پاکستان کو انڈر ٹرائل قیدیوں کو ضمانت پر رہائی کا اختیار نہیں ہے۔چیف جسٹس نے کوروناوائرس معاملے پر وفاقی، صوبائی حکومتوں کی رپورٹس پر اظہار عدم اطمینان کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ یہ کس قسم کی ایمرجنسی ہے کہ تمام اسپتال بند ہیں، پرائیویٹ کلینک بھی بند ہیں، گراونڈ پر کیا ہورہا ہے، کسی کو علم ہی نہیں ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شوگر اور امراض قلب کے مریض کہاں جائیں؟ عوام کو تو خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، لوگوں کو ٹی وی پر بتایا جا رہا ہے گھر سے نہ نکلیں اور ہاتھ 20 بار دھوئیں، ٹی وی صبح سے شام تک لوگوں کو ڈرا رہا ہے۔جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہ کوئی بندہ کام نہیں کررہا، سب فنڈز کی بات کررہے ہیں، صوبائی حکومتیں پیسیبانٹ دو اور راشن بانٹ دو کی باتیں کررہی ہیں، تمام چیف منسٹر گھروں سے آرڈر دے رہے ہیں، گراونڈ پر کچھ بھی نہیں ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ صوبوں کے پاس ٹیسٹ کیلئے کٹس ہی موجود نہیں، صوبے کہہ رہے ہیں 10 ارب دے دو، گلوز اور ماسک لینے ہیں۔جسٹس گلزار نے ریمارکس میں کہا کہ سب کاروبار بند کر دیے گئے، ہمارا ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے چیمبر میں بریفنگ کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چیمبر میں آپ کیا بتائیں گے، ہمیں سب پتہ ہے۔چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ پتہ نہیں ظفر مرزا صاحب کی کیا کوالیفکیشن ہے، وہ صرف ٹی وی پر پروجیکشن کرتے ہیں۔جسٹس گلزار نے کہا کہ ہمیں احساس ہے کہ امریکا جیسا ملک بھی ہلا ہوا ہے، ہم کورونا اسپیشلسٹ نہیں، ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں شہریوں کے آئینی حقوق کادفاع ہو رہا ہے یا نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہر ایک اسپتال اور کلینک لازمی کھلا رہنا چاہے، یہاں تو وزارت ہیلتھ نے خط لکھا کہ سپریم کورٹ کی ڈسپنسری بند کی جائے،کیوں بھائی یہ ڈسپنسری کیوں بند کی جائے؟ کیا اس طرح سے اس وباء سے نمٹا جارہا ہے؟سپریم کورٹ نے کہا کہ وفاق کے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں، وفاق تو کچھ کر ہی نہیں رہا، آپ نے جو رپورٹ جمع کرائی ہے یہ اس بات کو واضح کررہی ہے۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایک رپورٹ آج بھی جمع کرائی ہے، وفاق بھرپور طریقے سے اقدامات کررہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں