سلیوٹ سےلاٹھی چارج تک کاسفر
آصف بلوچ
بات جب ہم مسیحاؤں کی کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اللہ کے سوا” ڈاکٹر” نام ہی سب سے پہلے آتا ہے
ابھی کچھ عرصہ پہلے ساری دنیا میں کرونا کی جو وبا پہلی تب پوری دنیا سر جوڑ کے گٹھنوں کے بل ڈاکٹرز کے سامنے گڑگڑانے لگی کہ اے پروردگار کی طرف سے بھیجے گئے مسیحاؤں اب یہ دنیا تمھارے حوالے ہیں. ہمیں نجات دلا دو اس وبا سے
اور اکثر ممالک میں ڈاکٹرز نے بجوبی اپنے فرائض سر انجام دیے. اور انکی ان خدمات کو مختلف ممالک میں کئی طریقوں سے سراہا گیا
اور ان سب ممالک میں ڈاکٹرز کو انکے ساز و سامان کافی حد تک فراہم کئیے گئے
چین نے اپنے 18 مختلف شہروں میں 50000 سکرینز لگا کر ان مسیحاؤں کو خراج تحسین پیش کیا بلکل اسی طرح باقی ملکوں میں بھی ڈاکٹرز کی شان میں سلیوٹ کو بلند و بالا کیا گیا اور ڈاکٹرز کی حوصلہ افزائی کی گئ
حال ہی میں امریکہ کے قائم مقام صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سب سے پہلے ڈاکٹرز کوN. 95 ماسک مہیا کیا جائے گا اور یوں انکے ڈکٹرز انکے مسیحا بنتے رہے
ٹھیک ۔۔اسی طرح ہمارے ہاں پاکستان کے مختلف صوبوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں بھی ڈاکٹرز کو فرضی طور پر دو چار سلیوٹ مارے گئے. اور دنیا کو دکھایا گیا کہ ہاں ہم بھی زندہ قوم ہیں ہاں ہمیں بھی اپنے مسیحاؤں کا خیال ہے ہمیں بھی انکی قدر ہے
اور اس سلیوٹ کی گونج شاہد اس قدر بلند تھی کہ ڈاکٹروں کی چیخ و پکار اس میں سنائی نہیں دے رہی تھی کہ وہ التجاء کر رہے تھے وقت کے حاکم سے گڑگڑا رہے تھے کہ ہمیں سلیوٹ کی جگہ حفاظتی سامان مہیا کیا جائے ہمیں خودکشی نہیں کرنی
لیکن ہونا کیا تھا زندہ قوم ڈاکٹرز کی شان میں سفید جھنڈیاں لہراتی رہی اور ڈاکٹرز چیختے رہے کہ سفید جھنڈی اب سفید نہیں بلکہ سرخ ہو چکی ہے ڈاکٹرز کے خون سے لیکن حکومت تو خوابِ خرگوش میں مبتلا سوتی رہی
اور ڈاکٹرز بس یوں چیختے چلاتے ہوئے اس وبا کی لپیٹ میں آتے رہے بلآخر بلوچستان کے ڈاکٹرز نے مجبور ہو کر اپنی مدد آپ کے تحت چندہ کر کے کچھ حد تک حفاظتی سامان خرید لئیے
لیکن نا اہل حکومت کے امدادی سامان بس خیالی دنیا کی زینت بنی رہے اور اس طرح بلوچستان میں ایک کے بعد ایک ڈاکٹرز کرونا کا شکار ہوتے گئے
اور آج جب ڈاکٹرز نے انہی مریضوں کو علاج کرنے کے ساتھ ساتھ خودکی حفاظت کے لیئے حفاظتی سامان کی مانگ رکھی تو ایک تاریخ رقم ہو گئی سامان تو اپنی جگہ ڈاکٹرز کو بری طرح تشدد کانشانہ بنایاگیا اور سب کو جیلوں میں بند کر دیا گیا.
اور یوں سلیوٹ سے جیل تک کا سفر مکمل ہوا
اور یوں سفید جھنڈا سرخ ہو گیا