ظلم ضابطے کے۔۔آخر کب تک

تحریر:عزیز لاسی
یہ محض اتفاق ہے یا پھر تخت نشینوں کے طرز حکمرانی سے کچھ شناساتی کہ گزشتہ روز کے کالم میں جن خدشات کا ذکر کیا تھا کہ اُسکے اگلے روز وہی ہوا کہ کوئٹہ کی سڑکوں پر ڈاکٹرز کو محض اس وجہ سے گھسیٹا گیا کہ کوہ کرونا سے خود کو محفوظ رکھنے کے آلات اور حفاظتی لباس کا مطالبہ لیکر سڑکوں پر نکلے تھے اور انجام یہ ہوا کہ دوروز قبل جو ہاتھ اُنکی عظمت کو سلام پیش کرنے کیلئے بلند ہوئے تھے آج انہی ہاتھوں میں ڈنڈے تھے جوکہ ڈاکٹرز کا تخت نشینوں کے دروازے پر اپنی فریاد لے جانے کی پاداش میں اُن پر برسائے جارہے تھے،
حقیقت میں ڈاکٹرز پر تشدد موجودہ صورتحال میں بلوچستان کی نہیں بلکہ ملکی تاریخ کا بدترین واقعہ کہلائے گا جب ایک طرف یہی مسیحا اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر کرونا سے بچانے کیلئے لوگوں کی خدمت میں مصروف ہیں اور انکا قصور صرف اتنا تھا کہ انھوں نے حکومتی روئیے سے تنگ آکر اپنے جائز مطالبات کیلئے رسائی کا راستہ بذریعہ سڑک مناسب سمجھا۔۔۔ اگر ریڈ زون کا مسئلہ تھا تو اُسکے دروازے گیٹ بند کر دیئے جاتے لیکن اسطرح ایک مہذب پیشے سے وابستہ مسیحاؤں کو سڑکوں پر گھسیٹنا اور ان پر ڈنڈوں کی بارش کرنا مناسب نہ تھا کیونکہ دونوں اطراف سے مہذب اور معزز لوگ تھے حکمران وہ بھی عوام کا اعتماد لیکر تخت نشین ہوئے ہیں اور ڈاکٹرز حضرات وہ بھی ملک وقوم کی خدمت کا حلف لیکر طلب کے شعبے میں آئے لیکن کرونا کے ساتھ ٹوئیٹر کی وباء بھی تیزی سے پھیل گئی ہے بقول ڈاکٹرزعبدالمالک صاحب کہ حکومت صرف ٹوئیٹر اور ٹیلی ویژن پر نظر آتی ہے تو یہ بھی آپ شکر کریں ورنہ ان مقامات پر بھی نظرنہ آتے تو ہم اور آپ کیا کر سکتے ہیں یہ بھی انکی مہربانی کہ کہیں نہ کہیں درشن کرادیتے ہیں،
ملک میں چینی آٹا گندم اسکینڈل پر ایف آئی اے کی رپورٹ کے بعد اسلام آباد کے ایوانوں میں اکھاڑ پچھاڑ کی خبریں بھی اخبارات کی شہہ سرخیاں ہیں جہانگیر ترین کو فارغ کرنے کی بات ہضم نہیں ہو رہی جس طرح زلفی بخاری کے حکم پر ایران بارڈر کھولنے کی باتوں کی اسلام آباد اور کوئٹہ کے تخت نشینوں نے تردید کردی۔۔۔ تو پھر تفقان سے زائرین کسطرح سے اندر آئے؟اور اب بھی آرہے ہیں اسطرح سے افغان سرحد بھی کھولی اور بند کرنے کا سلسلہ جاری ہے،
صوبائی حکومت نے کرونا وائرس کیسز میں اضافے کے بعد صوبے بھر میں لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتوں کی توسیع کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن پچھلے 15دنوں سے گھروں میں قید بھوک وافلاس سے تنگ آئے عوام کے بارے میں کیا حکمت عملی طے کی جارہی ہے اس پر بھی زور یا جائے اور حکومت کے ریلیف کے اثرات فی الفور ان تک پہنچانے کے بھی اقدامات میں تیزی لانے کی ضرورت ہے اور ریلیف پیکج کی تقسیم کے عمل کو بھی شفاف بنایا جائے اور یہ نہ ہو کہ پچھلی دفعہ جسطرح حب وندر کنراج سے غیر منصفانہ تقسیم کی صدائیں بلند ہوئی تھیں اب بھی ایسا ہواور حقدار فاقوں پر رہیں اور ریلیف پر سیاست کی چھاپ چھائی رہے گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل کی گئی کہ لسبیلہ کے ساحل پر قائم میگا پروجیکٹس کی جانب سے کراچی کیلئے امدادی سامان پہنچایا گیا یہ ایک نیک اور اچھا اقدام ہے لیکن پہلا انکا ہے جس سرزمین پر لوگ آپ کا دھواں آلودگی اور بیروزگاری سے بستر مرگ پر پہنچنے والے ہیں،
گزشتہ دنوں دیکھا گیا کہ حب شہر کے فوڈگوداموں کے باہر گندم سے لدے بڑے ٹرک اور کنٹینرز کھڑے ہیں پوچھنے پر پتہ چلا کہ سرکاری گندم لائی گئی ہے سن کر خوشی ہوئی لیکن یہ سوچنے پر بھی مجبور کردیا کہ جن گوداموں میں لاکھوں ٹن گندم رکھی جارہی ہے اسوقت انکی جو حالت زار ہے وہ بتاتی ہے کہ یہ گودام کسی بھی وقت زمین بوس ہونے کا بہانہ تلاش کر رہے ہیں اور کافی عرصہ سے بند پڑے رہنے کی وجہ سے انکی نہ تو صفائی ہو ئی اور نہ ہی ان میں موجود جراثیم کیڑے مکوڑے کو صاف کرنے کی کوشش کی گئی جس سے خدشہ ہے کہ لائی گئی گندم کیڑے پڑنے سے خراب نہ ہوجائے اور یہ بھی اندشہ ہے کہ کہیں پہلے سے گلی سڑی گندم لائی نہ گئی ہے اور کچھ عرصہ ان گوداموں میں رکھ گندم کے خراب ہونے کا الزام ان گوداموں میں موجود کیڑے مکوڑوں پر عائد کردیا جائے اور صاف گندم پر ہاتھ صاف نہ کر لیئے گئے ہوں بہرحال احتیاط اعلاج سے بہتر ہے جیسے کہ کرونا کا اعلاج احتیا ط ہے اور لوگوں کو سوشل اور فزیکل ڈسٹینس رکھنے کی ضرورت ہے
خبری لعل خبرلایا ہے کہ ضلع لسبیلہ کے کچے راستے جو کہ ایرانی تیل،غیر ملکی چھالیہ وغیرہ اور اسکی آڑ میں دوسرے خطرناک ممنوعہ اشیاء کی اسمگلنگ کے استعمال میں لائے جاتے ہیں ان راستوں کو استعمال کر کے کھکھ پتی سے کروڑ پتی بننے والوں نے بھی وہاں کے مکینوں سے اظہار ہمدردی کیلئے یا پھر کچے راستے جو کہ پچھلی بارشوں میں خراب ہوگئے تھے پھر سے ہموار کرنے کیلئے موجودہ صورتحال میں لوگوں کی مدد کیلئے اشیاء خوردونوش کی تقسیم کی ہے بہرحال اچھی بات ہے،
اچھی بات تو یہ ہے کہ طبی سازوسامان سے بھر اسلام آباد سے اُڑان بھرنے والا ایک C130طیارہ گزشتہ روز کوئٹہ پہنچا ہے جس میں غالباً کرونا وائرس سے بچاؤ کا طبی سامان ہوگا اس میں ڈاکٹرز کی حفاظتی کٹس اور مہنگے والے ماسک ہونگے لیکن ایسا نہ ہو کہ یہ ماسک بھی جسطرح سے گزشتہ دنوں وفاقی وزیر زرتاج گل کی وائرل ہونے والی تصویر میں نظر آیا ہے کی طر ح تقسیم کئے جائیں یہ ماسک ناراض اراکین کے بجائے خفاڈاکٹرز کو دیئے جائیں تاکہ وہ قوم کی صحت بچانے کیلئے اپنا تحفظ بھی کر سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں