حقوق و تحفظ کی جنگ و زندان اور ڈاکٹرز۔

تحریر عاطف رودینی بلوچ
دنیا کی ہر شے اپنے تحفظ یا اپنے حقوق کیلئے آخری حد تک جاتی ہے انسان تو اشرف المخلوقات ہے جسے رب کی طرف سے سب سے بڑی نعمت عقل عطاء کی گئی ہے عقل مند انسان کو اپنے تحفظ اور بنیادی حقوق کے بارے میں سب کچھ معلوم ہوتا ہے اسی لیے اپنے تحفظ میں اور حقوق حاصل کرنے کی خاطر دوسرے شے کی طرح کسی بھی حد تک جاسکتا ہے اکثر اپنے مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو کچھ ظالم حکمرانوں اور جابروں کے ہاتھوں سے اذیت، زندان پا پھر موت ملتی ہے اپنے بنیادی حقوق اور تحفظ کیلئے آواز بلند کرنا احتجاج کرنا اور جمہوری طریقہ سے لڑنا ہر انسان کا حق ہے اسی لیے تحفظ و حقوق کیلئے جنگ کبھی ختم نہیں ہوتی یہ جہدوجہد ہر ظالم کے خلاف جاری رہتی ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں کرونا کا راج ابھی تک چل رہا ہے کوئی بھی ملک اس کو شکست نہیں دے پا رہا ماسوائے چینکے جس نے کافی حد تک اس پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے دنیا کے ہر نیوز چینل اخبارات رسالے تحاریر سب میں سب سے بڑی خبر کرونا وائرس ہے ہر نیوز الرٹس اور نیوز ہیڈلائنز پر کرونا مگر اچانک بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں پیش ہونے والا ایک واقعہ دنیا بھر کے نیوز چینل پر ہینڈلائن بن گیا یہ واقعہ عام نہیں بلکہ تحفظ اور حقوق کی جنگ تھی جو دنیا بھر کے میڈیا کی زینت بن گئی۔
بلوچستان میں بھی تحفظ اور حقوق کی جنگ کئی دہائیوں سے لڑی جا رہی ہے اس جنگ میں بہت کم لوگ اپنے مقصد میں کامیاب ہوکر جنگ جیتے ہیں انہی جنگوں سیبہت سے زندان، اذیت گاہیں اور قبرستان آباد ہوئے ہیں۔ چند عرصہ پہلے کی بات ہے جب ایران میں کرونا نے تباہی مچائی تھی تو بہت سے زائرین نے پاکستان آنا چاہتے تھے حکومت نے بھی زائرین کو پاکستان لانے کا فیصلہ کیا جس سے بہت سے لوگوں نے تشویش کا اظہار کیا مگر اس کے بعد حکومت نے ایک بار پھر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیگر صوبوں کے زائرین کو انکے صوبے بھیجنے کی بجائے تفتان اور بعد میں بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں آبادیوں کے بیچ قرنطینہ سینٹر میں رکھنے کا فیصلہ کیا جس پر عوام نے اس پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے غم و غصّے کا اظہار کیا اور اپنا آئینی و جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے اپنے تحفظ کیلئے احتجاج کا راستہ اختیار کیا مگر حکومت اپنی من مانی سے اپنے فیصلے پر قائم رہ کر عوام سے دوری اختیار کرنے میں اپنی بھلائی سمجھی۔
کرونا کا تیزی سے پھیلنا، لاک ڈاؤن سے بھوک افلاس غربت کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہونا، زائرین کو لانے اور تبلیغی جماعت پر پابندی سے مذہبی و فرقہ واریت پیھلانے والے مافیا نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مذہبی انتہا پسندی پھیلانے میں تیزی اختیار کی ان تمام مسئلوں سے بے خبر حکومت سوشل میڈیا پر دعوؤں تک محدود رہی۔
پوری دنیا کے فرنٹ لائن سولجر ڈاکٹرز کی طرح بلوچستان کے ڈاکٹرز بھی بغیر N95 ماسک اور حفاظتی کٹس کے کرونا کے خلاف جنگ میں اپنے دن رات ایک کر رہے تھے بدقسمتی سے بہت سے ڈاکٹرز کرونا کے تدارک میں خود ہی کرونا کے شکار بن گئے کئی ڈاکٹرز کے رزلٹ پوزیٹو آئے ڈاکٹرز نے سیفٹی کٹس کی ڈیمانڈ کی مگر حکومت نے ان کی طرف توجہ تک نہیں دی۔ سی پیک ریکوڈک سیندک پروجیکٹ والے چین سے پانچ جہاز پاکستان آئے جن میں کرونا کے خلاف حفاظتی سامان اور کٹستھیں بدقسمتی سے ان سے ایک بھی بلوچستان نہیں پہنچ سکی۔ ڈاکٹر صاحبان نے مجبوراً اپنی مدد آپ کے تحت چندہ کرکے چند کٹس خرید لیں حکومت کو اس عمل سے شرمندہ ہونا چاہیے تھا مگر حکومت ٹھس سے مس تک نہیں ہوئی۔ ڈاکٹرز تنگ آکر اپنا آئینی و جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے احتجاج کرنے لگے تو حکومت جو چند دن پہلے انہی ڈاکٹرز کو خراج تحسین پیش کر رہی تھی ان کے جائز حقوق ماننے کے بجائے ان پر لاٹھی برسا کر انہیں گرفتار کروایا اس عمل سے پوری دنیا حیران رہ گئی دنیا کے نیوز چینلز پر ہیڈلائنز بن گئے کہ بلوچستان حکومت اپنی نا اہلی چھپانے کیلیے کونسا راستہ اختیار کر رہی ہے۔
پتا نہیں حکومت ہوش کے ناخن کب لیگی غیر سنجیدہ اور غیر معمولی فیصلوں سے بلوچستان کو مزید تبائی کے طرف لے جارہیہے روزی روٹی کے لیے نکلنے والے مزدوروں، تعلیم کے خاطر نکلنے والے طلبہ، بیزورگاری سے تنگ نوجوانون، فارماسسٹ، اور اب حفاظتی کٹس کیلئے نکلنے والے ینگ ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف سب پر ڈھنڈے برسا کر انہیں زندانوں میں ڈال کر تحفظ و حقوق کی جنگ کو مزید تیز کرنے کی ضد میں ہے جو نیک شگون نہیں کئی اس جنگ کے اثرات ہمیں بہت نقصان نہ پہنچا دیں کیونکہ جنگ بہت بھیانک ہوتی ہے اور اس سے بھی بھیانک نتائج لاتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں